بیجنگ (ویب ڈیسک)تینتیس سالہ ڈاشی چین کے اندرونی منگولیا خود اختیار علاقے میں رہتے ہیں۔ اونٹ کی سواری،اونٹوں کا دودھ دُوہْنا، دودھ پتی بنانا… چرواہوں کی روزمرہ زندگی کی سرگرمیوں کو شیئر کرنے کی بدولت سوشل میڈیا پر ڈا شی کے فینز کی تعداد 10 ملین سے زیادہ ہے اور ویڈیوز کے لئے لائکس کی اوسط تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے۔عمومی تاثر یہی ہے کہ چرواہے اپنے خیموں،یعنی ” منگولین یورٹ” سمیت ایسے مقامات پر نقل مکانی کرتے رہتے ہیں جہاں پانی اور گھاس زیادہ ہو۔سوال یہی ہے کہ ان کی نئی بستیوں کو بجلی کیسے فراہم کی جائے ۔چند روز قبل ڈاشی نے اس کا دلچسپ جواب دیا ۔
انہوں نے اپنی ایک ویڈیو میں بتایا کہ ان کا خیمہ شمسی توانائی کی سہولیات سے لیس ہے اور ان چھوٹے شمسی پینلز کی مدد سے آس پاس بکھرے ہوئے چرواہوں کو صاف اور سبز توانائی حاصل ہو سکتی ہے۔ڈا شی اپنی زندگی سے کافی مطمئن ہیں اور انہوں نے کہا کہ "خانہ بدوش علاقوں میں زندگی کا معیار بھی بہتر سے بہتر ہو رہا ہے۔ قدرت ہمیں سورج کی روشنی دیتی ہے، اور جب ہم اسے شمسی پینل سے پکڑتے ہیں تو ہمیں بجلی حاصل ہے۔”منگولین یورٹ کے باہر شمسی پینل سے لے کر زرعی کھیتوں میں ونڈ ٹربائن تک،پھر چھوٹے قصبوں میں مکانات کی چھتوں پر شمسی توانائی کے ہیٹر وغیرہ، صاف توانائی کی سہولیات نہ صرف لوگوں کو کم قیمت پر بجلی فراہم کرتی ہیں ، بلکہ اضافی براہ راست آمدنی بھی لاتی ہیں۔شی زانگ خوداختیار علاقے کے رے لونگ ، ری شنگ اور لونگ ما ٹاؤن شپ ماضی میں غربت کا شکار تھے۔
حالیہ برسوں میں یہاں فوٹو وولٹک پاور اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں اور گرڈ کنکشن سے ہونے والی تمام آمدنی ٹاؤن شپ کو واپس کردی گئی ہے۔ اگرچہ یہ فوٹو وولٹک پاور پلانٹس اتنے بڑے نہیں ، لیکن وہ ہر سال مقامی رہائشیوں کے لیے مجموعی طور پر دو لاکھ آر ایم بی کا منافع لاسکتے ہیں۔ان "چھوٹے لیکن خوبصورت” منصوبوں سے شروع کرتے ہوئے، چین کی توانائی کی منتقلی "معیشت + ماحولیات” کی جیت- جیت صورتحال لا رہی ہے۔ آہستہ آہستہ کرہ ارض کا روپ تبدیل ہو رہا ہے اور دنیا کو ایک سرسبز اور زیادہ پائیدار مستقبل حاصل ہورہا ہے.وسیع و عریض گوبی میں اپنے سفر کے دوران، میں نے ایک عجیب منظر دیکھا : بنجر زمین میں، نیلے رنگ کے فوٹووولٹک پینلز اچانک رونما ہوئے۔ ارد گرد ویرانی کے بجائے ، پینل کے نیچے سبزہ تھا ، جو صحرائی نخلستان لگتا ہے۔بعد میں ، مجھے پتہ چلا کہ فوٹو وولٹک پینل ننھے گھاس کو تیز دھوپ سے محفوظ رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ، لوگ پینل کو باقاعدگی سے فلش کرتے ہیں اور یوں گوبی کو پانی ملتا ہے۔ یہ ایک اتفاقی دریافت ہے، لیکن بعض اوقات اتفاقاً واقعات غیر متوقع مواقع کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔اور چینی لوگوں نے اس "اتفاقاً موقع” سے بخوبی فائدہ اٹھایا ہے۔ صوبہ چھنگ ہائی میں واقع تھاراٹھان فوٹووولٹک انڈسٹریل پارک نصب شدہ صلاحیت کے لحاظ دنیا کا سب سے بڑا فوٹو وولٹک پاور جنریشن پارک ہے۔ یہاں اوسط سالانہ دھوپ کا دورانیہ تقریباً تین ہزار گھنٹے ہے۔ تاہم ، وسیع صحرائے گوبی میں ایسے وافر دھوپ کے وسائل کو استعمال میں لانے کے حوالے سے متعدد مشکلات کا سامنا ہے ، جہاں صحرائی علاقے کا رقبہ 98.5 فیصد ہے۔
سب سے پہلے، فوٹو وولٹک آلات نصب کرنے کے لیے ریت کا انتظام ضروری ہے. لوگوں نے گھاس کے بیج بکھیرتے ہوئے اس کا ایک حل نکالا ۔ ہوا اور ریت کو کنٹرول کرنے کے بعد ، فوٹو وولٹک پینلز لگائے گئے۔ لیکن آہستہ آہستہ، لوگوں نے پایا کہ پینلز کے نیچے گھاس اس قدر تیزی سے بڑھتی ہے کہ بجلی کی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے.اب کیا کیا جائے؟ یہ صنعتی پارک 609 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے، اور گھاس کی کٹائی سودمند نہیں ہے۔ بعد میں،چرواہوں کی بھیڑیں آ گئیں اور یہ مسئلہ حل ہوا۔ اسی طرح ،لوگوں کو بجلی اور بھیڑیں ملتی ہیں، بھیڑ وں کو گھاس ملتی ہے اور گھاس کو بھیڑوں سے کھاد ملتی ہے۔ جیسا کہ چرواہے ڈاشی نے کہا، قدرت دھوپ دیتی ہے اور لوگ اسے پکڑ لیتے ہیں۔ نہ صرف بجلی حاصل ہوئی، بلکہ چراگاہوں کو سرسبز کیا گیا ، مویشی بھی فربہ ہوئے۔چین کی وسیع و عریض سرزمین پر سبزہ زار، صحرائے گوبی،طویل ساحل اور دنیا کے بلند ترین علاقے بھی موجود ہیں۔ایسے پیچیدہ جغرافیائی حالات میں ہر جگہ پر توانائی کی منتقلی میں پیش آنے والے مسائل مختلف ہوتے ہیں کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی راستہ طویل اور مشکل ہوتا ہے،لیکن جب لوگ روانہ ہوتے ہیں ،تو منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔
چینیوں نے بڑی مضبوطی اور ثابت قدمی کے ساتھ نئی توانائی کے بہت سے منصوبے تعمیر کیے ہیں. ان میں سے ،مذکورہ دنیا کا سب سے بڑا فوٹووولٹک پاور جنریشن پارک ، سطح سمندر سے 5000 میٹر بالادنیا کا بلند ترین فوٹووولٹک اسٹوریج منصوبہ اور اس میں ایک مکمل آف شور ونڈ پاور انڈسٹری چین وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ توانائی کی منتقلی کے راستے پر ، چین نے "چھوٹے لیکن خوبصورت” منصوبوں سے اپنا سفر شروع کیا ہے۔ فرداً فرداً تکنیکی مسائل کو حل کیا گیا ہے ،بے شمار عملی تجربات حاصل ہوئے ہیں اور جدت طرازی کی صلاحیت بہتر ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین ٹیکنالوجی کی منتقلی، منصوبوں کی تعمیر اور مالی معاونت کے ذریعے اپنے عملی تجربے کا اشتراک کر رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے، پائیدار ترقی کو فروغ دینے اور بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے لیے جدید حل پیش کر رہا ہے۔