رومانوی شہر پیرس کی ایک سرد شام

‎پیرس میں شدید سردی اور آسمان پرگہرے سرمئی بادل چھائے ہونے کے باوجود ہمارا قافلہ انقلاب فرانس کی سب سے معروف اور مصروف یادگار”ایفل ٹاور “کا نظارہ کرنے کے بعدپیرس کی خوبصورت شاہراہ “شانزےلیزے”پہنچ گیا ,ہمارے پاس یہاں پیرس میں صرف ایک دن باقی تھااور ابھی پیرس کے بہت سے قابل دیدمقامات دیکھنے باقی تھےاور کچھ دوستوں سے ملنا بھی مقصودتھا۔

‎شانزے لیزے دیکھنےکی خواہش تو مستنصر حسین تارڑ کی کتاب “پیار کاپہلا شہر”پڑھنے کے بعد ہی ہمارے دل میں پیدا ہو گئی تھی، پھر کالج دور میں فلموں میں شاہ رخ خان اور دیگر ہیروز کو پیرس کی سڑکوں پہ گھومتے دیکھا کرتے تھے۔

پیرس پہنچ کر رومانوی شاہراہ شانزے لیزے نہ جائیں بھلا ایسا کیسے ہو سکتا تھا۔اس سفر میں ہمارے میزبان بزم اہل سخن پیرس کے صدرعاکف غنی،سیکرٹری ایاز محمود ایاز،سیکرٹری مالیات آصف جاوید آسی ،بزم کے سرپرست اعلی شیخ نعمت اللہ اور اٹلی سے آئے مہمان شاعر احمد نصیر ملک ہمارےساتھ تھے۔

‎سردی کی شدت کم کرنے کیلئے شانزے لیزے پہنچتے ہی ایک معروف تاریخی کیفے بار سے ہماری چاکلیٹ کیک اور گرماگرم کافی سے تواضع کی گئی ۔کیفےبار میں مختلف ممالک کی خوبروحسینائیں بھی اپنے سیاح گاہکوں کو عقابی نظروں سے تلاشنے اور اپنی طرف متوجہ کرنےمیں مصروف تھیں ،کافی اور چاکلیٹ کیک کھانےکے بعد بعدہم شانزے لیزے کے دلکش مناظر اور دل میں اترتے لمحوں کو کیمرہ میں محفوظ کرنےمیں مصروف ہو گئے۔ تاریخی محراب Arc dec trivapuiکی طرف پیدل جاتے ہوئے میں عالیشان عمارتوں،آرٹ کے خوبصورت فن پاروں اور درختوں کے سرخ و زرد پتوں پہ رنگ ونور کی برسات میں ہی کھویا رہا۔سڑک پہ بکھرے خشک پتے رنگ برنگی روشنیوں عجب رومانی منظر پیش کر رہے تھے۔

‎شانزے لیزے پیرس فرانس کی فیشن کی دنیا ہے ۔شاہرہ کے دونوں اطراف مشہور کیفے ریسٹورنٹ،لگثری شاپس اورتھیٹرز ہیں جبکہ یہ شاہراہ دنیا بھت کے مشہور اور مہنگےبرانڈز کی شاپس کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں جانی جاتی ہے ۔جبکہ ٹورڈی فرانس ریس کا اختتام اور چودہ جولائی فرانس کی سرکاری پریڈ کا انعقاد بھی یہیں سے ہوتا ہے۔

‎شانزے لیزے کی یادگار ایک خاص طرز تعمیر کو ظاہر کرتی بڑی سی محراب ہےجہاں سے تمام پیرس کی طرف سڑکیں نکلتی ہیں ۔

‎جب ہم اس تاریخی محراب کے پاس پہنچے تو سرد ہوا نے ہمارا گرمجوشی سے استقبال کیا مگر ہم نے سردی کو خاطر میں لائے بغیر مزے سے سیلفیاں لی اورکچھ دیر فیسبک پر بھی لائیو آکر دوستوں سے گپ شپ میں بھی مصروف رہے۔

‎اس موقع پر ایاز محمود ایاز نے بتایا کہ سفارت خانہ پاکستان بالکل شانزے لیزے کی مین سٹریٹ کے پاس ہے اور یہ قیمتی بلڈنگ سفارتخانہ کی اپنی ملکیت ہے جبکہ ادھر سے قطر ایمبیسی کی خوبصورت عمارت بھی نظر آ رہی تھی اسکے علاوہ صدارتی محل اور اسمبلی ہال بھی اس بارونق شاہرہ پر ہی ہیں۔

‎رات گئے ہم شانزے لیزے کی خوبصورتی کوآنکھوں اور دل میں سمیٹے گھر کی جانب لوٹے۔میرا ارادہ تھا کہ گھر پہنچ کر”شانزے لیزے “کی دلکشی پر کچھ لکھوں مگر بقول منیر نیازی

‎”کچھ باتیں لکھ نہیں پاتا“

‎سردی کی ٹِھٹھرتی شاموں کی
‎بَرکھا میں برستی سوچوں کی
‎گرمی میں چمکتی آنکھوں کی
‎سُرخی میں بھڑکتے ہونٹوں کی
‎عمروں میں بھٹکتی آنکھوں کی

خوشبووں کے شہر پیرس میں انقلاب فرانس کی یادگار”ایفل ٹاور “اور دنیا کی خوبصورت ترین سڑک ”شانزے لیزے کی سیر اور بزم اہل سخن کے شاندار مشاعرے کے بعداگلی صبح میں اور اٹلی سے آئے مہمان شاعر احمد نصیر ملک اپنے میزبان لکھاری دوستوں برادرم ایازمحمودایاز ،عاکف غنی اورآصف جاوید آسی کے ہمراہ پیگال علاقہ میں واقع مقدس پہاڑی سے ہوتے ہوئے “پیگال چرچ”پہنچے۔

پیگال چرچ دنیا کے قدیم ترین کلیساوں میں سے ایک ہے۔جو 1870عیسوی میں مکمل ہوا۔خوبصورت سفیدقیمتی سنگ مرمرسے مزین یہ چرچ83میٹر اونچی پہاڑی پر بنایا گیا ہے۔

ہم نے پیگال چرچ کی جانب جانے والی پتھریلی سیڑھیوں پر بیٹھ کر پیرس شہر کو ایک خوبصورت پینٹینگ کی طرح اپنی آنکھوں کے سامنے بکھرا ہوا دیکھا ۔ یہ منظر میری زندگی کے شانداراور انمٹ نقوش چھوڑنے والے مناظر میں سے ایک تھابلندی سے پیرس شہر کا یہ قابل دید منظرنا صرف ہم نے اپنی آنکھوں اوردل میں محفوظ کیابلکہ شانزے لیزے کی طرح فیسبک لائیو کے ذریعےاپنے دوستوں کو بھی دکھایا۔

سگرادھا فاملیابارسلونا کی طرح پیگال چرچ پیرس میں بھی سارا سال سیاحوں کا بہت رش رہتا ہے ، چرچ کی سیڑھیوں پر دنیا بھرکے ماہر مصور مینٹوں میں سیاحوں کی تصاویر بنانے میں محونظر آتے ہیں اور چلتے پھرتے دکاندار ایفل ٹاور پیگال چرچ اورپیرس کی دیگر تاریخی عمارات کے مجسمے،تصاویراورسووئینرز فروخت کرنے میں مگن تھے ۔پیگال کے ارد گرد گلیوں میں سستےبازار،ہوٹلز،ریسٹورنٹ،باریں ،موسیقی کے آلات ،سووئینرز کی دکانیں اور نائٹ کلب وغیرہ کثیر تعداد میں ہیں۔

Comments (0)
Add Comment