سابق وزیراعظم میاں نواز شریف لندن میں تذبذب کا شکار ہیں اور لندن میں انہوں نے اپنی پارٹی مسلم لیگ ن کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے تاکہ مشکلات میں گھرے عوام کو مسائل کی دلدل سے نکالا جا سکے اور جھوٹ کی سیاست کو دفن کر کے پاکستان کو حقیقی جمہوری حکومت دی جائے تاکہ نوجوان نسل کا مستقبل روشن ہو، دراصل پاکستان کی بگڑتی سیاسی صورتحال اور عوام کا دن بدن سیاسی ماحول سے اٹھتا اعتماد پاکستان کو پستی کی طرف لے کر جارہا ہے، ماحول خراب اور نوجوان نسل کا مستقبل تاریکی کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے، پی ٹی آئی نے نوجوانوں کو نہ صرف جذباتی بنایا بلکہ ان کا اخلاق بھی منفی بنا دیا،اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے پاکستان کی سلامتی کے اداروں پر حملے اور انہیں کمزور کرنے کی سازش کو ملکی مفاد کے برعکس قرار دیا ہے، قومی اسمبلی میں مذمتی قرارداد بھی پیش کی گئی جس میں میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے بیان میں تاریخی حقائق کو مسخ اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ادارے اپنے ملک کیخلاف سازش کررہے ہیں۔
پاکستان کی مسلح افواج ملکی سرحدوں کا بلاخوف و خطر تحفظ کررہی ہیں، سیاسی مقاصد کیلئے ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی ہر کوشش ملکی مفاد کیخلاف ہے، پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین عمران خان نے اپنے اپوزیشن کے دور میں بھی جارحانہ انداز سیاست اختیار کیا تھا جب وہ ڈی چوک اسلام آباد میں اپنے طویل دھرنے کے دوران ایمپائر کی انگلی کا اشارہ کرکے پارلیمنٹ ہائوس پر دھاوا بولنے کی ترغیب دیتے رہے اور پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے اس دھرنے کے دوران پارلیمنٹ ہائوس اور پی ٹی وی پر دھاوا بول بھی دیا تھا جس پر ان کیخلاف مقدمات بھی درج ہوئے جب کہ اپنے دور حکومت میں بھی پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان آئین، قانون اور پارلیمنٹ کو پس پشت ڈال کر اپنی من مرضی سے نظام حکومت چلانے کی کوشش کرتے رہے، ان کے ماورائے آئین و قانون اقدامات اور فیصلوں پر الیکشن کمیشن اور عدلیہ کی جانب سے گرفت کی جاتی تو وہ لٹھ لے کر ملک کے آئینی اداروں پر نہ چڑھ دوڑتے، عمران خان نے جس طرح ملک کی سیاست میں الزامات کا کھیل ،گالم گلوچ اور تشدد کے کلچر کو فروغ دیا اس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں، ان کی سوچ اور طرز حکمرانی سے یہی عندیہ ملتا رہا کہ اپنی یک وتنہا حکمرانی کیلئے پارلیمانی جمہوری نظام انہیں سوٹ نہیں کرتا۔
اس سلسلہ میں وہ چین، امریکہ، سعودی عرب اور بعض دوسرے ممالک کی مثالیں بھی دیتے رہے جہاں شخصی طرز حکمرانی قائم ہے لیکن اپنی نوجوان نسل کی کبھی تربیت نہیں کی ،ہمیں اپنے نظام کو بہتر بنانا ہو گا،نظام کی اصلاح کے اقدامات اٹھانے میں کوئی مضائقہ نہیں تاہم اصلاح کے اقدامات مروجہ آئین و قانون کے ماتحت ہی اٹھائے جا سکتے ہیں ۔عمران خان کے اقتدار کی راہ اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے ہی ہموار ہوئی تھی اور ایک صفحے والی یکجہتی کی بات کرکے وہ یہ تاثر بھی دیتے رہے کہ عسکری ادارہ ان کی حکومت کے ساتھ کھڑا ہے، اس کے برعکس عسکری قیادت نے دوٹوک الفاظ میں فوج کے سیاسی معاملات سے لاتعلق ہونے کا اعلان کیا اور قومی سیاسی قیادتوں کے ساتھ طویل نشست میں انہیں باور بھی کرایا کہ فوج کو سیاسی معاملات میں نہ الجھایا جائے جب کہ فوج کے غیرجانبدار ہونے کو بھی سابق وزیراعظم نے اپنی حکومت کیخلاف سازش سے تعبیر کیا اور غیرجانبداری والے کردار کو مختلف القابات کے ذریعے تضحیک آمیز انداز میں ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے عوام کے مسائل حل نہ ہونےکی بنیاد پر ہی اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر حکومت کیخلاف تحریک چلانے اور وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا موقع ملا جس سے آئینی اور قانونی طریقہ کار کے مطابق عہدہ برأ ہونے کے بجائے عمران خان اور ان کے اکابرین نے کسی سازشی تھیوری پر مبنی بیانیہ اختیار کرکے اپنے مخالف سیاست دانوں اور اداروں پر ملبہ ڈالنا شروع کر دیا۔ وہ آئینی اور جمہوری طریق کار کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک کی منظوری کے بعد وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اور ان کی پارٹی نے براہ راست آئین اور اس کے تحت قائم ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کرلی جس میں اب شدت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس تمام صورتحال پر ہمارے ازلی دشمن بھارت کو ہماری سلامتی کیخلاف اپنی گھنائونی سازشیں روبہ عمل میں لانے کا موقع ملے گا، یہ تو بادی النظر میں ملک کے دشمن کو ملک کی سلامتی کیخلاف اقدام اٹھانے کی خود ہی دعوت دینے کے مترادف ہے جو ملک کے آئینی اداروں سمیت کسی بھی محب وطن شہری کیلئے قابل قبول نہیں ہو سکتی اور نہ ہی موجودہ غیریقینی فضا زیادہ عرصے تک برقرار رکھی جا سکتی ہے۔
ملک میں جمہوریت کی عمل داری اور آئین و قانون کی حکمرانی ہے تو سب کو اس کا پابند ہونا ہے، اگر سابق وزیراعظم عمران خان آئین، قانون اور اداروں سے ٹکرانے کا راستہ اختیار کریں گے تو اس کا انہیں ہی نقصان اٹھانا پڑے گا، اس لئے انہیں آئین و قانون کی عملداری کے دائرے سے باہر نکل کر نہیں کھیلنا چاہئے۔ ریاستی اتھارٹی سے زیادہ کوئی بھی طاقتور نہیں ہو سکتا، اس تمام تر صورتحال سے ہر اوورسیز پاکستانی پریشان ہے بلکہ دل برداشتہ ہے ،پاکستان بیرونی دنیا میں تماشا بنتا جا رہا ہے، انھیں اپنے پاکستان سے محبت ہے لیکن سیاست سے مایوس ہیں، ان کے نزدیک ووٹ کا حق ان کے مسائل حل نہیں کر سکتا، ان کے مسائل حل کرنے کے اقدامات کئے جانے چاہئیں ، ضروری ہے ووٹ کا حق دینے سے برطانیہ ، یورپ میں عوام گتھم گتھا ہو جائیں گے، گروپ بندیاں ہوں گی اور خون خرابہ کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا جس سے پاکستان کی بدنامی ہو گی۔