آدھی رات گزر چکی تھی لیکن نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی کیونکہ آج شام کو جب سے مجھے اپنے خالہ زاد بھائی اور قریب ترین دوست عمران عارف اور اسکی لاڈلی بیٹی آمنہ عارف کی ایک تیز رفتار لینڈ کروزر کی ٹکر سے موت کی خبر ملی تھی میں اس وقت سے شدید صدمے میں تھا۔ مجھے رہ رہ کر عمران عارف کے ساتھ گزارا گیا وقت یاد آرہا تھا ، وہ کتنا صابر شاکر ، اللہ پر بھروسہ کرنے والا اور خوددار انسان تھا ۔ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کیلئے ڈرائی کلین کی دکان سے لیکر سائیکل پر پاپڑ تک بیچنے کا کاروبار کیا لیکن میرے بار بار اصرار کے باوجود کبھی ایک روپیہ بھی مجھ سے لینا گوارا نہیں کیا ِ۔عمران عارف ہمیشہ خوش رہنے والا قناعت پسند انسان تھا ،مجھے آج بھی یاد ہے جب میں اسے سختی سے سمجھانے کی کوشش کررہا تھا ، یار عمران تم نے ابھی ڈرائی کلیننگ کی دکان کھولی ہے کاروبار سیٹ بھی نہیں ہوا ، تم پر دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی ذمہ داری ہے اہلیہ تمہاری ایک گھریلو خاتون ہے تم ان سب کو چھوڑ کر کیسے چالیس روزہ تبلیغی چلے پر جاسکتے ہو ؟۔
میری اس سختی سے کی جانیوالی بات پر میرا کزن عمران عارف مسکرایا اور بولا شاہد بھائی میں ان سب کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر کے اللہ کے راستے میں جارہا ہوں ، کچھ نہیں ہوگا اللہ پاک سب ٹھیک کردے گا جس کے بعد عمران بے فکر ہوکر چالیس روزہ چلے پر چلا گیا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے وہ وقت بھی گزار دیا ، وہ شروع سے ہی نوکری کے خلاف اور کاروبار کو ترجیح دیتا تھا اس کا کہنا تھا کہ تجارت میں ہی برکت ہے اور یہ سنت نبویﷺ بھی ہے لہٰذا میرے لیے تجارت کا پیشہ ہی ٹھیک ہے ۔ اس نے دن رات محنت کرکے کراچی کے علاقے اسکیم 33میں دو چھوٹے چھوٹے فلیٹ بھی خرید لیے تھے اور ایک دکان بھی خرید لی جو آجکل کے مہنگائی کے دور میں بہت بڑی بات تھی ، اس نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلائی جو اب ایک انجینئر بن چکا ۔
ایک بیٹی کی شادی کی جبکہ اس کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی ایم بی اے کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک کمپنی میں ملازمت بھی کررہی تھی ،وہ روز صبح اپنی بیٹی کو موٹرسائیکل پر دفتر چھوڑتا اور شام کو پک بھی کرتا تھا ،وہ اپنی بڑی بیٹی کی شادی پر بہت خوش تھا اسے بہت اچھا داماد ملا تھا وہ اکثر اپنے داماد کی دعوت کرتا تو بہت خوشی اور فخر سےمجھے وائس نوٹ بھیجا کرتا تھا کہ شاہد بھائی آج میرے گھر پر داماد کی دعوت تھی تو بہت مزہ آیا ۔ لیکن اس روز اس کو روندنے والی لینڈ کروزر اور اسکو چلانے والی ایک بگڑی ہوئی رئیس عورت کو دیکھ دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو رورہا تھا جس طرح وہ عورت نشے میں دھت لگ رہی تھی ، اسکی آنکھیں اور اس کی باڈ ی لینگویج اسکے نشے میں ہونے کا دعویٰ کررہی تھی لیکن اس کے باوجود گاڑی سے نکل کر اسکا اعتماد بتا رہا تھا کہ کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا ۔
پھر یہی ہوا ہمارے معاشرے کا سسٹم اس امیر خاتون کو بچانے کیلئے حرکت میں آگیا ، اسے پاگل اور نفسیاتی مریضہ قرار دینے کیلئے کوششیں شروع ہوگئیں ،اسے پولیس اور رینجرز کے حصار میں تھانے اور پھر اسپتال لے جایا گیا ، اگلی صبح اسے عدالت میں بھی پیش نہ کیا گیا ،عذر یہ دیا گیا کہ مذکورہ خاتون شدید بیمار ہے۔ سلام ہے کراچی کے اس سرکاری اسپتال کے ہندو ڈاکٹر چنی لعل پر جس نے تمام تر دبائو کے باوجود اس خاتون کو پاگل یانفسیاتی مریضہ قرار دینے سے انکار کردیا ۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ جس خاتون کو پاگل قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے وہ خاتون چار کمپنیوں کی ڈائریکٹر ہے اس کے پاس برطانیہ کا لائسنس ہے کیا کوئی پاگل خاتون برطانیہ کا لائسنس لے سکتی ہے ؟ کیا کوئی پاگل یا نفسیاتی مریضہ چار بڑی کمپنیوں کو بطور ڈائریکٹر چلا سکتی ہے ؟ لہٰذا طاقت ورلوگوں کو بچانے کا یہ ریاستی سسٹم اس خاتون کو پاگل نہیں بنا رہا بلکہ یہ پچیس کروڑ عوام کو پاگل بنا رہا ہے ۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس بااثر خاتون کو بچانےکیلئے ملک کے ایک بااثر ترین شخص کے احکامات شامل ہیں ، اس بااثر خاتون کے وکیل نے عدالت کے باہر مقتولین کے قتل کی قیمت دیت کے حساب سے اڑسٹھ لاکھ روپے لگادی ہے ۔مجھے عمران عارف اور آمنہ عارف کے ساتھ انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا ، مجھے اپنا بھائی مرنے کے بعد بھی بہت بے چین نظر آرہا ہے اور مجھے رہ رہ کراس کے یہ الفاظ یاد آرہے ہیں کہ میں اپنے گھر والوں کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرکے جارہا ہوں ۔ عمران عارف بھائی ہم شرمندہ ہیں ہم بے بس ہیں لیکن ہمیں یقین ہے اللہ تعالیٰ سب سے بہترین انصاف کرنے والا ہے اور تمہارا اور تمہاری بیٹی کا اللہ تعالیٰ بہترین انصاف کرے گا اور ظالم اور ظالموں کا ساتھ دینے والے اس دنیا میں عبرت کا نشان بنتے نظر آئیں گے ۔اللہ تعالیٰ تمہاری اور تمہاری بیٹی کی مغفرت کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔آمین