وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان روس کا دورہ کر رہے ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے خطے کی تبدیل ہوتی صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان کا یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے روس ہمارے خطے کا ایک بڑا ملک ہے جس کے ساتھ ماضی میں ہمارے تعلقات میں خاصی سرد مہری رہی ہے مگر جیسے جیسے دنیا کے اندر زمینی حقائق تبدیل ہو رہے ہیں اور کل کے دشمن آج کے دوست اور دوست دشمن میں تبدیل ہو چکے ہیں اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان اور روس کے درمیان دوریاں ختم کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔
پاکستان اور روس کے درمیان سفارتی تعلقات کے علاوہ اگر تجارتی تعلقات بھی استوار ہوتے ہیں تو یہ پاکستان کی معاشی ترقی کے علاوہ روس کی شکل میں پاکستان کو ایک بہتر دوست میسر آئے گا دنیا بھر کے ممالک آج کی دنیا میں معاشی تعلقات کو ترجیح دے رہے ہیں ہمیں بھی اب آہستہ آہستہ امریکی بلاک سے نکل آگے بڑھنا ہوگا روس اور چین ہمارے دو ایسے ہمسایہ ممالک ہیں جن کے ساتھ ہماری مثالی دوستی ہمارے روشن اور بہتر مستقبل کی ضمانت ہے پاک چائنہ راہداری سے روس بھی بہتر انداز میں فوائد حاصل کر سکتا ہے جو یقینا امریکہ کو ” وارے ” میں نہیں ہے مگر ایک خطے کے ممالک کو ایک دوسرے کے مسائل کو حل کرکے ہی آگے بڑھنے کی سوچ کو اپنانا ہوگا تاکہ خطے کی صورتحال کو بھی بہتر بنایا جاسکے اور امن کی فضا کو بھی تقویت ملتی رہے۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال کو اکیلا پاکستان شاید اس انداز سے بہتر نا بنا سکے جتنا چین، روس کے ساتھ ملکر پاکستان بہتر بنانے میں کردار ادا کر سکتا ہے اسکے علاوہ بھارت بھی اب روس سے کافی پیچھے ہٹ چکا ہے اور امریکہ کے بلاک کا حصہ ہے اس تناظر میں بھی پاک روس دوستی اہمیت اختیار کرتی دیکھائی دیتی ہے خصوصاً مسلہ کشمیرکے حل میں روس آگے چل کر نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے پاکستان اور روس کو ماضی کی تلخیوں کو بھول کر ایک نئے دور کا اغاز کرنا چاہئیے اور ایک ایسی سوچ کو اپنانا چاہئے جو ایک دوسرے کے تعاون سے معاشی ترقی کو بڑھاوا دے اور ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ ممکن ہوسکے روسی صدر ولادی میر پوٹن سابق فوجی ہونے کے علاوہ ایک زیرک سیاست دان ہیں جنھوں نے روس کو ایک نئی پہچان دی ہے۔
ترقی پسند سوچ کے حامل ولادی میر پوٹن یقیناً مستقبل کی پالیسی پر گامزن ہیں اسی طرح پاکستان کو بھی ایسی مستقل پالیسیوں کو آگے بڑھانا ہوگا جو روس اور چین کے ساتھ تعلقات میں ایک تسلسل کو قائم رکھ سکیں پاکستان کے تھنک ٹینک کو اگر معاشی چیلنجوں سے نبرآزما ہونا ہے تو ایک ایسی پالیسی مرتب کرنا ہوگی جو خطے کے ممالک کے ساتھ روابط کو بڑھائے اور ان رابطوں کے ذریعے ہونے والی کوششوں کو عملی جامہ پہنائے ہمارے ہاں ایک ایسی مستقل مزاجی کی اہم ضرورت ہے جس میں تمام سیاسی جماعتیں اور اسٹبلشمنٹ ملکر خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو استوار کرے تاہم ماسکو اور اسلام آباد کے درمیان بہتر تعلقات مستقبل کی روشن تصویر کشی کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔