ابلیس نے جب حکم خداوندی کی نافرمانی کرتے ہوئے آدم کو سجدہ کرے سے انکار کیا تو وہ نافرمان ٹھہرااور راندہ درگاہ ہوگیا۔ ابلیس نے اس موقع پر بارگاہ خداوندی میں کہا کہ آپ نے مجھے اس مٹی سے بنے آدم کو سجدہ نہ کرنے پر سزا دی ہے ، مجھے قیامت تک مہلت دو اور پھر دیکھنا کہ میں اولادآدم کا کیا حشر کرتا ہوں۔ اللہ نے ابلیس کی درخواست قبول کی اور کہا کہ قیامت تک تمہیں مہلت ہے۔ ابلیس نے کہا کہ اب دیکھنا، میں اس مٹی کے پتلے کی اولاد کی کیا درگت بناتا ہوں اور پھر ابلیس نے اپنا مشن شروع کردیا۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ قتل و غارت گری ، گمراہی اور خون ریزیوں کی طویل داستان ہر دور میں لکھی گئی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور ابلیس اپنے مشن میں ہر لمحہ سرگرداں رہا کہ پھر کچھ عرصہ بعد ایک تمثیلی انداز میں ابلیس نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی کہ خدا میں نے جو مشن شروع کیا تھا اسے اب جاری نہیں رکھنا چاہتا اور مجھے جو مہلت دی گئی تھی اسے اب ختم کردی جائے ۔ میں اپنی ڈیوٹی سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں۔ خدا نے ابلیس سے پوچھا کہ تم تو بڑے زعم اور جذبے سے اپنے مشن پر کاربند ہو اور خود قیامت تک مہلت مانگی تھی لیکن اب کیوں یہ کام چھوڑنا چاہتے ہو۔ تو ابلیس نے جو جواب دیا اسے علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں یوں بیان کیا ہے کہ
جمہور کے اِبلیس ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
ابلیس خدا سے درخواست کرتا ہے کہ جو کچھ میں نے کرنا تھا اس سے کہیں بہتر یہ سیاست دان کررہے ہیں اس لئے ان سیاست دانوں کے ہوتے ہوئے اب میری ضرورت باقی نہیں رہی اس لئے مجھے اب چھٹی دے دی جائے۔ علامہ نے ایسے لیڈروں کو ابلیسی سیاست کا نمائدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ خدا نے تو آگ سے ایک ابلیس بنایا تھا لیکن انہوں نے مٹی کے ہزاروںابلیس بنا لئے ہیں۔ فرماتے ہیں۔
تری حریف ہے یا رب سیاستِ افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
بنایا ایک ہی اِبلیس آگ سے تو نے
بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس
سیاست کوئی شجر ممنوعہ نہیں اور نہ ہی سب سیاسست دان قابل نفرت ہیں۔ہ لوگ جو سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں اور جو علماءحق ہیں ، وہ قابل سد عزت و تکریم ہیں البتہ جنہوں نے ابلیسی سیاست کو اپنا منشور بنا رکھا ہے وہ قابل مذمت ہے اور ایسی شیطانی سیاست کو دیکھ کرابلیس بھی شرمندہ ہے۔اس میں وہ نام نہاد علماءبھی شامل ہیں جن کے بارے میں قرآن سورہ توبہ کی آیت 34 میں واضح اعلان کرتا ہے کہ ”اے ایمان والو! بیشک اکثر علماء اور درویش، لوگوں کے مال ناحق طریقے سےکھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں (یعنی لوگوں کے مال سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور دینِ حق کی تقویت و اشاعت پر خرچ کئے جانے سے روکتے ہیں)، اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں“۔ اس آیت و علامہ اقبال نے اپنے شعر میں یوں سمویا ہے کہ
یہی ہے شیخ حرم جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
کلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہری
قرآن اس حوالے سے بیان کرتا ہے کہ ابلیسی سیاست کے علمبردار لیڈر اور ان کے پیروکار عوام جہنم میں ایک دوسرے کو الزام دیں گے کہ ہم تمہاری وجہ سے اس حال کو پہنچے ہیں۔ اس بحث و مباحثہ کی قرآن حکیم نے جس انداز سے منظر کشی کی ہے، وہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ ہماری ہی بات ہورہی ہو۔ بالکل، یہ ہماری ہی بات ہے کیونکہ کہ قرآن حکیم کی سورہ الانبیاءکی دسویں آیت میں واضح کردیا ہے کہ اس کتاب عظیم میں تمہارا ہی ذکر ہے ۔حیات آخرت کا نقشہ پیش کرتے ہوئے قرآن حکیم جہنم میں عوام اور ان کے قائدین درمیان ہونے والی گفتگو اور بحث کو مختلف مقامات پریوں بیان کیاہے۔ سورہ الصفات کی آیت 27 تا 34 میں ہے کہ اور وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوکر باہم سوال کریں گے۔عوام کہیں گے بے شک تم ہی تو ہمارے پاس اپنے حق پر ہونے کی قَسمیں کھاتے ہوئے آیا کرتے تھے۔. انہیں گمراہ کرنے والے پیشواکہیں گے کہ تم خود ہی ایمان لانے والے نہ تھے اور ہمارا تم پر کچھ زور اور دبدبہ تھا بلکہ تم خود سرکش لوگ تھے۔ پس ہم پر ہمارے رب کا فرمان ثابت ہوگیا۔اب ہم عذاب کا ذائقہ چکھنے والے ہیں۔ سو ہم نے تمہیں گمراہ کر دیا بے شک ہم خود گمراہ تھے۔ پس اس دن عذاب میں وہ سب باہم شریک ہوں گے۔
بے شک ہم مجرموں کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ سورہ سبا کی آیت 32 اور33میں ہے کہ لیڈر عوام سے کہیں گے کہ تم خواہ مخواہ کیوں باتیں بنا رہے ہو۔کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا اس کے بعد کہ وہ تمہارے پاس آچکی تھی، بلکہ تم خود ہی مجرم تھے۔ پھرعوام اپنے لیڈروں سے کہیں گے کہ تمہارے رات دن کے مَکر، چال بازیوں اور فریب کاریوں ہی نے ہمیں روکا تھا جب تم اس قسم کے قوانین بناتے تھے جن سے ہم قوانین خداوندی کے انکار کے مرتکب ہوجاتے تھے اور ہم اللہ کے احکامات میں دوسروں کے احکامات کو شریک کرتے تھے۔ لیڈر اور عوام دونوں عذاب کو آتے ہوئے دیکھ کراپنی ندامت چھپائیں گے اور ہم انکار کرنے والوں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے، اور انہیں ان کے کیئے کا ہی بدلہ دیا جائے گا۔ سورہ ابراھیم میں دعوت غوروفکر دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اقوام عالم کی تاریخ پر نگاہ دوڑاتے ہوئے دیکھو کہ جن کو خدا نے زندگی کی خوشگواریاں عطا کی تھیں لیکن انہوں نے اس کی قدر نہ کی اور اپنی قوم کو تباہی اور بربادی کی جانب جھونک دیا جس کا نتیجہ دوزخ ہے جو بہت براٹھکانہ ہے۔ لیڈروں کے ستائے ہوئے عوام کی دہائی کو سورہ الاحزاب کی آیت 67 اور 68 میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ اپنے رب سے کہیں گے کہ اے ہمارے رب بیشک ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہا مانا تھا تو انہوں نے ہمیں سیدھی راہ سے بہکا دیا۔ اے ہمارے رب! انہیں دوگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت کر۔ اسی صورت حال کو سورہ ص کی آیت 61 سے میں بھی بیان کیا گیا ہے جب عوام عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب چونکہ یہ ہمارے مصائب اور پریشانیوں کے ذمہ دار ہیں اس لئے انہیں دو گنا عذاب دے۔
سورہ فصلت کی آیت92 کے مطابق عوام بارگاہ الہی میں عرض کریں گے کہ اے رب ہمیں وہ رہنمائ دیکھا دے جنہوں نے ہمیں غلط راستے پر ڈال دیا تاکہ ہم انہیں اپنے پاوں تلے کچل دیں۔ عوام اور لیڈروں کے آپس میں جھگڑنے کی ایک اور تصویر سورہ المومن کی آیت 47 اور 48 میں بڑے سبق آموز انداز پیش کی ہے جس کے مطابق اس جہنم میں لوگ ایک دوسرے ساتھ جھگڑیں گے۔ عوام اپنے لیڈروں سے کہیں گے کہ تم نے ہمیں اپنے پیچھے لگایا ہوا تھا اب ہم سے یہ عذاب دور کرو جس پر لیڈر کہیں گے کہ ہم سب اس عذاب میں مبتلا ہیں جو اہمارے اعمال کا نتیجہ ہے اور اس میں ردوبدل ممکن نہیں کیونکہ کہ خدا کا فیصلہ ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت 166 اور 167 میں حسرت ناک انجام کی ذکرکرتے ہوئے قرآن حکیم کہتا ہے کہ یہ بات عوام کو اس وقت سمجھ آئے گی جب ان کے رہنماءاور پیشوا ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور وہ سوچیں گے کہ اے کاش وقت واپس لوٹ جائے اور ہم بھی اہنے ان لیڈروں اور پیشواوں سے آنکھیں پھیر لیں۔ دیکھا آپ نے جن لیڈروں کی ہر غلط اور ناجائیز بات کے لئے دوسروں سے لڑتے اور جھگڑتے ہیں ، وہی ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ لیڈر چونکہ عوام کو غلط راستے پر لے جانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں اسی لئے سورہ النحل کی آیت52 میں واضع طور پر بتا دیا کہ لیڈروں اور پیشواوں کا ان عوام کے کچھ اعمال بھی بوجھ اٹھانا پڑے گا جنہیں انہوں نے گمراہ کیا تھا۔قرآن حکیم بار بار ہمیں غور و فکر کی دعوت اس لئے دیتا ہے کہ ہم سوچیں اور اگر ہم مذکورہ بالا آیات پر تدبر کریں تو یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ یہ تو ہمارے بارے میں ہی بات کی گئی ہے۔
چشم تصور سے دیکھا جاسکتا ہے کہ ہمارے عوام اللہ تعالیٰ سے التجا کررہے ہوں کہ اے ہمارے رب ہمارے ان راہنما وں کو سخت اور دہرا عذاب دے جنہوں ہمیں غلط راستے پر چلایا۔ اسی تصویرکا دوسرا رخ یہ بھی ہوگا کہ قائدین اور پیشوا عوام سے کہیں گے کہ تم خود ذمہ دار ہو اور تم نے خود ہمیں اپنے اوپر مسلط کیا تھا۔ اگر ہم اتنے ہی برے تھے تو ہمارا ساتھ کیوں دیتے تھے۔ لہذا ہم پہ لزام نہ دو تم نے معمولی مفاد کی خاطر سچ کا ساتھ نہ دیا۔تم ان لیڈروں کا ساتھ کیوں نہیں دیتے تھے جو حق اور سچ کی آواز بلند کرتے تھے اور باکردار ہیں۔ ہماری کرپشن کے باوجود ہمیں اپنا لیڈر تسلیم کرتے تھے اوردنیا وی مفاد کی خاطر حیات آخرت کا سواد کیا اس لئے اب آؤ دونوں اس عذاب کا مزا چکھیں۔ یوں لگتا ہے کہ اس بحث کے بعد فرشتے ہانکتے ہوئے سب کو اس جہنم کی طرف لے جائیں گے جو بہت برا ٹھکانہ اور اس روز کوئی ان کے کام نہیں آئے گا۔ کاش ہم قرآن کے اس پیغام سے نصیحت حاصل کرکے اپنی اصلاح کریں۔ بے شک قرآن سوچنے سمجھنے، عقل و شعور رکھنے والوں کے لئے نصیحت ہے۔