منی پاکستان کراچی پچھلی کئی دہائیوں سے سیاسی اور انتظامی دونوں طرح سے تباہی و بربادی کا شکار چلا آرہا ہے۔ کراچی کے چند ایک مسائل تو قیامِ پاکستان کے وقت سے چلے آرہے ہیں لیکن حقیقی معنوں میں اس کی تباہی و بربادی کی بُنیاد اس وقت پڑی جب کراچی میں قومی سطح کی سیاست کی جگہ لسانی بُنیادوں پر سیاست کا آغاز ہوا اور مہاجر قومی موؤمنٹ (بعد ازاں متحدہ قومی موؤمنٹ)، مہاجر قومی موؤمنٹ حقیقی (بعد ازاں مہاجر قومی موؤمنٹ)، پیجابی پختون اتحاد اور اس طرز کی دوسری جماعتیں اور تنظیمیں کراچی کی سطح پر نمودار ہوئیں اور کراچی پر قبضہ کی جنگ شروع ہوگئی۔ جس میں مہاجر قومی موؤمنٹ (بعد ازاں متحدہ قومی موؤمنٹ) نے منظم منصوبہ بندی سے اپنے لسانی کارڈز استعمال کئے اور اس شہر کی سیاہ و سفید کی مالک بن گئی اور کراچی لسانی سیاست کا سب سے بڑا اکھاڑا بن گیا۔
ہر خاص و عام لسانیت کے سحر میں ڈوب گیا۔ اسی سحر کے طُفیل اہالیانِ کراچی باالخصوص کراچی کے مقامی اُردو دان طبقہ نے تین دہائیوں سے زیادہ ذہنی طور پر مفلوج شخص کو ایک مقدس دیوتا بناکر پُوجا اور اندھے اعتقادیوں کی طرح اس کی ہر بات پر سرخم تسلیم کیا۔ اس کی ہر بات کو سچ جانا۔ اس کی ہر بات پر عمل کیا اور مُجرمانہ غفلت کا ارتکاب کرتے ہوئے اس کے ہر جُرم اور گناہ سے چشم پوشی کی اور اس کی پھیلائی ہُوئی فتنہ انگیزی، شر اور خوف کا شکار ہوکر چاہتے نا چاہتے ہو ئے بھی اس کی دست بوسی کرتے رہے اور اس کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرتے رہے۔ لیکن اس عقیدت اور شخصیت پرستی کی اندھی وباء کے طُفیل بدلے میں کراچی کو اگر کچھ ملا بھی تو لسانی بُنیادوں پر ہونیوالی خون ریزیاں اور نسلی فسادات، کارکنان کی فوجی طرز کی ٹریننگ، ان کی چھاپہ مار کاروائیاں، مخالفین پر انسانیت سوز بہیمانہ تشدد اور اس کے لئے بنائی جانیوالی عقوبت گاہیں، ٹارگٹ کلنگ، بوری بند لاشیں، اپنے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر حکمرانوں کو بلیک میل کرنے کے لئے ہونے والی خون آشام ہڑتالیں، افواجِ پاکستان اور پولیس اہلکاروں پر حملے، جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ، بھتہ خوری، ڈاکہ زنی و لوٹ مار، اغواء برائے تاوان، سرکاری املاک کا نقصان، سرکاری املاک اورمخالفین کی زمینوں پر قبضے، چائنا کٹنگ، بجلی و پانی کی چوری، ترقیاتی منصوبوں میں ہونیوالی کرپشن، اسمگلنگ، سرکاری اداروں میں اپنے کارکُنان کی خلاف قانون بھرتیاں اور اس طرح کی بے شمار دوسرے مسائل نے کراچی کو روشنیوں کے شہر سے ایک جیتے جاگتے جہنم کدہ میں تبدیل کردیا۔
جس کی وجہ سے کراچی بجائے ترقی کرنے کے پسماندگی اور لاقانونیت کا شکار ہوتا گیا۔ یہاں صنعتی ترقی رُک گئی اور یہاں سے صنعتیں ملک کے دوسرے حصوں میں اور بیرونِ ممالک منتقل ہونے لگیں۔ پاکستان کے دوسرے علاقوں اور بیرونی دُنیا میں جو لوگ کراچی دیکھنے کا خواب دیکھتے تھے وہ خواب ان کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن گیا۔ کراچی جو کبھی پورے ملک کی قیادت کرتا تھا اور ایک ٹریڈ سینٹر شہر تھا وہ مُقدس دیوتا کی مہربانیوں کے طفیل خوف اور تباہی و بربادی کی علامت بن گیا۔ شہر میں ہونے والی تباہی و بربادی اور بے گُناہوں کے بہتے خون سے مُقدس دیوتا کی شان بڑھنے لگی اور وہ طاقتور ہوتا گیا اور اس کے پُجاری اس کے سحر میں ڈوبتے چلے گئے۔
کراچی میں جتنی تباہی بربادی ہوتی، جتنا خون بہتا اور جتنے گھر اُجڑتے مقدس دیوتا کا اقبال اتنا ہی بُلند ہوتا۔ اور جو جتنی زیادہ تباہی و بربادی پھیلاتا، بے گُناہوں کا جتنا زیادہ خون بہاتا اور جتنے زیادہ گھر اُجاڑتا وہ مقدس دیوتا سے اُتنی زیادہ آشیرباد سمیٹتا اور اُتنی زیادہ داد کا مُستحق ہوتا، اور اُسی مناسبت سے اس کو نوازا جاتا۔ اور ساتھ میں مُقدس دیوتا کمال ہوشیاری اور عقل کو دنگ کرنے والی مہارت کے ساتھ شہر میں اپنے ہی ہاتھوں پھیلائی جانیوالی تباہی و بربادی اور خونریزی پر سینہ کوبی شروع کردیتا اور مگرمچھ کے آنسو بہانا شروع کردیتا۔ اور اس کی پروپیگنڈا مشینری انتہائی شدت کے ساتھ آہ و بقا شروع کردیتی اور خُود کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے واویلا مچانا شروع کردیتی اور انتہائی منظم اور خوفناک انداز میں اس قدر بھرپور انداز سے پروپیگنڈا شروع کردیتی کہ لوگ ظالم کو ہی مظلوم سمجھنے لگتی اور قاتلوں سے ہمدردی اور ان کی مدد اور حمایت ایک مقدس فریضہ سمجھ کر کرنے لگتی۔ (جاری ہے)
عزیز خان
بانی و چیئرمین،دی گریٹر پاکستان موؤمنٹ
پیوستون مرکز برائے تزویراتی مطالعہ و پالیسی سازی
اسلام آباد، پاکستان