ابوالکلام آزاد نے کہا تھا تاریخ کی سب سے بڑی ناانصافیاں عدالت کے ایوانوں میں ہوئی۔
جنگ کی وجہ سے ایک انتہائی برباد قوم کے پاس سے کوئی شخص گزرا تو اس سے کسی نے پوچھا کہ کیا یہ قوم دوبارہ کھڑی ہو سکتی ہے؟ اس نے جواب میں پوچھا ان کی بربادی سے قبل ان کے انصاف کا نظام کیسا تھا؟ تو بتایا گیا کہ بہت اچھا۔ تو پھر یہ قوم بہت جلد دوبارہ ترقی یافتہ ہو جائے گی۔اس نے جواب میں کہا تھا۔
پاکستانی عدلیہ کا نظام ظل الٰہی کے درباروں جتنا فرسودہ اور دقیانوس ہے۔ میں منٹو کی طرح ایک عرصہ اس عدلیہ کے ایوانوں میں خاک چھان چکا ہوں ایک دفعہ کے فرق سے جو کہ بہت زیادہ بھی نہیں تھا(منٹو دفعہ 296 کے تحت اور میں 295 کے تحت)۔ اپنی خواری کو لے کر تو بالکل بھی نہیں۔
وہ فحش لکھنے پر تہ دام آتے رہے اور میں توہین کے مقدمات میں۔
میں نے اپنی تھوڑی سی عمر میں امارات کی عدالتوں کو بھی مشاہدہ کیا۔جس سے اندازہ ہوا کہ ہمارا نظام عدل تو برطانوی دور میں چل رہا ہے۔ ہمارے ہاں یوں عدالتیں نہیں ہوا کرتی تھیں سارے فیصلے مغلیہ دور میں شاہ کے دربار میں ہوا کرتے تھے جنہیں اللہ کا سایہ سمجھا جاتا اور ظل الٰہی کہا جاتا وہ کوئی بھی فیصلہ کر دیتے کسی کو بھی چھوڑ دیتے کسی کو بھی سزا سنا دیتے۔ ہمیں آئین اور جمہوریت، مقننہ اور عدلیہ جیسی سہولیات سے گوروں نے متعارف کرایا تھا۔ ابتدائی طور پر جج گورے ہی تھے جو انتہائی ٹھنڈے علاقوں سے ہمارے ہاں آکر عدالتیں چلاتے تھے انتہائی گرمی کے موسم میں تین تین ماہ کی چھٹیاں لے کر ٹھنڈے علاقوں میں چلے جاتے۔ آج ہر وقت اے سی چل رہے ہیں، گورے چلے گئے ہیں،ہم یہیں کی پیداوار گوروں کے چھٹیوں کے قانون کو اپنے حساب سے بدل نہیں سکے آج تک اس پر غور نہیں ہوا۔
امارات میں ہر روز عدالت میں ایک جج تقریباً 25 کیس سنتا ہے اور ہر صورت ہر مقدمے کا فیصلہ 3 ماہ میں ہوتا ہے۔ ایک بھی تاریخ پر آپ غیر حاضر تو مقدمہ داخل دفتر ہو جاتا ہے۔ عدالتی اصلاحات پر سال بعد شور برپا تو ہمارے ہاں ہوتا ہے مگر کوئی ایسا قدم ابھی تک نہیں اٹھایا گیا جس سے عدل کے قیام میں کوئی فائدہ ہوا ہو۔ ہمارے ہاں ایک دن میں دو سو کے قریب مقدمات جج کو سننے ہوتے ہیں جن کی صرف آئندہ تاریخ ہی ڈالی جا سکتی ہے۔ کیونکہ سال میں تین ماہ تو جج حضرات کو گرمی کی چھٹیاں چاہیے پھر سردیوں کی چھٹیاں بھی اور دیگر تہوار تو کسی گنتی میں نہیں آتے۔ ملک کی تیزی سے بڑھتی آبادی اور تیزی سے گھٹتی تعلیمی معیار کی وجہ سے عدالتوں پر کام کا پریشر بڑھ رہا ہے۔
شارجہ میں ایک کیس کے سلسے میں پہلی پیشی پر میں عدالت پیش ہوا تو پتہ چلا کہ مقدمات آن لائن ہی سنے جائیں گے جج سے روبرو ہونے کے لئے لنک آپ کو میسج اور ای میل مل جاتا ہے۔
یہی نظام اگر پاکستان میں شروع کر دیا جائے تو بہت سا خرچ بچ سکتا ہے اسیران کو لانے لے جانے اور نگہداشت پر ہماری توانائیاں بچا کر ہم ان کے مقدمات جلد سن سکتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں تو قانون میں اپنے گھر سے آن لائن پیش ہونے کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ہائی کورٹ پٹیشن دائر کرنے سے بھی اجازت نہیں ملتی۔
ابھی حال ہی میں جو نئی ترمیم ہوئی ہے اس سے کچھ بہتری دیکھنے میں آرہی ہے جیسے کہ سپریم کورٹ میں کی گئی اپیلوں اور آئینی درخواستوں میں تھوڑی تیزی آئی ہے۔مگر میں نے جو سپریم کورٹ میں اپنے بنیادی انسانی حقوق آزادی اظہار رائے کے مجروح ہونے پر درخواست لگا رکھی تھی اس کو سات ججوں کے فل بینچ نے میرا نجی معاملہ قرار دے کر خارج کر دیا کیونکہ توہین مذہب کے مقدمے میں سپریم کورٹ ضمانت تو لے سکتی ہے لیکن اس مقدمے کو آزادی رائے کی بنیاد پر خارج کرنے کی جرات نہیں کر سکتی۔
ابو الکلام ازاد نے درست ہی کہا تھا
تاریخ کی سب سے بڑی ناانصافیاں عدالت کے ایوانوں میں ہوئی۔