بیجنگ (ویب ڈیسک) سی پی سی کی سینٹرل کمیٹی کی فارن افیئرز ورک کانفرنس بیجنگ میں منعقد ہوئی ۔شی جن پھنگ نے اجلاس میں نئے دور میں گزشتہ دس سالوں میں چینی خصوصیات کے ساتھ بڑے ملک کی سفارت کاری کی کامیابیوں اور تجربے کا خلاصہ پیش کیا ۔ انہوں نے موجودہ دور اور مستقبل میں چین کے سفارتی امور کے لیے جامع ہدایات دیں ۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے امن اور ترقی، عالمی ترقی کے رجحان اور مرکزی دھارے میں رہے ہیں ، جس نے انسانی معاشرے میں مجموعی طور پر 70سال سے زیادہ عرصے تک امن برقرار رکھنا ممکن بنایا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں یہ دونوں رجحانات کو کئی چیلنجزکا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ایک طرف، سرد جنگ کی ذہنیت پلٹ آئی ہے اور بالادستی کی سوچ ، نظریاتی محاذ آرائی جیسے کہ "ایک مضبوط ملک کو تسلط پسند ہونا چاہیے” کی سوچ کو دہرایا گیا ہے تو دوسری طرف، یکطرفہ پسندی اور تحفظ پسندی بڑے پیمانے پر پھیلی ہے۔ اس سب سے معاشی گلوبلائزیشن کو مشکلات کا سامنا ہے۔دنیا میں زبردست تبدیلیوں کے تناظر میں شی جن پھنگ نے اپنی سفارتی سوچ تخلیق کی اور اسے ترقی دی ہے، چین کے سفارتی نظریے اور عمل کا ایک نیا باب کھولا ہے اور چینی خصوصیات کے ساتھ بڑے ملک کی سفارت کاری کو فروغ دینے کے لیے ایک بنیادی نظریہ فراہم کیا ہے۔
سی پی سی سینٹرل کمیٹی کی فارن افیئرز ورک کانفرنس نے نشاندہی کی کہ انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تشکیل، شی جن پھنگ کی سفارتی سوچ کا بنیادی تصور ہے اور نئے دور میں چینی خصوصیات کے ساتھ بڑے ملک کی سفارتکاری کا اعلی مقصد ہے۔ یہ تصور شی جن پھنگ نے 10سال قبل پیش کیا تھا۔ اس کا مقصد وسیع مشاورت، مشترکہ شراکت اور مشترکہ فوائد پر مبنی عالمی گورننس کو فروغ دینا، تمام انسانیت کی مشترکہ اقدار کی پیروی کرنا، ایک نئی قسم کے بین الاقوامی تعلقات کی تشکیل کو فروغ دینا، گلوبل ڈیویلپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو کے نفاذ کو اسٹریٹجک رہنمائی کے طور پر لینا اور اعلیٰ معیار کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو عملی پلیٹ فارم کے طور پر اپنانا ہے تاکہ تمام ممالک کو چیلنجز سے نمٹنے اور مشترکہ خوشحالی کے حصول کے لیے مل کر کام کرنے کی ترغیب دی جاسکے اور دنیا کو امن، سلامتی، خوشحالی اور ترقی کے روشن مستقبل کی طرف لے لیا جاسکے ۔ بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے بنیادی تصور کی روشنی میں، آج دنیا کو درپیش بڑے مسائل اور بڑے چیلنجز سے ہمیں کیسے نمٹنا چاہیے اور انہیں کیسے حل کرنا چاہئے؟ اس کے لیے شی جن پھنگ نے اس اجلاس میں دو حل پیش کیے۔
پہلا ، مساوی اور منظم عالمی کثیر قطبیت کا قیام اور دوسرا ،جامع اقتصادی گلوبلائزیشن کی وکالت کرنا. مساوی اور منظم انداز میں ایک کثیر قطبی دنیا کا مطلب ہے تمام چھوٹے بڑے ممالک کی برابری کو برقرار رکھنا، بالادستی اور اقتدار کی سیاست کی مخالفت کرنا، اور بین الاقوامی تعلقات کی جمہوریت کو سنجیدگی سے فروغ دینا، اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی پاسداری کرنا، عالمی سطح پر بین الاقوامی تعلقات کو چلانے والے متفقہ بنیادی اصولوں کو برقرار رکھنا اور حقیقی کثیر الجہتی پر عمل کرنا ہے۔دوسرا ، جامع اقتصادی گلوبلائزیشن ، جو تمام ممالک خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کی آفاقی ضروریات کو پورا کرنے اور وسائل کی عالمی تقسیم کی وجہ سے ممالک کے درمیان اور ان کے اندر ترقی میں عدم توازن کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ ہم ہر قسم کی یکطرفہ پسندی اور تحفظ پسندی کی سختی سے مخالفت کریں گے، تجارت اور سرمایہ کاری کی لبرلائزیشن اور سہولت کاری کو فروغ دیں گے، عالمی معیشت کی مثبت ترقی میں رکاوٹ بننے والے ساختی مسائل کو حل کریں گے اور معاشی گلوبلائزیشن کو زیادہ کھلی، جامع اور متوازن سمت میں فروغ دیں گے۔ یہ دونوں تجاویز عملی طور پر شی جن پھنگ کی سفارتی سوچ کی علم بردار ہیں اور یہ وہ طریقے ہیں جن پر چین نے ہمیشہ دنیا کے ساتھ چلنے کی مشق کی ہے، چاہے وہ ایک بڑا ملک ہو یا چھوٹا ملک، چاہے وہ ترقی یافتہ ملک ہو یا ترقی پذیر ملک، یہ انسانی معاشرے اور ہم نصیب معاشرے کے ایک بڑےخاندان کے رکن ہے، جہاں مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور سلامتی مشترکہ ہے. مسلسل عالمی چیلنجز کے پس منظر میں، اس طرح کا واضح بیان ایک بڑے ملک کی حیثیت سے چین کے رویے کی عکاسی کرتا ہے جو تمام انسانیت کی ترقی اور تقدیر کا ذمہ دار ہے۔