ترقی پذیر ممالک میں توانائی کی منتقلی کو تیز کرنے ، فنانسنگ اور سرمایہ کاری کو متحرک کرنے کیلئے بین الاقوامی تعاون کو بڑھایا جانا چاہئے، فیصل نیاز ترمذی
موسمیاتی تبدیلی انسانی صحت اور عالمی معیشت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے
گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پانچواں سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے
ترقی پذیر ممالک کو سرسبز مستقبل کی طرف بڑھنے کے لئے تعاون کی ضرورت ہے
دبئی (طاہر منیر طاہر) متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں پاکستان کے سفیر فیصل نیاز ترمذی نے ترقی پذیر ممالک کو سرسبز مستقبل کی طرف گامزن کرنے کے لئے تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں توانائی کی منتقلی کو تیز کرنے کے لئے فنانسنگ اور سرمایہ کاری کو متحرک کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کو بڑھایا جانا چاہئے۔
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں پاکستانی سفارتخانہ کی ایک پریس ریلیز کے مطابق سفیر نے ابوظہبی میں انٹرنیشنل رینیوایبل انرجی ایجنسی اسمبلی کے 14ویں اجلاس کے انعقاد پر انٹرنیشنل رینیوایبل انرجی ایجنسی (IRENA) اور متحدہ عرب امارات کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے ڈائریکٹر جنرل فرانسسکو لا کیمرا کی قیادت اور انٹرنیشنل رینیوایبل انرجی ایجنسی کی طرف سے صاف ستھرے اور سرسبز مستقبل کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کو بھی سراہا-
انہوں نے کہا کہ دنیا موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لئے توانائی کے مناظر میں تیزی سے تبدیلی دیکھ رہی ہے، موسمیاتی تبدیلی انسانی صحت اور عالمی معیشت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے پاکستان جیسے ممالک کو اس کے نتیجے میں معصوم جانوں کا ضیاع، لاکھوں افراد کی نقل مکانی اور اربوں ڈالر کے معاشی نقصان پر روشنی ڈالی۔ سفیر نے مزید کہا کہ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پانچواں سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے جبکہ اخراج کے معاملے میں اس کا حصہ دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
انہوں نے ترقی پذیر ممالک کی طرف سے موسمیاتی تبدیلی کے اقدامات کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے موسمیاتی فنانس کے وعدوں کو پورا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اس ضمن میں گزشتہ سال متحدہ عرب امارات کی میزبانی میں کاپ ۔28 کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ متحدہ عرب امارات کی سرپرستی نے لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کو فعال کرنے سمیت اہم فیصلے کئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان 2030 تک پن بجلی سمیت صاف قابل تجدید ذرائع کا حصہ کم از کم 60 فیصد تک لے جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اس سے نہ صرف توانائی کی ایکویٹی، استطاعت، پائیداری کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی بلکہ پاور سیکٹر سے اخراج میں بھی نمایاں کمی آئے گی۔ سفیر نے اس بات پر زور دیا کہ توانائی کی عالمی منتقلی منصفانہ، جامع اور مساوی ہونی چاہئے، ترقی پذیر ممالک کو سرسبز مستقبل کی طرف بڑھنے کے لئے تعاون کی ضرورت ہے۔
انہوں نے انٹرنیشنل رینیوایبل انرجی ایجنسی کے اراکین پر زور دیا کہ وہ ایسی حکمت عملی وضع کریں جو فوری، منصفانہ اور مساوی منتقلی کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے گرانٹس اور رعایتی فنانسنگ تک رسائی کو یقینی بنائے۔