عذابِ زندگی

0

اسے گھر سے نکلے آج ساتواں روز تھا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ اسے عذابوں میں کیوں دھکیل دیا گیا لیکن وہ ایک لمحہ تھا جو اس کے لئے عذاب بن گیا۔جس کے بعد وہ گھر سے بھی بے دخل کر دیا گیا۔وہ اپنی کمر پہ بیگ لٹکائے اس وقت پولیس اسٹیشن میں کھڑا تھا۔ایک پولیس آفیسر نے اسے ریل کی پٹڑی پہ لیٹتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور پھر اس کی درگت بنا کر وہ اسے اپنے ساتھ پولیس اسٹیشن لے آیا۔وہ سولہ سال کا ایک کم عمر لڑکا تھا جو ابھی تک بچپن سے باہر نہیں نکل پایا تھا لیکن آج ایک مجرم کی طرح وہ پولیس اسٹیشن میں کھڑا تھا۔

"کیا نام ہے تیرا”پولیس والے نے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا
"میران۔۔۔۔۔۔میران علی مبارک میرا نام ہے”اس نے اسی انداز میں پولیس والے کی آنکھوں میں دیکھا
"ریل کی پٹڑی پہ کیوں لیٹنا چاہ رہے تھے”پولیس والے نے سرخ آنکھیں دیکھائیں
"میں مرنا چاہتا ہوں”اس نے پولیس والے کی آنکھوں میں دیکھا جب کہ وہاں پہ موجود باقی پولیس والوں نے حیرانگی سے اس لڑکے کی طرف دیکھا
"مرنے سے ڈر نہیں لگتا کیا”پولیس والے نے سخت لہجہ اپنایا
"نہیں لگتا”اس نے نفی میں سر ہلایا
"گھر کدھر ہے تیرا”پولیس والے نے ٹیبل پہ ہاتھ پھیر کر پوچھا
"پہلے تھا اب نہیں ہے”اس نے اپنا سر جھکا دیا
"کیوں کیا کسی نے تیرے گھر پہ قبضہ کر لیا ہے”پولیس والا اسے گھورا
"نہیں”اس نے مختصر سا جواب دیا
"تو پھر تیرا گھر کیوں نہیں رہا”پولیس والا ترکی بہ ترکی سوال کر رہا تھا
"ابا نے گھر سے نکال دیا ہے”اس کے چہرے کی رنگت تبدیل ہوئی۔اس کی بات سن کر پولیس والا ایک دم شاک میں آ گیا۔چند لمحوں کے لئے اسے سمجھ ہی نہ آیا کہ وہ اس سے کوئی سوال کرے اور پھر ذرا توقف کے بعد بولا
"کیوں نکالا تجھے،ضرور تم نے کوئی کام خراب کیا ہو گا جو تمہیں گھر سے نکال دیا ہے”پولیس والے نے اس کی طرف انگلی کا اشارہ کیا
"جی،میں نے ان کی من پسند رشتہ داروں میں شادی کرنے سے انکار کر دیا "مہران حقیقت بتائی تو پولیس والا کچھ دیر کے لئے پھر سے کچھ بھی بولنے سے قاصر رہا
"کیا تیرا باپ پاگل ہے جو تم پہ کوئی عذاب ڈال رہا ہے”اس نے تلخی سے کہا
"نہیں،اپنی عزت اور ناک انہیں عزیر ہے۔اسی لئے انہوں نے مجھے گھر سے نکال دیا”اس نے صاف گوئی سے بتایا
"اپنے باپ کا نمبر دے مجھے،میں ابھی اسے سیدھا کر دیتا ہوں”پولیس والے کا چہرہ سرخ ہو گیا

"اس کی ضرورت نہیں ہے اور بابا بھی یورپ میں مقیم ہے”مہران نے ایک بار پھر سے اپنا سر جھکایا
"چلو اپنی ماں سے بات کروا دو کم از کم ہم انہیں قائل تو کر سکیں کہ وہ اپنے بیٹے کو گھر لے جائیں”پولیس والے کا لہجہ نرم پڑ گیا
"ماں نہیں ہے۔ف۔۔فوت۔۔۔فوت ہو چکی ہیں”ماں کا ذکر کرتے ہوئے اس کی زبان لڑکھڑائی تو پولیس والے نے اس کی آنکھوں میں نمی دیکھی
"دیکھ،رونا نہیں،رونا نہیں بالکل بھی”پولیس والے نے سختی سے اسے روکا تو آنسو کی دو لڑیاں اس کی آنکھوں سے نکلیں اور اس کے گال بھگو کر ٹھوڑی سے نیچے چلی گئیں۔پولیس والا ایک دم اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور کرسی قریب کر کے اسے بیٹھنے کا کہا۔مہران اس کے قریب بیٹھا تو پولیس والے نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا

"سن،میری بھی ماں نہیں ہے لیکن دیکھ میں کوئی روتا ہوں،ماں کی کمی مجھے بھی محسوس ہوتی ہے اور اس کی غیر موجودگی میں تکلیف محسوس کرتا ہوں لیکن یہ میرے بس میں تو نہیں ہے کہ اپنی مرضی سے اسے پاس بلا سکوں یا پھر اس کے پاس جا سکوں”پولیس والے نے اسے دلاسہ دینے کی کوشش کی

"لیکن میں جانے والا تھا،اپنی ماں کے پاس چلا جاتا اگر مجھے یہ نہ روکتا”مہران اس پولیس والے کی طرف اشارہ کیا جو اسے لے کر آیا تھا
"ایسی موت حرام قرار دی گئی ہے اور تم ایسے مر کر کیا کما لے گا”پولیس آفیسر نے سمجھانے کی کوشش کی تو میران نے اپنا سر جھکایا
"تم سب چھوڑو،یہ بتائو کون سی کلاس میں پڑھتے ہو”پولیس والے نے اس کے بارے جاننے کی خواہش ظاہر کی
"میرا میٹرک کا رزلٹ آئے ہوئے سات روز بیت چکے ہیں اور جس روز میرا رزلٹ آیا،اسی روز میں گھر سے نکال دیا گیا”اس نے صراحت کے ساتھ پولیس آفیسر کو اپنے بارے سب کچھ بتایا
"تمہارا باپ اب بھی پاکستان ہے یا پھر یورپ واپس جا چکا ہے”اس نے سوالیہ نظروں سے میران کو دیکھا
"مجھے نکالنے کے ایک روز بعد وہ جا چکے ہیں،میری دوسری ماں اور بچوں کو اپنے ساتھ لے جانے آئے تھے”اس کے لہجے میں کرب تھا

"تمہارا اس گھر پہ حق ہے بچے،ہم۔خود تمہارے ساتھ وہاں پہ جائیں گے”پولیس آفیسر نے اس کے گال پہ ہاتھ پھیرا
"نہیں،اس کی ضرورت نہیں ہے اور نہ رہے گی”اس کے پولیس آفیسر کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا
"کیوں،اس کی ضرورت تمہاری زندگی کے لئے اہم ہے”پولیس آفیسر نے اپنے موقف پہ زور دیا تو اس نے کمر سے بیگ اتار کر اس میں اخبار نکالی اور اس کے سامنے مطلوبہ جگہ پہ انگلی رکھ کر گویا ہوا
"یہ پڑھیں،اس میں میرے سب حقوق کے بارے لکھا ہے”اس نے اخبار پولیس آفیسر کی طرف بڑھائی
"میں اپنے سولہ سالہ بیٹے میران علی مبارک کو بوجہ نافرمانی اپنی جائیداد سے عاق کرتا ہوں”پولیس آفیسر پڑھتے پڑھتے ایک دم شاک میں آ گیا
"اتنے چھوٹے بچے کو ایسے بے دخل کر دیا جب کہ اس کا کوئی قصور بھی نہیں ہے”پولیس آفیسر ہکا بکا رہ گیا
"یہ میری قسمت ہے اور شاید میری زندگی کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہو جاتا اگر آپ لوگ مجھے نہ بچاتے،یہاں پہ کوئی سکون سے مرنے بھی نہیں دیتا”میران علی کی اداس آنکھیں پھر سے چھلک پڑیں
"نہیں،میں تمہیں اب مرنے نہیں دوں گا،سن میری صرف چار بیٹیاں ہیں اور تین بیاہ چکی ہیں مگر ایک ابھی شادی کی عمر کو پہنچنے والی ہے۔تم کامیاب ہونے تک میرے پاس رہو۔جس روز تم ایک کامیاب انسان بن گئے تو اس روز اپنے باپ کے منہ پہ جا کر کہنا کہ میں آفیسر بن گیا ہوں”پولیس آفیسر اسے اپنے ارادے سے آگاہ کرتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا اور میران علی مبارک کی طرف ہاتھ بڑھایا
"نہیں،میں آپ کے ساتھ نہیں جا سکتا،اللہ میرے لئے کوئی نہ کوئی سبب پیدا کر دے گا”وہ پولیس آفیسر کے ساتھ جانے پہ انکاری تھا لیکن پولیس آفیسر اس کی بات ان سنی کر کے اسے اپنے ساتھ گھر لے گیا۔

ایمرجنسی وارڈ میں ایک بوڑھے شخص کو لایا گیا۔فالج کے اٹیک کی وجہ سے اس کا دایاں حصہ بالکل ناکارہ ہو چکا تھا اور اب گردے فیل ہونے کی وجہ سے اسے شہر کے ایک فلاحی ہسپتال میں منتقل کیا گیا تھا جہاں اس کی کڈنیز واش ہونی تھیں۔ڈاکٹر میران علی مبارک اس وقت مریض چیک کرنے میں مصروف تھا جب ڈیوٹی پہ معمور نرس دوڑتی ہوئی اس کے پاس آئی اور اسے مطلوبہ مریض کی سنگین صورتحال سے آگاہ کیا۔وہ چیک اپ کے لئے آئے مریضوں سے چند لمحے کی معذرت کر کے ایمرجنسی پہنچا۔اس کے چہرے پہ ماسک تھا۔ایک نخیف اور کمزور سا مریض اس وقت بیڈ پہ لیٹا ہوا تھا۔اس کے ساتھ عام سے کپڑوں میں ملبوس ایک مرد اور عورت تھے۔ڈاکٹر میران علی نے جیسے ہی مریض کو دیکھا تو وہ سانس نہ لے سکا۔اگر اس کے چہرے پہ ماسک اور آنکھوں پہ عینک نہ ہوتی تو شاید وہاں پہ موجود ہر شخص اس کے چہرے پہ ابھرنے والے تاثرات دیکھتا۔وہ مریض کی صورتحال دیکھ کر پریشان ہو گیا اور پھر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس نے اس مریض کا چیک اپ کیا۔پھر اس نے نرس سے بلڈ لے کر ان کا چیک اپ کروانے کا کہا اور خود ان دونوں مرد اور عورت کو باہر آنے کا کہہ کر ایمرجنسی وارڈ سے باہر نکل آیا۔وہ ایمرجنسی وارڈ کے دروازے پہ کھڑا تھا جب مریض کے ساتھ آئے دونوں مرد اور عورت اس کے پاس آ گئے

"جی ڈاکٹر صاحب،مریض کو کیا مسئلہ درپیش ہے”مرد نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
"یہ تمہارے کیا لگتے ہیں”میران علی مبارک نے چہرے پہ ماسک درست کیا
"یہ۔۔۔ہمارے تو کچھ بھی نہیں لگتے”مرد نے اپنا سر جھکایا
"تو پھر تم لوگ کیوں ساتھ آئے ہو اگر تمہارے کچھ نہیں لگتے”اس نے لہجہ تلخ کیا
"جی۔۔جی صاحب،ہم لوگ ان کے نوکر ہیں اور پچھلے چار سال سے انہیں سنبھال رہے ہیں”مرد اسے دیکھ کر لڑکھڑایا اور پھر سنبھل گیا
"تو کیا ان کا کوئی بیٹا یا پھر بیٹی نہیں ہے جو انہیں سنبھال لیتا”وہ جیسے انکوائری کے موڈ میں تھا
"صاحب جی آپ کیوں مشکل سے مشکل سوالات پوچھے جا رہے ہیں”مرد گھبرا سا گیا
"میں تم سے جو پوچھ رہا ہوں وہ بتائو،اگر ان کا آپریشن کرنا پڑے تو ان کے کسی بیٹے یا بیٹی کا ہونا ضروری ہے پھر کیا کرو گے”میران نے نرم لہجہ اپنایا

"صاحب جی،ان کا نام مبارک ہے اور ہمارے صاحب یورپ میں مقیم تھے،لیکن چار سال پہلے کچھ ماہ رکنے کے لئے پاکستان آئے تو انہیں انہیں دوسرے ہی دن فالج کا اٹیک ہو گیا۔ان کے دونوں بیٹے ان کو پھر کسی بڑے ڈاکٹر کے پاس نہیں لے کر گئے بلکہ ایک چھوٹے سے کلینک پہ لے کر جاتے رہے۔جس سے ان کی حالت مزید بگڑ گئی اور ان کی زبان پہ بند ہو گئی۔ان کے دونوں بیٹے اور دونوں بیٹیاں دو ہفتے رہے اور پھر وہ واپس اٹلی چلے گئے۔ان کی بیگم بھی اپنے بچوں کے ساتھ یورپ چلی گئی۔جانے سے پہلے وہ انہیں ہمارے حوالے کر گئے تھے اور ہر ماہ ہمیں خرچہ بھیج دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہم ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ہم لوگ اسی لئے اس فلاحی ادارے میں آئے ہیں کیونکہ یہاں پہ سب کا مفت علاج ہوتا ہے۔ہمیں گورنمنٹ کے ایک ہسپتال میں موجود ڈاکٹر نے یہ بتایا تھا کہ ان کے گردے کام نہیں کر رہے آپ لوگ فورا انہیں کسی بڑے ہسپتال لے جائیں تو ہم انہیں یہاں پہ لے آئے ہیں۔بس اتنی سی کہانی ہے۔ان کے بیوی بچوں نے آج تک ان کے بارے نہیں پوچھا”وہ مرد انہیں بتاتے بتاتے آبدیدہ ہو گیا تو میران علی مبارک کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں

"تمہارا نام کیا ہے”میران علی نے اس کا نام پوچھا
"میرا نام عظیم ہے صاحب جی اور یہ میری بیوی صفیہ ہے”اس نے اپنا تعارف کروایا تو ڈاکٹر میران اثبات میں سر ہلاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔وہ شدید کرب میں مبتلا تھا کیونکہ اٹھارہ سالہ درد پھر سے تازہ ہو گیا تھا۔اس کے سب درد جاگ گئے تھے۔

وہ پولیس آفیسر اسے اپنے گھر لے آیا جہاں اس نے اپنی بیوی سے اسے متعارف کروایا۔اس پولیس آفیسر کا نام شہاب الدین تھا۔اس کی بیٹی اس وقت سیکنڈ ائیر کی سٹوڈنٹ تھی۔پھر میران علی کی زندگی وہاں رکی نہیں تھی۔اس نے دو سال بعد ایف ایس سی کی اور پھر شہر لاہور کے ایک میڈیکل کالج میں اس کا داخلہ ہو گیا۔وہ دن اس کی زندگی کا سب سے خوبصورت دن تھا کیونکہ اس کی زندگی میڈیکل کی تعلیم نے بدل دی۔شہاب الدین اور اس کی بیوی حلیمہ سے اسے ماں باپ کا پیار ملا۔وہ دونوں اولاد نورینہ سے محروم تھے اسی لئے انہوں نے اس کی بہت قدر کی اور پھر وقت کے ساتھ اس نے بھی اپنی وفا داری ثابت کی اور ان کا سچا بیٹا بن کر دیکھایا۔دیکھتے ہی دیکھتے میڈیکل کی تعلیم پانچ سال بعد مکمل ہوئی تو وہ ایک ہسپتال میں ہائوس جاب کرنے لگے۔اس کے بعد شہاب الدین بھی نوکری سے ریٹائرڈ ہو گیا تو وہ ان کا کفیل بن گیا۔اس کی شادی شہاب الدین نے اپنے ایک عزیز کے ہاں کروائی۔وقت کے تھپیڑوں نے میران علی کو ایک سلجھا ہوا انسان بنا دیا تھا اور وہ پندرہ سال گزرنے کے بعد بہترین ڈاکٹروں میں شمار ہونے لگا۔اس نے کڈنیز واش کے لئے دو فلاحی مراکز بنائے جہاں پہ کمزور اور غریب طبقے کا مفت علاج ہوتا تھا۔

آج تین ماہ بیت چکے تھے۔وہ اس وقت گھر سے ہسپتال پہنچا تھا جب اس کے قدم خوبخود ہی ایمرجنسی وارڈ کی جانب اٹھ گئے۔اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی حالت زار دیکھی تو اسے ان کی حالت زار دیکھ کر بے پناہ رحم آیا۔ان کی زبان معجزانہ طور پر اب چلنے لگی تھی لیکن اب بھی الفاظ صاف سنائی نہیں دیتے تھے۔اس کے ذریعہ سے انہیں شفاء مل رہی تھی۔اس نے گھر جانے کے بعد شہاب الدین سے ان کا ذکر کیا تو وہ دیر کچھ بھی نہ بول سکے تھے۔یقینا وہ میران علی کی قیمت جانتے تھے کہ وہ کتنا انمول شخص تھا جسے اس کے باپ نے خود کھو دیا تھا لیکن اب اس کے اختیار میں کچھ بھی نہیں تھا۔اس کے باپ کی کڈنیز دو ہفتے واش ہونے بعد اب دوبارہ سے ٹھیک۔ہو چکی تھیں لیکن فالج کے اثرات اب بھی باقی تھے۔جس کی وہ باقاعدہ ٹریٹمنٹ کر رہا تھا۔

مبارک علی خان اس وقت بیڈ کی کے سرہانے سے سر ٹکائے آنسو بہا رہے تھے۔تقریبا چھ ماہ کے مکمل علاج کے بعد آخر انہیں فالج سے چھٹکارہ مل چکا تھا،ان کو ہسپتال سے آج ڈسچارج کر دیا جانا تھا۔اس عرصے میں عظیم اور صفیہ نے ان کی خوب خدمت کی۔اس کے ساتھ ہسپتال کا عملہ بھی خندہ پیشانی سے پیش آیا تھا۔کچھ دیر گزرنے کے بعد ڈاکٹر میران علی اپنے ساتھ شہاب الدین اور حلیمہ ماں کو لے کر آیا۔اس کے چہرے پہ اب بھی ماسک تھا۔اس نے مبارک علی خان کی فائل دیکھی اور پھر عظیم اور صفیہ کو کہا کہ وہ انہیں لے جا سکتے ہیں تو مبارک علی خان آگے بڑھ کر میران علی کے ہاتھوں پہ بوسہ دیا اور بولے

"آپ کا بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب،میں آپ کا یہ قرض کبھی بھی چکا نہیں سکوں گا لیکن میں آپ کا چہرہ دیکھنا چاہتا ہوں کیونکہ آپ جب بھی آئے ہمیشہ اپنا چہرہ ماسک سے ڈھانپ کر آئے”وہ خاموش ہوئے تو میران علی مبارک نے ایک نظر شہاب الدین اور اماں حلیمہ کی طرف دیکھا اور پھر چہرے سے ماسک ہٹا دیا۔مبارک علی خان چند لمحوں کے لئے اس کا چہرہ غور سے دیکھتا رہا اور پھر اس کے چہرے کی طرف اشارہ کیا۔

"ت۔۔۔تم۔۔میرا مطلب ہے۔آپ۔۔۔آپ۔اپنا نام بتا سکتے ہیں”وہ پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے تو میران علی مبارک نے نفی میں سر ہلا کر شہاب الدین کی طرف دیکھا جن کا دھیان اسی کی طرف تھا۔وہ بھانپ گئے کہ میران علی کچھ بھی نہیں بول سکے گا تو وہ خود ہی آگے بڑھے اور میران علی کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر انہیں بتایا

"ڈاکٹر میران علی مبارک نام ہے”
"میران۔۔مم۔میران۔۔۔بیٹا”مبارک علی خان چلائے

"ہاں۔۔۔یہ تمہارا وہی بیٹا ہے جسے تم نے گھر سے نکال دیا تھا۔جسے اس عمر میں تم نے بے آسرا کر دیا تھا جب اسے تمہارے سہارے کی ضرورت تھی اور آج خود کو دیکھ لو تمہارے سامنے ہے”شہاب الدین نے میران علی کو اپنے ساتھ لگایا تو ان کی آنکھیں نم ہو گئی۔حلیمہ بیگم بھی اس وقت آنسو بہانے لگیں جبکہ صفیہ اور عظیم ہکا بکا سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔انہیں اپنے کانوں پہ یقین بھی نہیں آیا تھا۔مبارک علی خان دھیرے سے آگے بڑھے اور اپنے ہاتھ اس کے دونوں گال پہ رکھے
"م۔۔۔میں۔۔۔معافی کے قابل نہیں ہوں۔مگر مجھے معاف کر دو میران علی”انہوں نے دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑے

"معاف کر دوں مبارک علی خان،مگر وہ دل کہاں سے لائوں جس دل میں آپ کے لئے عزت تھی،وہ دل کہاں سے لائوں جس دل میں آپ کے لئے محبت تھی۔اگر مجھے اللہ کا ڈر نہ ہوتا تو شاید میں کبھی آپ کے سامنے ہی نہ آتا لیکن اللہ آپ کو میرے در پہ لے کر آیا ہے۔دیکھ لیں اپنا حال،اپنی روایات اور خاندان کی خاطر آپ نے مجھے بے دخل کیا ہے لیکن اس خاندان نے پلٹ کر بھی آپ کی خبر نہیں لی اور آج آپ بے یار و مدد گار ہیں،کیا اتنا سا بھی رحم نہیں آیا تھا کہ اپنے بیٹے کے ساتھ میں کیا کر رہا ہوں،مجھے عاق کرنے کے بعد تو آپ نے میرا مستقبل تباہ کر دیا تھا لیکن خود مغرب کی ہوائوں میں چلے گئے۔میری ماں کا ایک بار بھی خیال نہیں آیا جس کی قبر میری غیر حاضری کو کب سے محسوس کر رہی ہو گی”میران علی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے

"تم مجھے ایک بار معاف کر دو میران،شاید مجھے میرے آدھے گناہ لگنے لگ جائیں”انہوں نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے
"میں اپنا انجام دیکھ چکا ہوں”وہ گڑگڑا رہے تھے تو وہ ان کے چہرے کی طرف چند لمحوں کے لئے دیکھتا رہا اور پھر اس نے آگے بڑھ کر انہیں گلے لگایا تو مبارک علی خان زار و قطار روتے چلے گئے۔کچھ دیر بعد اس نے انہیں خود سے علیحدہ کیا

"میں نے آپ کو معاف نہیں کیا بابا کیونکہ یہ تعلق توڑنے کی شروعات آپ نے خود کی تھی۔آپ نے خود مجھے بے دخل کیا تھا لیکن میں کوشش کروں گا آپ کو معاف کر سکوں اور پھر سے آپ کو وہی مقام دے سکوں جو آپ کا مقام تھا لیکن میں نے آپ کو معاف نہیں کیا،میں نے آپ کو معاف نہیں کیا۔میرے ان ماں باپ سے پوچھ لیں،آپ سے جو بھی معافی کی قیمت وصول کرنا چاہتے ہیں انہیں ادا کر دیں”وہ یہ کہتے ہوئے وارڈ سے نکل گیا،مبارک علی خان اسے جاتا دیکھتے رہے اور زبان سے کچھ بھی نہ بول سکے۔

"تم نے ایک ہیرا کھویا ہے مبارک علی خان،تمہارا بیٹا ایک ہیرا ہے جس کا وہ حصہ تم نے توڑ دیا جس میں تمہارے لئے محبت تھی،لیکن میں نے پھر بھی اسے زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے”شہاب الدین ان کی حالت دیکھ کر استفسار کیا تو مبارک علی خان نے شرمندگی سے اپنا سر جھکا دیا

"آپ مجھے اس معافی کی قیمت بتائیں جو مجھے اس کے ساتھ کی جانے والی نا انصافیوں کی ادا کرنی ہے”مبارک علی خان نے اپنا سر جھکائے رکھا تو شہاب الدین ایک گہری سانس لے کر ان کی طرف بڑھے

"اس کی قیمت یہ ہے،کہ آپ کو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہنا ہو گا۔میرے گھر،ڈاکٹر میران علی مبارک کے گھر”انہوں نے دونوں کندھوں سے انہیں تھام لیا تو وہ حیرانگی سے شہاب الدین کا چہرہ دیکھنے لگے جہاں مکمل اطمینان تھا۔شہاب الدین ان کا ہاتھ پکڑ اپنے گھر میں لے جانے کی غرض سے چل پڑے۔اٹھارہ سال پہلے اسی طرح ہی انہوں نے میران علی کا ہاتھ پکڑا تھا اور آج اس کے سگے باپ کا ہاتھ پکڑا تھا۔مبارک علی خان کے لئے معافی میں دیر تھی مگر وہاں اندھیر کی کوئی گنجائش نہیں تھی کیونکہ شہاب الدین خود چاہتے تھے کہ میران علی مبارک انہیں معاف کر دے۔

ازقلم/اویس

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!