جلتا ہوا آشیانہ

ان کا جسم اب پوری طرح سے جھلس چکا تھا اور وہ ہسپتال کے بیڈ پہ پڑے وہ اس وقت اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔اس وقت ان کی بیٹی کے علاوہ کوئی بھی موجود نہیں تھا۔یورپ میں مقیم ہونے کی وجہ سے بیٹوں کا اپنے باپ سے رابطہ ختم ہو چکا تھا اور وہ ایک عرصہ سے تنہاء رہ رہے تھے اور ان کے پاس ان کی وہ بیٹی تھی جس کے لئے ان کے دل میں اپنے دوسرے بچوں جیسی محبت نہیں رہی تھی۔وہ اپنے بیس سالہ بیٹے کے ساتھ اس وقت ان کے پاس ہی موجود تھی۔آنسو بہاتے ہوئے وہ اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ان کے سامنے سترہ سال پہلے ہونے والا واقعہ کسی فلم کی طرح چلنے لگا تو انہوں نے ہاتھ اپنی بیٹی کے سامنے ہاتھ جوڑ لئے،وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑے آنسو بہا رہے تھے،معافی مانگ رہے جب کہ ان کی بیٹی ان کے دونوں ہاتھ تھام کر خود بھی رو رہی تھی اور آنسو بہا رہی تھی۔

وہ اپنے شوہر اور ساس کے بے انتہاء اصرار اور مجبور کرنے کی وجہ سے اس وقت تیسری بار اپنے باپ کے سامنے سر جھکائے بیٹھی تھی۔اس کا اپنے باپ سے مطالبہ تھا کہ وہ اسے جائیداد میں سے اس کا حصہ دے دیں،اس کے شوہر نے معاشی حالات کی خرابی کے سبب اسے اپنے باپ سے جائیداد میں سے حصہ لینے کے لئے مجبور کیا تھا۔

"اس گھر میں میرا بھی ایک حصہ ہے بابا،میں بیٹی ہوں اور شریعت تو بیٹیوں کو بھی حصہ دینے کی اجازت دیتی ہے”اس نے بڑے ہی مئودب طریقے سے اپنے بابا کے سامنے سوال کیا۔

"تمہارا اس گھر میں کوئی حصہ نہیں ہے،یہ گھر میرے دو بیٹوں کے نام ہے،تم سے پہلے بھی میں دو بیٹیاں بیاہ چکا ہوں،انہوں نے تو اپنے بھائیوں کا حصہ معاف کر دیا تھا،تم بھی انہیں معاف کر دو،میں نے تمہیں شادی کے وقت بھی بہت زیادہ جہیز اسی لئے دیا تھا تا کہ تم دوبارہ اپنے کسی حصے کا مطالبہ نہ کرو”احمد حسن غصے میں غرائے۔

"بابا،مجھے میرے حصے کے پیسے دے دیجئے،میں پیپر پہ سائن کر دوں گی اور بھائیوں کو اپنا حصہ بھی دے دوں گی”اس نے التجاء کی۔

"تمہیں میری بات ایک بار سمجھ نہیں آتی،میں نے اپنی زندگی کے تیس سال لگا کر اس گھر کو تعمیر کیا ہے اور تم کہہ رہی ہو کہ میں اس کی قیمت لگائوں،تمہیں ایک پھوٹی کُوڑی بھی نہیں مل سکتی”احمد حسن کے لہجے میں نفرت تھی تو اس نے چند لمحوں کے لئے خاموش اختیار کر لی۔

"بابا،میرے حصے کی آدھی قیمت ہی دے دیں،میں آپ کے سامنے بھیگ مانگتی ہوں”اس نے دونوں ہاتھ جوڑے تو اس کے باپ کے چہرے کی رنگت مزید سرخ ہو گئی اور وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے۔

"ٹھیک ہے،میں تمہیں تمہارے حصے کی پوری قیمت ادا کرتا ہوں،لیکن پھر تم اس گھر میں دوبارہ قدم نہیں رکھ سکو گی،میری میت پہ بھی تمہیں آنے کی اجازت نہیں ہو گی اور نہ تم میرے مر جانے بعد میرا منہ دیکھ سکو گی”اس کے باپ نے دونوں ہاتھ پیچھے باندھ کر اپنا اٹل فیصلہ سنایا تو خفیف سی ہو کر رہ گئی،اسے لگا جیسے اس پہ کوئی منوں بھاری چیز آ کر گر گئی ہو،اسے اپنا گھر بھی بچانا لیکن ان کی بات سنتے ہی اس کا ضبط جواب دینے لگا،بمشکل اپنے آنسو روکتے ہوئے اس نے پیپرز پہ سائن کر دیئے اور خود دو سالہ احد کو اٹھا کر وہاں سے چلی گئی۔اس نے اسی وقت یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ آئندہ اپنے میکے نہیں آئے گی،اس کی سپورٹ کے لئے ماں موجود نہیں تھی۔

"تمہارے باپ نے تمہارا حصہ نہیں دیا نا،میں جانتی تھی وہ نہیں دے گا۔ارے تم لڑکیاں تو ہوتی ہی بوجھ ہو،پہلے میکے والوں پہ بوجھ بن کر رہتی ہو اور پھر سسرال والوں کا جینا حرام کرتی ہو”اس کی ساس کے الفاظ تیر کی طرح چبھے مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا،اس کی ساس مسلسل بڑبڑا رہی تھی لیکن وہ چپ سادھے بیٹھی تھی تو پاس بیٹھے سسر نے ہمدردی سے اس کی طرف دیکھا،وہ اس کے صبر اور ضبط کو دیکھ کر پشیمان ہو گئے تو وہ خود ہی اس کی ساس کو خاموش کروانے کے لیے پھر اس کی طرف متوجہ ہوئے۔

"شاید آپ بھول رہی ہیں کہ آپ بھی اس گھر کی بہو ہی ہیں،وہ الگ بات ہے آج آپ ساس کے روپ میں بھی اتنی ہی بھیانک ہیں جتنی بھیانک میرے والدین کے لئے بہو کے روپ میں تھیں”اس کے سسر کے الفاظ نے اس کی ساس کا پارہ ہائی کر دیا تو وہ چلا اٹھی۔

"اس گھر میں اب یہ نہیں رہے گی،ولید بیٹا،اسے گھر سے دھکے دے کر نکال دو۔جب تک اس کا باپ اس کے حصے کی رقم نہیں دیتا یہ اس گھر میں نہیں آئے گی”اس کی ساس نے بپھرے ہوئے انداز میں کہا تو بیٹا اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا،یہ کہنے کی دیر تھی کہ بیٹا ماں کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آگے بڑھا لیکن سسر نے بیچ میں آ کر ایک زور دار تھپڑ اسے رسید کیا اور پھر ایک نظر عروہ کی طرف دیکھ کر اپنے بیٹے کو گریبان سے پکڑ اس سے مخاطب ہوا۔

"تم کیسے مرد ہو،جس طرح میں نے اپنی ماں کے کہنے پہ اپنی بیوی کو گھر سے نہیں نکالا تھا،اس طرح میں تمہیں بھی اسے یہاں سے نکالنے کی اجازت نہیں دوں گا،ارے تمہاری ماں کی زبان تو اب بھی لمبی ہے،اس کے ساتھ میں نے ہی اتنا وقت گزارا ہے،اس کی وجہ فقط یہی تھی کہ ہم دونوں میں سے کسی ایک کے بغیر بھی تمہاری زندگی برباد ہو جاتی،اور نہیں تو اپنے بیٹے کا ہی سوچ لو جس کا تم دونوں میں سے کسی ایک کے بغیر بھی گزارا نہیں ہو سکے گا اور تم تو خوش قسمت ہو کہ تمہاری بیوی بولتی ہی نہیں ہے۔اتنا کچھ بولنے کے باجود اس نے تمہاری ماں کی بے ادبی نہیں کی،وہ بہت کم گو ہے اور اس نے تو اتنی باتیں سن کر ہر طرح سے خاموشی اختیار کر رکھی ہے،اب کوئی غیرت کھائو اور اس کے پیسوں کی بجائے اپنا کام دھندا ڈھونڈو،ورنہ جو آج تم اسے نکال رہے ہو تو یہ سب تمہیں سود سمیت واپس لوٹانا پڑے گا اور جس روز تم بہت زیادہ کمزور اور نخیف ہو جائو،جب تم ضعیف ہو جائو گے تو یہ یاد رکھنا اس پہ کیا گیا ہر ظلم تمہیں بھی عبرت کا نشان بنا دے گا”اس کے سسر نے ولید کو آئینہ دیکھانے کی کوشش کی تو وہ پیر زمین پہ پٹختا ہوا وہاں سے چلا گیا۔شوہر کے باہر نکلتے ہی عروہ بھی وہاں سے اٹھ کر اندر چلی گئی۔اس کی ساس کڑوے لہجے میں اسے طعنے دے رہی تھی،اسے باتیں سنا رہی تھی مگر وہ چپ چاپ اپنے بیٹے کو گود میں اٹھائے آنسو بہا رہی تھی۔اس نے خود سے عہد کر لیا تھا کہ وہ آئندہ کبھی بھی اپنے باپ کے سامنے نہیں جائے گی اور نہ ہی وہ اپنی ساس کو اس کے طعنوں کا جواب دے گی۔

احمد حسن کی اپنے بیٹوں کے ساتھ ایک عرصہ تک جنگ رہی۔ان کے بیٹے اپنا گھر بیچ کر کسی بڑے شہر میں شفٹ ہونا چاہتے تھے لیکن احمد حسن نے یہ گھر بیچنے سے صاف انکار کر دیا تھا،جس کے بعد ان کے دونوں بیٹے انہیں تنہا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک نوکر موجود تھا جو انہیں تینوں وقت دوا اور کھانا وغیرہ دے دیتا جب کہ احمد حسن اپنی پنشن میں سے ہی کچھ رقم اسے تنخواہ کے طور پر دے دیتے تھے۔ان کی زوجہ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ایک عرصہ گزر چکا تھا۔رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا،وہ اس وقت اپنے ہاتھ میں وہ تصویر پکڑے بیٹھے تھے جس میں ان کے پانچوں بچے ان کے ارد گرد موجود تھے اور سب سے چھوٹی بیٹی عروہ ان کی گود میں ہی تھی۔عروہ کو دیکھ کر پہلی بار ان کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں۔اسے احمد حسن سے ملے ہوئے سترہ برس بیت چکے تھے اور اپنا حصہ نہ ملنے کے باعث پھر اس نے ان کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا تھا۔انہیں پہلی بار اپنی بیٹی کے ساتھ کی گئی زیادتی کا احساس ہوا تو وہ آبدیدہ ہو گئے۔

"کیا ہو جاتا،اگر میں اسے اس کا حصہ دے دیتا تو آج کم از کم میری بیٹی میرے پاس تو ہوتی اور میں یوں تنہاء نہ ہوتا”انہوں نے خود کلامی کی اور ان کا چہرہ بھیگ گیا۔وہ اسی غم میں آنسو بہاتے ہوئے کمرے سے اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئے۔وہ پانی پی کر اپنی ہچکی روکنا چاہتے تھے۔مگر جیسے ہی انہوں نے کچن کا دروازہ کھول کر لائٹ آن کی تو کچن میں موجود سلنڈر پھٹ گیا،ان کا نوکر چولہا بند کرنا بھول گیا تھا جس کی وجہ سے گیس ہر طرف پھیل چکی تھی۔گیس بھر جانے اور سلنڈر پھٹتے ہی ہر چیز آگ کی لپیٹ میں چلی گئی،احمد حسن کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا اور ان کے کپڑوں کو آگ لگ گئی اور پھر رہی سہی کسر شارٹ سرکٹ نے نکال دی۔احمد حسن کا پورا وجود بھی آگ کی لپیٹ میں تھا اور وہ شور مچا کر مدد کے لئے پکار رہے تھے مگر گھر میں تنہاء ہونے کے باعث ان کی مدد کے لئے کوئی بھی نہیں آیا تھا،شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگنے والی آگ نے لمحوں میں ہی پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا،احمد حسن کو بالکل بھی ہوش نہ رہا اور انہوں نے محسوس کیا کہ وہ آخری بار اس دنیا میں سانس لے رہے ہیں۔پھر جب انہوں نے آنکھ کھولی تو وہ ہسپتال میں موجود تھے،ان کی سانسیں ختم ہونے کے قریب تھیں۔احمد حسن کا جسم بے جان ہو چکا تھا مگر درد کی شدت سے وہ کراہ رہے تھے۔جیسے ہی انہیں کچھ ہوش آیا تو ان کے سامنے ان کی سب سے چھوٹی بیٹی عروہ موجود تھی جسے وہ اس کے حصے سے محروم کر چکے تھے،وہ ان کے پاس کھڑی آنسو بہا رہی تھی۔جیسے ہی انہوں نے اس کے آنسو دیکھے تو انہوں نے اس کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے تو اس نے بھی آنسو بہاتے ہوئے احمد حسن کے ہاتھ پکڑ لئے۔وہ اسے دیر تک دیکھتے رہے،احمد حسن کی آنکھیں بھی خشک ہو چکی تھیں۔

"تم کہاں چلی گئی تھی عروہ،دیکھو میں تنہاء رہ گیا ہوں بیٹی،تمہارے بھائیوں نے مجھے چھوڑ دیا”وہ لڑکھڑاتی ہوئی زبان کے ساتھ بولتے ہوئے رو دیئے تو عروہ نے دونوں ہاتھوں سے ان کے گال صاف کئے۔اسی وقت ایک پولیس آفیسر بھی ان کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔وہ ان کا بیان ریکارڈ کرنا چاہتا تھا۔

"احمد حسن،کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ گھر میں کیسے آگ لگی”پولیس آفیسر نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے ایک نظر پولیس آفیسر اور پھر عروہ کی طرف دیکھا۔

"مجھے میری بیٹی کی بد دعا لگی ہے،میں نے اپنی بیٹی کے ساتھ جو بے انصافی کی اس کا ثمر مجھے آج مل گیا ہے اور میرا گھر جل گیا ہے”احمد حسن رک رک کر بول رہے تھے جب کہ عروہ انہیں چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔

"آپ کے گھر کی فقط ایک جگہ محفوظ رہی ہے اور وہ گھر کے سب سے نچلے پورشن میں بنا وہ کمرہ ہے جسے آپ نے کسی کو شاپ بنانے کے لئے دیا تھا،اس کی شاپ بالکل محفوظ رہی ہے”پولیس آفیسر نے اپنی چھان بین کے بات انہیں بتایا تو احمد حسن نے ایک بار پھر سے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا،وہ دیر تک کچھ بھی نہ بول سکے جب کہ پولیس آفیسر ان کے جواب کا انتظار کر رہا تھا۔

"جانتی ہو بیٹی،وہ کمرہ۔۔۔۔۔”وہ لمحہ بھر کے لئے رکے تو عروہ نے ایک بار پھر باپ کے آنسو صاف کئے۔

"یہ وہی کمرہ تھا جس میں تم نے آخری بار بیٹھ کر مجھ سے اپنا حصہ مانگا تھا اور میں نے انکار کر دیا تھا۔دیکھو وہ جگہ آگ لگنے کے بعد بھی بالکل محفوظ ہے،کیونکہ وہاں تم نے حق کا مطالبہ کیا تھا”احمد حسن کے لہجے میں شدید کرب تھا مگر وہ اپنے دل کا بوجھ نکال دینا چاہتے تھے۔

"مجھ۔۔۔مجھے معاف کر دینا بیٹی،مجھے معاف کر دینا،میری آخری سانس سکون سے نکل سکے،مجھے معاف کر دو عروہ تا کہ میں سکون کی موت مر سکوں”انہوں نے دونوں ہاتھ جوڑے تو عروہ نے احمد حسن کے ہاتھ چوم لئے تھے۔وہ بلک بلک کر رو رہے تھے اور کچھ وقت کے لئے انہیں جسمانی درد یاد نہیں رہا تھا۔عروہ نے انہیں معاف کر دیا تھا۔وہ سارا دن ان کے پاس بیٹھی رہی۔احمد حسن کی حالت اب۔مزید ابتر ہو چکی تھی۔رات سے دن اور پھر دن سے رات ہو گئی۔احمد حسن کے جلے ہوئے جسم میں درد کی ٹسیں اٹھ رہیں تھیں۔ان پہ بار بار غشی طاری ہو رہی تھی۔عروہ اور اس کے تینوں بچے ان کے پاس ہی موجود تھے۔رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا جب اس کی کچھ دیر کے لئے آنکھ لگ گئی،آنکھ لگنے کی دیر تھی کہ بیس سالہ احد روتا ہوا اس کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ نانا نہیں بول رہے۔وہ بھاگتے ہوئے وارڈ میں پہنچی تھی۔اس نے دیکھا احمد حسن پہ ڈاکٹر اس وقت کپڑا ڈال رہے ہیں تو اس نے ایک چیخ ماری اور زمین پہ بیٹھ کر زار و قطار رونے لگی۔اس کے تینوں بچے اس کے ارد گرد جمع ہو گئے اور وہ اسے چپ کروانے کی کوشش کرنے لگے۔مرنے سے پہلے احمد حسن نے پولیس والے کو یہ بیان قلمبند کروایا تھا کہ مرنے کے بعد انہیں ان کی بیٹی کے حوالے کر دیا جائے اور یہی ان کی وصیت تھی۔ان کی بیٹی جائیداد کی بجائے ان کی میت کی وارث بنے گی اور گھر جل جانے کے بعد وہ کمرہ اب بھی محفوظ تھا جس میں بیٹھ کر اس نے اپنے حصے کے لئے التجاء کی تھی۔

ازقلم/اویس

جلتا ہوا آشیانہ
Comments (0)
Add Comment