پاک-بینیلکس اوورسیز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا افتتاح

برسلز( نمائندہ خصوصی) پاک-بینیلکس اوورسیز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا باقاعدہ افتتاح کردیا گیا۔ 

افتتاحی تقریب یورپین پریس کلب برسلز میں منعقد ہوئی جہاں اس کا افتتاح بیلجیئم میں مقیم معروف کاروباری شخصیت شیخ طاہر نے ربن کاٹ کر کیا ۔ بیلجیئم میں بڑھتے ہوئے کرونا کے پھیلائو کے باعث تقریب میں محدود افرد کو مدعو کیا گیا تھا۔ اسی لیے اس میں پڑوسی ممالک سے مندوبین کو مدعو نہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔

یہ تنظیم بنیادی طور پر بینیلکس ممالک میں مقیم اوورسیز پاکستانیوں نے قائم کی ہے جو اپنی یورپ میں فزیکل موجودگی کے ذریعے دونوں خطوں میں تجارتی تعاون میں اضافے اور پاکستان کی معاشی ترقی میں کردار ادا کرنے کے خواہشمند ہیں۔ 

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شیخ طاہر نے PABOCCI بنانے اور اس کے ذریعے دونوں خطوں میں تعاون کے نئے امکانات تلاش کرنے کیلئے اکٹھے ہونے والے تمام افراد کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بیلجیئم میں ہجرت کرکے آنے والی پاکستانیوں کی پہلی نسل نے 1998 میں ایک کاروباری تنظیم بنانے کی کوشش کی تھی جو بوجوہ کامیاب نہ ہو سکی۔آج ہماری دوسری نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ یہ لوگ ہم سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی ہے کہ نئے ٹیلینٹ کو ساتھ لیکر انہیں بھی نئے مواقع فراہم کیے جائیں۔

تقریب میں PABOCCI کے صدر حافظ انیب راشد نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ انہوں نے آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس کے اغراض و مقاصد پر بات کی ۔ انہوں نے کہاکہ ہم اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان میں صرف پلاٹ کے خریدار کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے۔ لیکن کبھی اس بات کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی کہ ادارے بنا کر پاکستانیوں کو ان کا حصہ دار بنایا جائے۔ اس سے نہ صرف سرمائے کا غیر پیداواری بہائو شروع ہوا بلکہ مینو فیکچرنگ انڈسٹری کو سرمایہ نہ ملنے کے سب پاکستان مینو فیکچرر سے ایک کنزیومر سوسائٹی میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ 

انہوں نے کہا کہ اوورسیز پاکستانی امیر نہیں ہوتے لیکن ہر ایک بہتر نظام اور مواقع ہونے کے سبب کچھ خوشحالی رکھتے ہیں ۔ اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ذریعے انہیں ایک موقع فراہم کیا۔ جس کے نتیجے میں ملک کو 3 ارب ڈالر کا زر مبادلہ حاصل ہو گیا۔ اسی طرح اگر اوور سیز پاکستانیوں کو موقع ملے اور ان کا سرمایہ ذرائع پیداوار بنانے کیلئے استعمال ہو تو اس کے نتیجے میں نہ صرف ملک کو حقیقی اور دیرپا دولت حاصل ہوگی بلکہ اس سے اس کی کنسٹرکشن کی انڈسٹری بھی چلتی رہے گی۔ 

انہوں نے کہاکہ پاکستان بھی ایک زرعی ملک ہے اور بینیلکس ممالک بھی۔ لیکن یہاں انہوں نے اپنی زراعت کو جدید انڈسٹری میں تبدیل کر لیا جبکہ پاکستان اپنی بنیادی ضروریات کی اشیاء بھی درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ بینیلکس ممالک میں مقیم پاکستانی اس چیمبر کے ذریعے اس تمام زرعی ٹیکنالوجی کو اپنے ملک میں لیجانے کے خواہش مند ہیں۔ حکومت ان کیلئے آسانیاں پیدا کرے اور تعلیمی اداروں کو اپنے پیداواری عمل کا حصہ بنائے۔انہوں نے حاضرین کو آگاہ کیا کہ PABOCCI نے پاکستانی ایکسپورٹس میں اضافے کیلئے اپنے وئیر ہائوس پراجیکٹ اور یورپ میں ڈسپلے سینٹرز کا آئیڈیا تشکیل دیا ہے۔ اس نظام کے ذریعے ہم پاکستانی ایکسپورٹرز کے لیے یہ موقع فراہم کریں گے کہ وہ اپنا سامان یہاں رکھ کر فروخت کر سکیں۔ جس کی سپورٹ کیلئے ایک آن لائن سیل سسٹم بھی موجود ہوگا۔ اسی طرح جو کاروباری کمپنیاں کسی بھی وجہ سے یورپ میں ہونے والی کسی نمائش میں شرکت کیلئے اپنا سٹال بک کروا لیں اور پھر ویزہ نہ لگنے کے سبب وہ نہ آ سکیں تو PABOCCI ان کیلئے ان کی غیر موجودگی میں بھی ان کی مصنوعات کی مناسب تشہیر کی خدمات فراہم کرنے کی کوشش کرے گا۔ 

حافظ انیب راشد نے اس موقع پر پاکستانی ایکسپوٹرز کو یاد دلایا کہ پاکستان کی قابل برآمد اشیا کی فہرست زیادہ طویل نہیں۔ اس میں ٹیکسٹائل مصنوعات ہی قابل ذکر ہیں۔ لیکن یہ اس وقت جی ایس پی پلس سٹیٹس کی مرہون منت ہیں۔ انہوں نے سوال کیا اگر پاکستان سے آج یہ سہولت واپس لے لی جاتی ہے تو کیا ہم اپنی برآمدات کی موجودہ فگر برقرار رکھ پائیں گے ؟ ۔ انہوں نے مزید متوجہ کیا کہ یورپ اپنے لسانی تنوع کے لحاظ سے منفرد ہے ۔ 27 ملکوں کے ایک بلاک میں ہر ملک اپنی کئی لسانی شناختیں رکھتا ہے۔ لیکن جدید تحقیق کے سبب ان کے پاس وہ علم وافر تعداد میں میسر ہے جس کے ذریعے پاکستان نہ صرف اپنی قومی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہو سکتا ہے بلکہ اپنی فاضل پیداوار کو برآمد بھی کر سکتا ہے ۔ 

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پابوسی کے نائب صدر اور فوڈ ڈسٹری بیوشن کے معروف تاجر جاوید کوثر رانا نے کہا کہ ویسے تو آج اس تنظیم کی ابتدا ہے۔ لیکن ہمیں اصولی طور پر یہ طے کر لینا چاہیے کہ آج ہم جہاں کھڑے ہیں اور جو کام کر رہے ہیں  اسی میں مزید بہتری لائیں گے۔ 

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان میں کاروبار کیلئے مزید آسانیاں پیدا کرے تاکہ ہم لوگ یہاں کے آئیڈیاز کو آسانی کے ساتھ اپنے ملک منتقل کر سکیں۔خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے خاتون کاروباری شخصیت روبینہ خان نے اس کوشش کا خیر مقدم کیا ۔

انہوں نے کہاکہ اپنی ٹرانسلیشن کی سہولت کے ذریعے اللہ نے انہیں یہ توفیق عطا فرمائی کہ وہ اپنے لوگوں کی خدمت کر سکیں۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے مرحوم والد خان رشید خان کا ذکر بھی کیا جنہوں نے شیخ طاہر کے ساتھ ملکر بیلجیئم میں پہلی کاروباری تنظیم بنانے کی سعی کی تھی۔

اس موقع پر موجود تمام کاروباری شخصیات جمال خان، شکیل گوہر، علی رضا سید، سعد شیخ، سردار صدیق خان، فخر عباس اور پرویز بیگ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اس چیمبر کے ذریعے دونوں خطوں کے کاروباری افراد کو بہتر مواقع مل سکیں گے۔ اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے ذریعے دونوں خطوں کے درمیان کاروباری،  بہتر سماجی اور ثقافتی تعلقات میں اضافے کیلئے کلیدی کردار ادا کر سکیں گے۔

Comments (0)
Add Comment