برسلز(نمائندہ خصوصی) یورپین دارالحکومت برسلز میں تعینات تمام عرب سفیروں نے یورپین قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جاری عرب – اسرائیل تنازعے میں تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہوں اور اسرائیل پر غزہ میں جارحیت روکنے کیلئے دبائو ڈالیں۔
یہ مطالبہ یورپین دارالحکومت برسلزمیں تعینات عرب سفیروں کی ’کونسل آف عرب ایمبیسڈرز‘ نے اپنے گلے میں فلسطین کے جھنڈے ڈال کر، برسلز پریس کلب یورپ میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا،فلسطین پر اسرائیلی جارحیت اور یورپین پوزیشن ‘ کے موضوع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عرب سفیروں کی کونسل کی صدر کی موجودہ صدر اردن کی سفیر مادام ساجا مجالی نے کہا کہ ہم عرب ممالک جو یورپ کے دوست ہیں، یورپین ممالک سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس وقت فلسطین کے ساتھ بھی کھڑے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے دوستوں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہوں اور اس وقت تاریخ کی درست سمت یہ ہے کہ بے یارو مددگار فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہوا جائے۔ اس موقع پر انہوں نے واضح کیا کہ فلسطین کے مسئلے پر ہمیشہ تمام عرب ممالک کا یکساں موقف رہا ہے اور وہ اس مسئلے کو لیکر تقسیم نہیں ہوئے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یورپین یونین اور بیلجیئم میں فلسطین کے سفیر عبدالرحیم الفرا نے یورپین یونین پر زور دیا کہ وہ اسرائیل پر غزہ میں جاری جارحیت روکنے کیلئے دبائو ڈالیں اور اسرائیل کو مجبور کریں کہ وہ ایک قابض طاقت کے طور پر اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے مظالم کو روکے ۔ اس کے ساتھ اسرائیل پر اس بات کیلئے بھی دبائو ڈالا جائے کہ وہ مذاکرات کی میز پر واپس آکر ایک قابل عمل دو ریاستی حل کی طرف راستہ بنائے۔
فلسطینی سفیر نے اپنی گفتگو میں اس بات کو انتہائی ناقابل یقین قرار دیا کہ آج بھی کچھ لوگ ایک ایسے جارح اور قابض طاقت کے حق دفاع کی حمایت کر رہے ہیں جو ہر لمحے یہ واضح کرتا ہے کہ وہ اندھا انتقام لے گا اور فلسطینیوں کو طاقت کے زور پر بے دخل کرکے فنا کردے گا۔پریس کانفرنس میں اپنی باری پر گفتگو کرتے ہوئے مصر کے سفیر بدر عبدل عاطے نے کہا کہ اس وقت عرب ریجن میں بہت غصہ پایا جاتا ہے اور ہمیں اس بات پر شدید تشویش ہے کہ تشدد کا یہ موجودہ سلسلہ کہیں آگے پھیل نہ جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے خطے میں بنیادی خرابی کی جڑ مسئلہ فلسطین ہے۔ اس تنازعے کو حل کیے بغیر ہمارے خطے میں پائیدار امن کا حصول ممکن نہیں۔
انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ مصر نے اپنی جانب سے رفاہ بارڈر کو بند کردیا ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ ، یورپین یونین اور دیگر بین الاقوامی امدادی قافلے وہاں اس یقین دہانی کے منتظر ہیں کہ اسرائیل ان پر غزہ میں داخل ہونے کے بعد بمباری نہیں کرے گا۔انہوں نے واضح کیا کہ فلسطینیوں کی غزہ سے بے دخلی نہ مصر کیلئے قابل قبول ہے اور نہ فلسطینیوں اور عربوں کیلئے۔یورپین یونین اور بیلجیئم میں تعینات سعودی عرب کے سفیر ڈاکٹر خالد الجندان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ایک طویل عرصے سے اسرائیل کا قبضہ بھی جاری ہے اور اس کے خلاف مزاحمت بھی۔ جب تک یہ قبضہ جاری ہے بحران بھی جاری رہے گا۔ اس سوال پر کہ اسرائیل کے کچھ قیدی یرغمال کے طور پر حماس کے قبضے میں ہیں،انہوں نے یاد دلایا کہ 6000 سے زائد فلسطینی اسرائیل کی جیلوں میں قید ہیں، انہیں کوئی یرغمالی کیوں نہیں پکارتا؟ ان کیلئے تو کوئی بات نہیں کرتا ۔
لبنان کے سفیر فادی ہجالی نے کہا کہ لبنانی قوم جذباتی لحاظ سے اس بات پر بہت پریشان ہے کہ ان کے ساتھ بھی وہ ظلم ہوسکتا ہے جو جو غزہ میں جاری ہے۔ اس لیے ہماری اپیل ہے کہ فوری طور پر جنگ بندی کی جائے اور جلد سے جلد غزہ کے عام لوگوں کی مدد کی جائے۔