نیٹو کے حالیہ اجلاس میں یوکرائن کو واضح طور پر جنگی حالات کو ختم کرنے اور یورپی یونین کے معیار پر پورا اترنے کے بعد ہی کسی پیش رفت کا اشارہ دیا جائے گا ۔
مگر ان سارے حالات سے قطع نظر یوکرائن کے عوام اپنے ملک میں پہلے کی طرح امن کے خواہاں ہیں ۔۔۔۔
وہ جنگ نہیں چاہتے ، وہ اس موسم میں سمندر کی لہروں سے پہلے کی طرح لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں ، وہ پھولوں کے تحفے دینا چاہتے ہیں ، وہ شام کو دوستوں کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں ، وہ پودوں سے باتیں کرنا چاہتے ہیں ، راستے سے گزرتے ہوئے شہتوت کے درختوں کی شاخوں سے جھول کر گزرنا چاہتے ہیں وہ ڈرنا نہیں چاہتے ، اپنے بچوں سے ان حالات کو کسی طرح دور کر دینا چاہتے ہیں ….مگر بے بس ہیں
ان حالات کے بارے میں میں نے اپنے کچھ یوکرائنی دوستوں سے بات کی تو انہوں نے کچھ یوں اظہار خیال کیا ۔۔۔۔
ماشا :
آپ کو یاد ہو گا دو سال قبل جب میں نے آپ کو اپنے گاؤں کی تصاویر بھیجیں تھیں ، جہاں ہم نے سبزیاں اگائی تھیں اور اخروٹ کے درختوں پر گلہریوں کے ایک جھرمٹ کی ویڈیو بنائی تھی ، ہم نے اپنے گاؤں والے گھر میں کچھ دن آرام کیا تھا ، نئے پودے لگائے تھے ، تب خوب خوب بارشیں ہوئی تھیں اور موسم ٹھنڈا ہو گیا تھا …
مگر اب تو سب کچھ خواب لگتا ہے ۔۔۔میں ان دنوں ہمسایہ ملک میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہ رہی ہوں ، مجھے جب میرے ابو بتاتے ہیں کہ اکثر بمباری کی گھن گرج سے گھر کے شیشے ٹوٹ جاتے ہیں ۔۔۔الارم کے بجنے کے ساتھ ہی ہم بالا خانہ کی طرف بھاگتے ہیں تو میرا دل اداس ہو جاتا ہے ۔۔۔ پھرمیں اپنا اور اپنے ابو کا دل بہلانے کے لئے ان کو لطیفے سناتی ہوں ۔۔۔۔اور سوچتی ہوں کہ ہم تو اپنے بچوں کو خوشیاں دینا چاہتے ہیں ، بس ہم امن چاہتے ہیں ۔
ناستیا :
میں آجکل خبریں نہیں سنتی ۔۔ ارد گرد نہیں دیکھنا چاہتی ۔۔مجھے ڈپریشن ہو جاتا ہے ۔۔
مجھے نہیں پتہ ہمارے ساتھ کیا ہو گا ، ہم آج جی رہے ہیں ، کل جی سکیں گے یا نہیں ۔۔۔میں بھی پہلے دوسرے لوگوں کی طرح ہمسایہ ملک چلی گئی تھی ، مگر اب واپس آ گئی ہوں ، ہر طرف خوف و ہراس ہے ، ذرا ذرا سی آواز پر بچے ڈرنے لگے ہیں ۔۔۔ہم کہیں باہر نکلتے ہیں تو اندازہ نہیں کر پاتے کہ واپس آئیں گے یا نہیں ۔۔۔
ہمارے اچھے دن خواب کی طرح بہت جلدی گزر گئے ، مگر ہمیں اب بھی مزید اچھے دنوں کی امید کرنی چاہئے ۔۔۔۔
ساشا :
میں سکول میں جاب کر رہی ہوں ، سکول میں سب بچے تو نہیں مگر کچھ کچھ آ رہے ہیں ، ہم بچوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، ایک دوسرے کا دکھ بانٹنے میں لگے ہوئے ہیں ، کوشش کرتے ہیں کسی طرح اپنا اور سکول میں آنے والے بچوں کا دھیان بٹا رہے ۔۔۔۔ہم پڑھائی کے ساتھ ان کے ساتھ گیمز کھیلتے ہیں ۔۔۔ڈرائنگ کرتے ہیں اور کبھی کبھی ان کو سیر پر لے جاتے ہیں ، سکول میں بہت سارے بچوں کے باپ جنگ پر گئے ہوئے ہیں ، کچھ لوٹ آتے ہیں اور کچھ وطن پر قربان ہو رہے ہیں ۔
اللہ کرے یہ سب جلد ختم ہو جائے ۔۔۔۔!!!
یہ صرف چند خاندانوں کے خیالات نہیں بلکہ پورے ملک کی نمائندگی کرتی ہوئی سوچ کی حامل بات چیت ہے جوسختی اور نرمی کے ادوار میں واضح فرق کو سمجھ چکے ہیں ۔۔۔۔ اور امن و آتشی کے خواب کو دوبارہ حقیقت کے روپ میں ڈھالنا چاہتے ہیں ۔۔۔