کرسیوں کی تجارت کا سب سے بڑا ملک ۔۔۔۔پاکستان
پاکستان دنیا کا امیر ترین ملک ہے جس میں عوام اور حکومت دونوں امیر ترین ہیں ۔ پاکستان میں تیل کی پیداوار اور ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی طرح تیل زمین و سمندر سے نہیں نکلتا پھر بھی پاکستان اتنا امیر ملک ہےجس کے عوام اور حکومت مع اپوزیسن پورے 5 پارلیمانی سال انتخابی مہم چلاتے ہیں ۔حکومت سازی کے ساتھ ہی حکومت شکنی کی سازشیں عروج پر پہنچ جاتی ہیں ۔
اوپیک OPEC وہ ممالک ہیں جس میں کالا سونا Black gold یعنی کروڈ آئل یعنی خام تیل زمین اور سمندر سے نکلتا ہے ۔ان ممالک میں الجیریا ، انگولا ، گنی ، گیبن ، ایران ، عراق ، کویت ، لیبیا ، نائیجیریا ، کانگو ، سعودی عربیہ ، متحدہ عرب امارات اور وینزویلا شامل ہیں ۔ سیاسی اورجغرافیائی تبدیلیاں شمار فرما لیجئے گا۔
تیل پیدا اور ایکسپورٹ کرنے والے ممالک اور ان ممالک میں ان ممالک کی عوام اور حکومتیں کام کرتی ہیں جبکہ پاکستان میں تو خام تیل کی پیدا وار نہیں جو ایکسپورٹ کر کے آمدنی ہو اور عوام اور حکومت ہلے گلے موج مستیوں شغل میلے میں راتیں گزاریں اور دن میں سوئیں ۔ مگر پاکستان میں ایسا ہی ہے۔
پاکستان کی ایکسپورٹ میں چمڑا leather , اسپورٹس مصنوعات ، کیمیکلز ، کارپٹ کے ساتھ چاول ، شکر ، کاٹن ، فش ، پھل اور سبزیاں کچھ مقدار خاص کے ساتھ شامل ہیں ۔ بڑی ایکسپورٹ میں آم mango اور کاٹن بھاری ایکسپورٹ major exports ہیں ۔ مگر پاکستان کے عوام ، اپوزیشن ، حکومت اتنی امیر ہے کہ اپنی ایکسپورٹ کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ اور value کی طرف توجہ ہی نہیں ۔
پاکستان کی حکومتوں اور عوام کی ساری توجہ کرسی کی تجارت کی طرف رہتی ہے۔ جتنی جدو جہد مشقت محنت پاکستان میں کرسی کے حصول کے لئے کی جاتی ہے اس کا دس فیصدبھی عوام اور حکومتیں کرسیاں بنا کر ایکسپورٹ کریں تو پاکستان دنیا کا نمبر ون کرسی ایکسپورٹ ملک بن جائے اور پاکستان کی معیشت کو سہارا ملے ۔
شام ڈھلتے ہی عوام کرسی کے سوداگروں کے سجائے ہوئے دنگل میں جا کھڑے ہوتے ہیں ۔ دنگل دیکھ کر تالیاں پیٹتے ہیں ۔ سیٹیاں بجاتے ہیں ۔ ادھر حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور تیار ہو تم تیار ہو کے جواب میں ہم تیار ہیں کے فلک شگاف نعرے مارتے ہیں ۔ اور پھر دوسرے دن یہی عوام اپوزیشن کے لگائے گئے دنگل میں جا کھڑے ہوتے ہیں اور ہم تیار ہیں کےادھر بھی نعرے مارتے ہیں ۔
جب عام انتخابات ہو جاتے ہیں تو انتخابات کے بعد اگلے انتخابات کا دورانیہ 5 سال ہوتا ہے۔ نئی بننے والی حکومت اگلے 5 سال ملک کو چلانے کی منصوبہ بندی نہیں کرتی ، اگلے 5 سال اپنی حکومت بچانے کی فکر میں غلطاں و پیچاں رہتی ہے ۔
پاکستان کا نیا وزیر اعظم پانچ سال ملک کی تعمیر اور اصلاحات reforms تو تب کرے گا اگر اس کو کام کرنے دیا جائے گا۔ نیا وزیر اعظم کرسی وازارت عظمی ملتے ہی اپنی کرسی بچائے گا یا عوام اور ملک کو بچائے گا۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی وزیر اعظم کو کام کرنے نہیں دیا گیا ۔جس وزیر اعظم نے سڑکیں بنا دیں، پل بنا د یئے، تعمیراتی منصوبے بنا د ئیے، اسکول، کالج ،جامعات، ہاسپٹل ،مساجد، مراکز اسلامی بنا د یئے ے ملک کو ایٹمی قوت بنا دیا ،چاہے وہ بھٹو ہو یا نواز شریف اس نے یہ کام اسی کرسی کی جنگ کے ماحول میں کیا ۔ کام ان کو بھی کسی نے کرنے نہیں دیا۔
پاکستان سن 2018 سے سن 2028 تک 200 سال پیچھے جائے گا۔ عوام 2028 تک عمران خان کو ایک کندھے پر اور نواز شریف کو دوسرے کندھے پر بٹھا کر کرسی کی سوداگری میں تماشائی کا کردار ادا کرے گی ۔
میرے عزیز شغل میلہ اور جلسہ جلوس مزاج ہموطنو ۔ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری کا پیغام ہے عرب کے ریگزاروں سے کہ
10 اگست 2018 کو عمران خان نے 22 سال کرسی کی جدوجہد کے بعد کرسی حاصل کی ۔ اگر اپوزیشن عمران خان کو 5 سال پورے کرنے دیتی تو کم ازکم اگلے 5 سال کوئی بھی نئی حکومت پورے 5 سال کام کرتی ۔کرسی بچانے کی منصوبہ بندیوں میں نہ الجھتی ۔
پاکستان دنیا کا امیر ترین ملک ہے جس میں 440 ارب روپے لگا کر وزیر اعظم بنایا جاتا ہے پھر 200 ارب لگا کر اسی وزیر اعظم کو ہلایا جاتا ہے ۔
کرسی کے سوداگر
پاکستان زندہ باد