پاکستان میں روزانہ 675 نومولود اور 27 مائیں جان گنواہ دیتی ہیں، ڈبلیو ایچ او نے فوری کارروائی کا مطالبہ کر دیا۔

پاکستان میں روزانہ 675 نومولود اور 27 مائیں جان گنواہ دیتی ہیں، ڈبلیو ایچ او نے فوری کارروائی کا مطالبہ کر دیا۔

7 اسلام آباد (تارکین وطن نیوز) عالمی یوم صحت کے موقع پر، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) تمام بین الاقوامی اور قومی شراکت داروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ پاکستان اور خطے کی خوشحالی کے لیے ایک اہم ضرورت کے طور پر زچگی سے ہونے والی اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کو کم کرنے کے لیے فوری سرمایہ کاری کریں۔ ہر روز، ملک میں ایک ماہ سے کم عمر کے 675 بچے اور 27 مائیں زچگی سے ہونے والی پیچیدگیوں سے زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں – جو کہ سالانہ 9800 زچگیوں سے ہونی والی اموات اور246300 نوزائیدہ بچوں کی اموات کی وجہ ہیں۔ اس کے علاوہ، ملک میں سالانہ 190,000 سے زیادہ مردہ بچوں پیدائش کا اندراج ہوتا ہے۔

بین الاقوامی تھیم "صحت مند آبتدا، خوشحال مستقبل” کے تحت، ڈبلیو ایچ او 2030 کے ایجنڈے اور اس کے پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کے حصول کی جانب ایک اہم قدم کے طور پر تمام ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کو اعلیٰ معیار کی صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ شراکت داری کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔

"پاکستان سمیت کسی بھی ملک کو ایک خوشحال مستقبل کے لیے صحت مند ماؤں اور صحت مند نوزائیدہ بچوں کی ضرورت ہے۔ اگر ہم سب اپنی کوششوں کو متحرک کریں تو زچگی سے ہونی والی اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کی روک تھام ممکن ہے۔ WHO ماؤں  اورنوزائیدہ بچوں کی صحت کے تحفظ کے لیے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہوں یا جہاں بھی رہتے ہوں۔  ایک زچہ یا نوزائیدہ  بچےکی موت بھی بہت زیادہ ہے، اور اس کی روک تھام کےلیے اقدامات نہ کرنے کی قیمت کہیں زیادہ ہے”۔ ڈاکٹر ڈپینگ لؤ۔

ماں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت میں لگائے گئے ہر US$1 کا تخمینہ US$9 سے US$20 کی واپسی کا ہے۔ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی صحت پر خرچ کرنا انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری ہے، نہ کہ لاگت، جو کے معاشی ترقی، خوشحالی، اور صحت مند معاشرے کا ضامن ہے۔

گزشتہ برسوں میں پاکستان نے نمایاں ترقی کی ہے۔ تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، زچگی سے ہونے والی شرح اموات کا تناسب 2006 میں 276 اموات فی 100،000  سے کم ہو کر 2024 میں 155 رہ گیا ہے۔ نوزائیدہ  بچوں کی اموات کی شرح بھی 2006 میں 52 اموات فی 1000  سے کم ہو کر 2024 میں 37.6 رہ گئی ہے۔ مردہ بچوں کی پیدائش کی شرح 2000 میں 39.8 اموات فی 1000 پیدائش سے کم ہو کر 2024 میں 27.5 رہ گئی ہے۔

پاکستان نے WHO اور شراکت داروں کے تعاون سے ملک بھر ماؤں اور نومولود بچوں میں تشنج  (MNT)  کی بیماری سے نمٹنے کے لیے بھی اہم سنگ میل حاصل کیے ہیں۔ پاکستان کی تقریباً 80 فیصد آبادی (190 ملین لوگ) اب ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں نومولود بچوں میں تشنج کا پھیلاؤ کنٹرول میں ہے –جو کے فی 1000 پیدائشوں میں تشنج کا 1 کیس سے بھی کم ہے۔ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری (ICT) اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر (PAK) نے مارچ 2025 میں، سندھ کو دسمبر 2024 میں، اور پنجاب نے 2016 میں ختم کیا۔

پیشرفت کے باوجود، 2030 کے لیے عالمی اور قومی SDG کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے دوبارہ متحرک سرمایہ کاری ضروری ہو گی، جو عالمی سطح پر زچگی کی شرح اموات کو 70 اموات/100000  پیدائشوں اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کو 12 اموات/1000 پیدائشوں تک کم کرنے کا عظم کرتی ہے۔

خواتین کی طویل مدتی صحت اور بہبود کو بہتر بنانے کے لیے اہم اضافی سرمایہ کاری ضروری ہے، جس میں جنسی اور تولیدی صحت کی خدمات تک بہتر رسائی، اعلیٰ معیار کے قبل ازوقت پیدائش کی دیکھ بھال، پیدائش کے دوران دیکھ بھال، نوزائیدہ بچوں کی فوری دیکھ بھال – مثلاً، دودھ پلانے کی معاونت، چوٹ اور انفیکشن سے تحفظ، اور اہم غذائی خدمات تک رسائ کو یقینی بنانا ہے-

انیمیا جیسی بالواسطہ وجوہات کا ازالہ کرنا بھی ضروری ہے – جو کہ پاکستان میں تولیدی عمر کی 41.7% خواتین (15 سے 49 سال کی) کو متاثر کرتی ہے – جب کہ مڈوائفری کیئر ماڈلز، ذہنی صحت اور خاندانی منصوبہ بندی تک خواتین کی رسائی، تعلیم اور معاشی مواقع میں سرمایہ کاری کرنا، جو خواتین کو اپنی اور اپنے خاندان کی صحت کے بارے میں باخبر فیصلے کرنے کے لیے بااختیار بنائے گی۔

عالمی ادارہ صحت پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ شانہ باشانہ کھڑا ہے تاکہ سب کے لیے صحت کی سہولیات فراہم کی جا، کسی کو پیچھے نہ رکھا جائے، اور ملک کے بچوں کا روشن مستقبل بنایا جائے۔

ڈبلیو ایچ او
Comments (0)
Add Comment