ایک اور دسمبر

0

دسمبر میں رٹھوعہ ہریام پل پر خود گاڑی چلا کر دکھائوں گا، یہ بیان تھا پاکستان کے سابق وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور کا ؛ سال 2019 کے اس دبنگ بیان سے میرپوریوں کے چہرے خوشی سے کِھل اٹھے تھے۔وقت گزر گیا ؛ بے چینی تو بہرحال تھی پھر اس بے چینی کی کیفیت توڑنے کے لیے چوہدری محمد اختر چیئرمین کشمیر آرفن ریلیف ٹرسٹ نے ضرب لگائی،رواں سال انہوں نے مایوسی سے مرجھائے چہروں کو اپنی فیس بک پوسٹ میں یہ بتا کر خوش کر دیا کہ رٹھوعہ ہریام پل کے کام کا آغاز اسی سال ہو گا،ایسے میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر کے مشیر کرنل(ر)محمد معروف رٹھوعہ ہریام پل کی تکمیل کے سلسلے میں رابطہ کاری مہم کی اضافیذمہ داری کے ساتھ میدان میں آئے۔

انہوں نے بھی علی امین گنڈاپور کی طرح باقاعدہ دسمبر میں پل پر کام کے آغاز کی تاریخ دے کر میرپوریوں میں خوش بانٹی،بدلے میں واہ واہ تو یقیناً ملنا تھی، لیکن بغیر عملدرآمد کے صرف بیانات سے کب تک ملتی، لگاتار بیانات کے بعد اب بہرحال سناٹا ہے، رٹھوعہ ہریام پل کو لیکر میرپوریوں پر قسمت کی دیوی ابھی اتنی مہربان نہیں،بیان کی حد تک ماضی کی لاتعداد خوش خبریوں کی طرح اس سال کا سورج بھی رٹھوعہ ہریام پل کی تکمیل کی حسرت لیے ڈھوبنے کو ہے۔

اب تک کون ہے جس نے پل کی تکمیل کے لیے پاکستانی حکمران طبقے سے استدعا نہیں کی، کتنے لوگ اور تنظیمیں پل کی تکمیل کے لیے تحریکیں چلا چکے،احتجاج، جلوس اور دھرنے دے چکے،میرپور کی مٹی پر پیدا ہونے والے برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران اور مختلف کونسلز کے کونسلر حضرات کی درخواستیں بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی، سبھی پل کی تکمیل کا مطالبہ کر رہے ہیں،البتہ یہ سوال کوئی نہیں پوچھ رہا جس پل نے آج سے دس سال پہلے مکمل ہوجانا تھا اب تک مکمل کیوں نہیں ہوا ؟ کوئی تو ذمہ دار ہے،زبان زد عام ہے کہ اتنا بڑا پروجیکٹ کرپشن کی نظر ہوا،اس الزام یا افواہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ میرپور کے عوامی نمائندے وزرا حکومت غیر جانب دار کمیشن بنوا کر کرپٹ لوگوں کو سزا کیوں نہیں دلوا دیتے۔

اگر کرپشن کا شور محض افواہیں ہیں تو کسی کمیشن یا عدالت کے فیصلے کے ذریعے اس افواہ کا گلا ہمیشہ کے لیے گھونٹ کیوں نہیں دیا جاتا،اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس پراجیکٹ میں کوئی کرپشن نہیں ہوئی اور عدم تکمیل کی وجہ کرپشن بالکل بھی نہیں تو بھی کوتاہی اور نااہلی تو یقیناً ہوئی ہے کہ پل اپنی مدت کے دس سال بعد بھی نہیں بن رہا ،تکمیل پل کی تحریک چلانے والے احباب کو اس کوتاہی اور نااہلی کےذمہ داران کو عوام کے سامنے لانے کے ساتھ انہیں سزا دلوانے کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے کہ اس قومی پراجیکٹ کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے مثال بن سکیں۔

ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ پل سے متعلق آفیشلز کی جانب سے معلومات فراہم نہیں کی جارہی،کتنا بجٹ خرچ ہو چکا؟ مزید کتنا خرچ ہو گا؟ آزاد کشمیر حکومت کے پاس کتنا بجٹ موجود ہے؟ پاکستان حکومت نے کتنا بجٹ منظور کیا ہے؟ بجٹ کب آزاد کشمیر حکومت کو منتقل کیا جائے گا، دوبارہ کام کا آغاز کب ہو رہا ہے؟ تکمیل کی مدت کیا ہو گی ،ایسے بنیادی سوالوں کے جوابات متعلقہ وزیر، سیکرٹری اور ڈائریکٹر کو پریس ریلیز یا پریس کانفرنس میں دینے چاہئیں،اگر حقیقی معلومات فراہم نہیں کی جاتی تو خالی بیانات کی خوش خبریاںآخر کب تک چلے گی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!