پاکستان بحریہ کے آفیسر مرحوم عزیز الرحمان کی زوجہ محترمہ مہر افروز گزشتہ دنوں اپنی محنت کی زندگی سے ابدی آرام کی طرف روانہ ہوگئیں اللہ جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے آمین۔ مرحومہ سعودی عرب کی نامور خاتون محترمہ سمیرہ عزیز کی والدہ تھیں۔ سمیر عزیز کی والدہ نے اپنی تمام عمر محنت اور مصروفیت کو اپنا نصب العین بنایا۔ و ہ لکھنوسے پاکستان بننے کے دوسال بعد پاکستان آگئیں، شادی کی اور تقربیا ساڑھے چار سال بعد انکے شوہر کی انتقال ہوگیا، شوہر کے انتقال سے اپنے انتقال تک انہوں نے اپنی زندگی اپنی اولادوں کی تربیت پر صرف کی اور دوسری شادی نہیں کی۔ سمیر عزیز کے والد مرحوم عزیز الرحمان 1965ء کی پاک بھارت میں جنگ میں اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہوگئے تھے ۔
پاکستان سے سعودی عرب کے شہر الخبر میں سعودی بحریہ کے نوجوانوں کو تربیت دیتے رہے ، مرحومہ اپنے شریک حیات کے ہمراہ ساڑھے چار سال تک زندگی گزارتی رہیں، اور شادی کے ساڑھے چار سال بعد ہی عزیز الرحمان انتقال کرگئے اور تین ننھے بچوں جنکی عمریں اسوقت 3 سال، 2 سال اور 6ماہ تھی کی پرورش کا بیڑہ مرحومہ مہر افروز نے مکمل ذمہ داری سے گزار، انکی صاحبزادی سمیرہ عزیز والد کے انتقال کے وقت غالبا ًدوسال کی تھیں، سمیرہ عزیز اور اپنی دیگر ایک محنتی بیوہ کی طرح انہوں نے بہترین انداز میں کی اور اپنی اولادوں کو ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا،اپنے شوہر کے ہمراہ وہ سعودی عرب کے شہر الخبر میں آباد ہوگئیں، سمیرہ عزیز کی پیدائش الخبر میں ہوئی شوہر کے انتقال کے بعد مرحومہ مہر افروز پاکستان منتقل ہو گئیں ،اسوقت سمیرہ عزیز کی عمر دو سال تھی۔ سمیرہ عزیز 16 سال کی عمر میں شادی کے بندھن مین بندھ گئیں۔
والدہ کی تربیت کو انہوں نے اپنا نصب العین بنایا اور تعلیم اور معاشرے میں ترقی پائی۔والدہ کے انتقال کی خبر سے انہیں شدید دھچکا لگا، جس روز والدہ کا انتقال ہوا اس روز خلاف توقع مرحومہ نے سمیرہ عزیز سے دن مین کئی مرتبہ بات کی،سمیرہ عزیز تصانیف میں کرکٹ پر ایک کتاب بھی ہے جسکی رونمائی سمیرہ عزیز نے اپنے والدہ سے کرانا تھا انکی والدہ کو از حد خوشی تھی کی وہ اس کتاب کی رونمائی کرینگی جسکے لئے انہوں نے خصوصی نیا لباس بھی تیار کیا تھا اور انتقال والے دن انہوں نے وہ لباس زیب تن کرکے سمیرہ عزیز کو دکھائے اور سمیرہ عزیز کو بے شمار دعائیں دیں،کسی کو کیا پتہ تھا کہ وہ شام کو اس دنیا میں نہیں رہینگی، ایک اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور خالق حقیقی سے جا ملیں۔اناللہ و اانا الہ راجعون۔
سمیرہ عزیز فوری اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان روانہ ہوئیں، نظام کے مطابق سعودی افراد کو پاکستان کیلئے آن لائین ویزہ لینا پٹرتا ہے، وہ اس سے لاعلم تھیں، کراچی کے ہوائی اڈے پر انہیں روک لیا گیا اور واپس سعودی عرب بھیجنے کی بات کی امیگریشن اسٹاف نے، مگر سمیرہ عزیز نے انہیں بتایا کہ وہ اپنی والدہ کے انتقال پر آئیں ہیں اور سمجھتی تھیں کہ”on arrivalویزہ مل سکتا ہے ، سمیرہ عزیز امیگریشن اسٹاف کی بہت شکر گزار ہوئیں کہ انہوں نے اسی وقت کمپیوٹر پر ویزہ فارم پر کیا اور انکی آمد کو قانونی شکل دی مگر اس پر انہیں چند گھنٹے ہوائی اڈے پر رکنا پڑا ، اس دوران امیگریشن اسٹاف نے انکی، انکے شوہر اور بچوں کی چائے پر میزبانی کیں جس سے سمیرہ عزیز انکی بہت مشکور ہوگئیں اور انہوں نے کہا کہ یہ اخلاق اور خدمت مجھ پر قرض ہے۔
سمیرہ عزیز کی جدہ آمد پر پاکستان، سعودی کمیونٹی کی کثیر تعداد انکے گھر اور دفتر میں تعزیت کیلئے آرہی ہے جس سے انکے غم میں یقینی کمی آئے گی اور یہ ہر مسلما ن پر فرض بھی ہے کہ وہ مرحوم کے خاندان سے تعزیت کرے، پاکستان کمیونٹی کی دعائیں سمیرہ عزیز کے ساتھ ہیں کہ اللہ تعالی انہیں اپنی والدہ کی دی ہوئی تربیت کو احسن طریقے سے نبھانے کی توفیق دے آمین، سمیرہ عزیز بہ حیثیت لکھاری، صحافی اور کامیاب بزنس وومن کے طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ترقی کے مراحل طے کررہی ہیں۔
نوشین وسیم کی کاوشوں پرپی جے ایف کی مبارکباد
اس بات پر خوشی ہوتی ہے جب پاکستانی نژاد خواتین یا کوئی مرد کسی ملک میں اس ملک کی قومیت ہونے کے باوجود بھی پاکستان کمیونٹی اورپاکستان سے محبت کا اظہارکرتاہے خاص طور پر سعودی عرب اور پاکستانی عوام میں محبت کے رشتے بہت مضبوط اور پرانے ہیں۔ محترمہ نوشین وسیم خاص طور جب سے سعودی انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کی مشیر کے حیثیت میں کام کررہی ہیں اور سعودی حکومت کی پالیسوں کے مطابق یہاں نہ صرف مقامی افراد کے غیر ملکیوں کیلئے بھی تفریحی پروگراموں کا ا نعقاد ہورہا ہے ان سب میں محترمہ نوشین وسیم کا ایک کلیدی کردار ہے، وہ سعودی سسٹم میں گیارویں گریڈ کی ذمہ دار ہیں، سعودی انٹر ٹینمنٹ اتھارٹی کی مشیر سے قبل وہ جدہ چیمبرز آف کامرس میں اپنی ذمہ داریاں نبھارہی تھیں 2013 ء میں سعودی حکومت نے ان غیرملکیوں کو موقع فراہم کیا جنکے اقامے یا مستنعادات سعودی لیبر لاء کے مطابق نہیں تھے ۔
کسی کی کفالت میں ہونا اور کام کفیل کے علاوہ کہیں اور کرنا، یا اقامہ کے بغیر کام کرنا یہ سب قانونی جرم ہے مگر بے شمار لوگ 2013 ء تک صرف پاکستانی نہیں بلکہ دیگر ممالک کے لوگ اس قانون شکنی کے مرتکب ہورہے تھے انہیں قانونی شکل دینے کیلئے ضروری تھا کہ وہ باقاعدہ قانون کے مطابق ملازمت کریں، اس سلسلے مین نوشین وسیم نے اسوقت کے قونصل جنرل آفتاب کھوکر کے ہمراہ ملکر جدہ چیمبرز آف کامرس سے مکمل تعاون کیا اور جس میں سعودی عرب میں موجود کمپنیوں کو دعوت دی کہ وہ اپنے مطلوبہ پیشہ کے لوگ حاصل کریں اس سلسلے میں ”JOB EXIBHITION کی گئیں اور ہزاروں کی تعداد میں پاکستانیوں نے اس سے استفادہ حاصل کیا ۔نوشین وسیم نے سعودی انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے زیر اہتمام پاکستانیوں کیلئے بہترین اور منظم تفریحی پروگراموں کا انعقاد کیا جس سے لاکھوں پاکستانیوں اور انکے اہل خانہ نے اپنے آپکو اپنے ہی ملک میں محسوس کیا۔
پاکستانی فنکاروں کو سعودی عرب میں اپنے پروگرام کرنے کے مواقع فراہم کئے نامور فنکار یہاں آئے جن مین راحت فتح علی، عاطف اسلم، ابرار الحق، مزاحیہ فنکار شکیل صدیقی، کاشف خان اور دیگر شامل ہیں پاکستانی انکے فن سے محضو ظ ہوئے، نوشین وسیم پروگراموں کی کامیابی میں دن رات ایک کردیتی ہیں۔ نوشین وسیم پاکستان میں فلاحی کاموں میں بھی یہاں سے مدد کرتی ہیں انہوں نے پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں صاف پانی کے کنووں کا اہتما م کیا ہے جنہیں انہوں نے اپنے جوان سال بیٹے، بیٹی کے نام کیا ہے جنکا نوجوانی میں ہی کینسر کے موذی مرض کی وجہ سے انتقال ہوگیا تھا ، صاف پانی کے کنویں پراجیکٹ میں انکے ہمراہ دیگر افراد بھی شامل ہیں۔پاکستانی پروگراموں کی میڈیا میں تشہیر کیلئے انکی کاوشوں میں سعودی عرب میں رضاکار اور تجربہ کار صحافیوں کے قدیم ترین فورم پاکستان جرنلسٹس فورم ہمیشہ انکے ساتھ رہاہے۔
عمومی طور پر صحافیوں کیلئے مشہور ہے کہ وہ کھانوں،اور دعوتوں میں مدعو ہوتے ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ اس شوق میں یہاں غیر تجربہ کار صحافیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مگر پاکستان جرنلسٹس فورم نے یہ اعزاز حاصل کیا کہ انہوں نے نوشین وسیم کی محنت کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے گزشتہ دنوں انکے اعزاز میں عشائیہ دیا جسکے لئے پاکستان جرنلسٹس فورم کے اراکین انکی آمد کے شکرگزار ہیں۔عشائیہ میں فورم کے تمام اراکین نے نوشین وسیم کی خدمات کو سراہا اور انکے کاموں میں انکے ہمیشہ ساتھ دینے کا اعادہ کیا۔ نوشین وسیم نے اس موقع پر کہا کہ میں 1971 سے اپنے ساتھ پاکستان جرنلسٹس فورم کو پاتی ہوں اور انکی شکرگزارہوں کہ وہ انکے اراکین نہائت ذمہ داری اور سنجیدگی سے دنیا بھر میں تمام سرگرمیوں کو دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ اس موقع پر نوشین وسیم کو ایک تعریفی شیلڈ بھی دی گئی۔