برطانوی انتخابات

2مئی 2024 کو برطانیہ بھر میں جب لوکل گورنمنٹ الیکشن انعقاد پذیر ہوئے اور جو نتائج سامنے آئے ان سے یہ بات پورے طور پہ عیاں ہو گئی کہ پورے ملک میں سائوتھ سے لیکر نارتھ تک لوگوں نے حکمران جماعت کنزرویٹو کے مقابلے میں لیبر پارٹی کو لینڈ سلائیڈ وکٹری سے ہمکنار کیا جو حکمران جماعت کے لیے لمحہ فکریہ تھا ۔ پالیسی ساز جب سر جوڑ کر بیٹھے تو ان کے سامنے دو آپشن تھیں آیا کہ وہ اپنا حق حکمرانی سن 2025 تک پورا کریں یا پھر لوکل باڈیز الیکشن جس میں رائے دہندگان نے ان پہ عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اس کا احترام کیا جائے۔

با اصول سیاست اور قومی غیرت کے پیش نظر فیصلہ موخرالزکر آپشن  کے حق میں ہوا اور ٹھیک ساٹھ دنوں بعد 4 جولائی کو نیشنل الیکشن کا اعلان ہوگیا تاکہ نئی حکومت قومی امنگوں کے مطابق تشکیل پا سکے اور نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی اگلے دن لیبر پارٹی باوقار انداز میں ایوان اقتدار میں اس لیے پہنچ گئی کہ یہاں فارم 47 والی بددیانتی اور بے ضمیری کا کوئیعمل دخل نہیں تھا اور عوامی فلاح کی خاطر نظام حکومت اپنے اپنے منشور کے مطابق سیاسی پارٹیاں جوں کا توں ہی چلا رہی ہیں ۔

شکست خوردہ حکمران جماعت نے جس حوصلے اور فراخدلی سے عوامی رائے کا احترام کیا ہے اس سے ملکی وقار میں اضافہ ہوا ہے ۔ عمران خان چونکہ اپنی نوجوان عمری ہی میں برطانیہ آ گئے اور سال ہا سال اس طرح کے عمل بچشم خود دیکھتے رہے اس لئے وہ صاف ستھری سوچ اور قومی بیداری شعور سے برس ہا برس کے فرسودہ مافیائی نظام سے قوم کو نجات دلوانا چاہ رہے ہیں اے کاش کہ سن 71 ہی میں اگر بد کردار لوگوں اور بے ضمیر سیاستدانوں کا احتساب ہو گیا ہوتا تو مملکت خداداد پاکستان کا شمار آج دنیا کے باعزت اور باوقار ممالک میں ہوتا۔

مگر شومیے قسمت ایسا ہو نہ سکا اور آج بھی اسمبلی فلور میں یہ گونج سنائی دے رہی ہوتی ہے کہ اغیار کے کتے نہلانے والے خاندانوں کی باقیات آج بھی حلقہ اقتدار ہی میں نظر آتی ہیں اور بجا طور پہ اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ 1971 کے ساتھ موجودہ سیٹ اپ کی سو فیصد مماثلت ( اللہ محفوظ رکھے ) کسی بڑے المیے کا ہی پیش خیمہ ہو سکتی ہے ۔ اسلام دشمن طاقتوں نے ایوان صدر جو ایک دور میں پاکستانی قوم کے قاتلوں کی محفوظ پناہ گاہ ہوا کرتی تھی اس کی رونقیں بالائے آئین پھر سے بحال کروا دی ہیں اور ہوس اقتدار میں مبتلا سیاسی مہرے 8 فروری کے عوامی فیصلے کے خلاف پورے طور پہ متحرک ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ فوج کی عزت و وقار کا یہ عالم تھا کہ کسی بھی گاؤں یا علاقے میں حاضر سروس کیا اگر کوئی ریٹائرڈسپاہی بھی جو بات کرتا تھا اسے حق اور سچ مانا جاتا تھا اور آج بے توقیری کی یہ حالت ہے کہ ایک نہیں اگر دو دو جرنیل بھی پریس کانفرنس کر رہے ہوں تو کوئی سچ ماننے کے لیے تیار نہیں ( یہ جی ایچ کیو ) کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔

گزشتہ دو سالوں سے ضمیر فروش میڈیا اور پی ڈی ایم جتنی ہرزہ سرائی کرتے ہیں قدرت عمران خان کے عزت و وقار میں اتنا ہی اضافہ کر رہی ہے اور ایک مسلمان کا پختہ ایمان ہے کہ اس کے فیصلے بر حق ہیں ۔

حضور نبی پاکؐ کی ایک حدیث مبارکہ ہے کہ آپ کے پاس ایک نو مسلم آیا اور اس نے اپنےصغیرہ و کبیرہ بہت سے گناہوں، لغزشوں اور کوتاہیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک نصیحت فرمائیں جس پہ میں عمل کر سکوں ۔ حضورؐ کا فرمان تھا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو ۔ حکمت کے نتیجے میں دیگر عیوب سے بھی نجات مل گئی ۔ آخر میں حکم خداوندی پہ بات ختم کرتا ہوں ۔

و من شر حاسد اذا حسد

پاکستان الیکشن کمیشن ، عدلیہ و اسٹیبلشمنٹ کے سربراہوں اور حسد کی آگ میں جلنے والے ہر شخص کو اس فرمان الٰہی کو صدق دل سے اپنا کر سکوں قلب کا اہتمام کرنا چاہیے، یقینا ًاس میں ہر ایک کا فائدہ ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے تمام اداروں کو برطانوی طرز انتخابات سے بھی سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اللہ پاک ہم سب کو راہ ہدایت پہ گامزن رہنے کی توفیق سے نوازے ۔ آمین ثمہ آمین ۔

برطانوی انتخابات
Comments (0)
Add Comment