انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف پاکستانی جرنلسٹس IAPJ کی جانب سے اوورسیز پاکستانی صحافیوں کیلئے آن لائن تربیتی نشست کا اہتمام
نشست میں پاکستان کے نامور سینئر صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی، حفیظ اللہ نیازی اور ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کی خصوصی شرکت
ڈبلن آئرلینڈ (وسیم بٹ) دنیا بھر میں مقیم اوورسیز پاکستانی صحافیوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور ان کی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کیلئے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف پاکستانی جرنلسٹس IAPJ کی جانب سے آن لائن تربیتی نشست کا اہتمام کیا گیا۔
نشست میں 20 سے زائد ملک میں مقیم صحافیوں نے شرکت کی جن میں شاہد چوہان ساؤتھ افریقہ ،خرم شہزادامریکہ،مہوش خان جرمنی، عرفان صدیقی(تمغہ امتیاز) جاپان، شاہد گھمن روس، جاوید عظیمی ہالینڈ، حافظ عمران سویڈن، عرفان احمد فراز یوکے، کیپٹن فرید انصاری سکاٹ لینڈ، مطیع اللہ جرمنی، عظیم ڈار پرتگال، عقیل قادر ناروے، احسان اللہ یونان، راقم وسیم بٹ آئرلینڈ و دیگر نمایاں تھے۔
پاکستان سے نامور سینئر صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی، سینئر صحافی و تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی اور سینئر صحافی و ماہر تعلیم ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ تربیتی نشست کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا جس کی سعادت احسان اللہ نے حاصل کی۔ جبکہ نظامت کے فرائض امریکہ سے آئی اے پی جے کے سینئر نائب صدر خرم شہزاد اور جرمنی سے سیکرٹری جنرل مہوش خان نے ادا کیے۔
آئی اے پی جے کے بانی و صدر شاھد چوھان نے کہا کہ تنظیم کا مقصد دنیا بھر میں پھیلے پاکستانی صحافیوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے انہوں نے کشمیر بلیک ڈے کے موقع کی مناسبت سے بھارت کی جانب سے کشمیر میں جاری ظلم و بربریت کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ مہمانان گرامی نے ملک کے موجودہ سیاسی و معاشی حالات بیرون ملک صحافی برادری کو درپیش مسائل اور ان کے حل اور شرکائے اجلاس کی طرف سے کیے گئے سوالات کے جوابات نہایت تسلی بخش دیے۔
مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گزشتہ دو عشروں کے دوران صحافت بہت بدل گئی ہے، انہوں نے بتایا کہ پرنٹ میڈیا کی نسبت الیکٹرانک میڈیا کے گرتے ہوئے معیار کی بڑی وجوہات میں صحافتی تربیت کا فقدان بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ اب صحافت میں ایڈیٹر کا کردار تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ کوئی کیمرہ مین ہو یا اینکر، ہر کوئی خود ہی اپنا ایڈیٹر بھی ہے۔ تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پیشہ وارانہ صحافت کم اور کمرشلزم بہت زیادہ ہو گیا ہے۔
حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ کسی بھی معاشرے کی اصلاح صحافیوں کی ذمہ داری نہیں ہوتی، یہ صحافت تو نہیں ہو سکتی۔ کسی بھی ہوٹل، دفتر یا نجی پراپرٹی میں بلا اجازت گھس کر لوگوں کو ہراساں کرنا، ان کی ہتک کرنا، یہ کوئی جرنلزم نہیں بلکہ قابل سزا جرم ہے۔ عالمی سطح پر انسانی سماج اس وقت جس پریشان کن صورت حال کا شکار ہے، اس کے اثرات پاکستان میں بھی نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر حسین پراچہ کا کہنا تھا کہا انہوں نے بھی سعودی عرب میں صحافت کی ہے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والے پاکستان میں گزشتہ کافی عرصے سے الیکڑانک اور ڈیجیٹل میڈیا خبروں تک رسائی کے مؤثر ذرائع بن چکے ہیں۔ اس لیے وہاں نئی طرز کی سنسنی خیز صحافت پر معاشرتی تشویش بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
آخر میں ہالینڈ سے صحافی جاوید عظیمی نے مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ عالم اسلام اور وطن عزیز پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے خصوصی دعا کی گئی۔