اوسلو میں امسال قومی تہوار کی تقریبات کا انعقاد

17 مئی کو ہر سال ناروے کا قومی تہوار منایا جاتا ہے۔ جسے یوم آئین سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔

17 مئی 1814، Eidsvoll کے مقام پر نارویجن آئین ساز اسمبلی نے نیا آئین منظور کیا جس کی رو سے ناروے میں ڈنمارک کا 500 سو سالہ تسلط اختتام پذیر ہوا اور ناروے اور سویڈن کا الحاق عمل میں لایا گیا جسں کے مطابق سویڈش بادشاہ دونوں ممالک کا ریاستی سربراہ قرار پایا اور دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی کی ذمہ داری بھی سویڈش حکومت کے سپرد کی گئی البتہ باقی ماندہ تمام امور میں دونوں ممالک کی مکمل آزادی اور اختیار کو تسلیم کیا گیا۔ یہ الحاق 7 جون 1915 کو اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ اور ناروے بالآخر ایک مکمل آزاد اور با اختیار ملک قرار پایا۔

دارالحکومت اوسلو میں قومی دن کی تقریبات کے انعقاد کی ذمہ داری کے لیے ہر سال ایک سرکاری آرگنائزنگ کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے جس کا باقاعدہ انتخاب اوسلو سٹی کونسل کرتی ہے۔ خاکسار کے لیے خصوصا مقام باعث عزت و تکریم ہے کہ مجھے تیسری بار اس کمیٹی میں شمولیت کا شرف حاصل ہوا ہے۔ قومی تہوار کے روز منعقدہ تقریبات کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

1۔ قومی ہیروز کے مرقد پر پھولوں کی چادر کا چڑھاوا اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے معززین معاشرہ کے خطاب کی صورت میں خراج عقیدت
2۔ آرگنائزنگ کمیٹی کے اعزاز میں سٹی ہال میں ناشتے کا انتظام
3۔ شہر کی مرکزی شاہراہوں پر سکول کے بچوں کی پریڈ جو شاہی محل کی بالکونی میں کھڑے بادشاہ وقت اور اس کے خاندان کو سلامی کی رسم کے بعد اختتام پذیر ہوتی ہے
4۔ قومی تقریبات کے اہتمام و انصرام میں شریک اشخاص و تنظیمات کے اعزاز میں سٹی ہال میں ظہرانہ
5۔ نوجوانوں کے اعزاز میں کنسرٹ ( محفل موسیقی)

نارویجن – پاکستانی، نارویجن معاشرے میں ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں اور تمام شعبہ ہائے معاشرت میں خاطر خواہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ خاکسار کی تحریک پر آرگنائزنگ کمیٹی نے امسال ڈاکٹر سید ندیم حسین کا انتخاب کیا ہے جو ناروے کے عالمی شہرت یافتہ قومی مصنف اور ڈرامہ نگار جناب Henrik Ibsen کے مرقد پر خاکسار کے ہمراہ بھولوں کی چادر چڑھائیں گے اور بعد ازاں اپنے خطاب میں مذکورہ شخصیت کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔ Henrik Ibsen کی تحریر کردہ تصنیفات کا نہ صرف متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا بلکہ ان کے ڈرامے دنیا بھر میں اسٹیج کیے جا چکے۔

ڈاکٹر سید ندیم حسین اس وقت اوسلو کے ایک معروف ہسپتال میں چیف فزیشن (Overlege) کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک ہمہ جہتی ادبی شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کا شمار ناروے کے ممتاز اردو شعراء میں ہوتا ہے اور وہ یورپ بھر مشاعروں میں مدعو کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اردو اخبارات میں کالم نویسی فرماتے ہیں اور ان کے مضامین بھی اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بنتے ہیں اور قارئین کی دلچسپی کا سامان مہیا کرتیے ہیں۔موصوف کی ایک کتاب "برف زار” کے نام سے شائع ہو چکی ہے جس کی تقریب رونمائی COVID-19کی وجہ سے کچھ تاخیر ک شکار ہے۔ مگر مذکورہ تصنیف عنقریب عوام کی دسترس میں ہو گی۔ انشاءاللہ۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک شعری مجموعہ "آنکھیں خواب دیکھتی ہیں” بھی زیر طبع ہے۔

ڈاکٹر صاحب عرصہ دراز سے ناروے کی ممتاز ادبی تنظیم "دریچہ” کے صدر ذی وقار ہیں۔ اور متفرق معاشرتی سرگرمیوں میں سرگرم رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب، صاحب رائے، نہایت شفیق اور صلح جو انسان ہیں اور انتہائی متوازن اور معروف مقبول شخصیت کے مالک ہیں۔ اللہ رب العزت ان کا اقبال مزید بلند فرمائے۔

چند برس قبل عالمی شہرت یافتہ شاعر جناب جمشید مسرور بھی میری تحریک پر یہی فریضہ انجام دے چکے ہیں۔ امید واثق ہے کی کہ میری یہ معمولی کاوشیں نارویجن پاکستانی معاشرے میں غیر معمولی یک جہتی میں اضافے ک سبب ثابت ہوں گی۔ اور نارویجن پاکستانیوں کی معاشرے کے لیے ادا کردہ خدمات کو مزید اجاگر کرنے کا سبب بنیں گی۔ انشاءاللہ۔

دعا گو:طلعت محمود بٹ۔ ممبر 17 مئی کمیٹی اوسلو ناروے۔

Comments (0)
Add Comment