کویت میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کو اگر آپ دور سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ ایک انتہائی متحد، محب وطن، اور باہم جڑی ہوئی قوم ہے لیکن قریب جا کر یہ اتحاد ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے، اور اس کی کرچیاں سیلفی اسٹک، پینٹ کوٹ، شیلڈ اور ٹک ٹاک کی رییلز کے گرد ناچتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
ہر تقریب، خواہ وہ قومی ہو یا ادبی، دینی ہو یا سماجی، ایسے پلان کی جاتی ہے جیسے آسکر ایوارڈز ہونے جا رہے ہوں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں ایوارڈز سے زیادہ فوٹو فریمز، اور جذبات سے زیادہ ویوز اور فالورز کی فکر ہوتی ہے۔
تقریب کا آغاز عموماً ایک بدنصیب گلدستے سے ہوتا ہے، جو ہر خاص و عام کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے، بلکہ ہر آنے والے کو اسے چھونے کا موقع دیا جاتا ہے (اور پھر واپس) تاکہ تصویر بنے اور سند رہے۔ اس گلدستے کی اہمیت اتنی بڑھ چکی ہے کہ اگر اسے کوئی بندہ ہاتھ سے گرا دے تو تقریب میں تین منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے جیسے 9 مئی جیسا کوئی بڑا قومی سانحہ ہو گیا ہو۔
تصویروں کا بادشاہ "بڑے صاحب” ہر تصویر کے درمیان میں اس طرح کھڑے ہوتے ہیں جیسے وہ فوٹو فریم کے آئینی رکن ہوں۔ باقی مخلوق اپنی پوزیشنیں بدلتی رہتی ہے، لیکن "بڑے صاحب” کا سینٹر اسٹیج پر ہونا ایسا ہی لازم ہے جیسے چائے میں پتی اور بریانی میں بوٹی کا ہونا۔
پھر آتی ہے شیلڈ کی باری جو اکثر اوقات قابلیت کی نہیں، بلکہ تعلقات کی سند ہوتی ہے۔ شیلڈ جیسے ہی کسی (مستحق) بدقسمت کے ہاتھ آتی ہے، اردگرد کے ہاتھ اس کی طرف بڑھ جاتے ہیں، اور تصویر میں سب ایسے ظاہر کرتے ہیں جیسے حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر وہی اصل عطا کرنے والے ہوں۔ شیلڈ لینے والا بیچارہ صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہے: "بس جی، میری قسمت اچھی تھی”
اور اب بات کرتے ہیں کیک کٹنگ کی۔۔۔واہ! یہ تو وہ لمحہ ہوتا ہے جب پورا سماج ایک چھری کے گرد گھومتا ہے۔ "بڑے صاحب” چھری پکڑتے ہیں، اور درمیان میں کھڑے ہوتے ہیں، باقی سب ان کا ہاتھ چھو کر تصویری شرکت کا ثبوت دیتے ہیں۔ کیک کٹتا کم ہے، کٹے ہوئے کیک کے ساتھ تصویریں زیادہ بنتی ہیں۔
لیکن، جناب، ہم ایک نیا کردار بھول رہے ہیں، ٹک ٹاک بابا! یہ وہ لوگ ہیں جو تقریب میں اس نیت سے آتے ہیں کہ کوئی غزل، نظم، یا تقریر سنیں گے نہیں، بلکہ ہر چیز پر ایک عدد رییل بنائیں گے، جس میں ان کی Fake Deep Look اور Slow Motion Walking شامل ہو۔ اکثر اوقات یہ لوگ منتظمین سے زیادہ متحرک ہوتے ہیں، اور ہر تیسرے منٹ پر یہی آواز سنائی دیتی ہے "بھائی، ویڈیو ریکارڈ کر رہا ہوں، ذرا سائیڈ ہو جاؤ!”
یہ خودنمائی کے مارے افراد تقریب میں یوں گھومتے ہیں جیسے انہیں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسپیشل کوریج دی جا رہی ہو۔ کوئی کیمرا سیٹ کر رہا ہوتا ہے، کوئی تین بار جیب سے موبائل نکال کر واپس رکھتا ہے تاکہ "کینڈڈ شاٹ” لگے، اور کوئی تقریب کی بیک گراؤنڈ میں آ کر یوں کھڑا ہو جاتا ہے جیسے یہ اس نے اسپانسر کی ہو۔ اصل شرمناک بات یہ ہے کہ جو چند سادہ دل افراد خلوصِ نیت سے ان تقریبات میں آتے ہیں، وہ یا تو ان تمام "اداکاروں” کے ہجوم میں کھو جاتے ہیں، یا پھر کیمرہ مین کی نظر میں نہ آنے کی سزا میں سائیڈ لائن ہو جاتے ہیں۔
جب کھانے کی باری آتی ہے تو پہلا لقمہ بھی وی آئی پیز، تاجر حضرات اور سفارتی نمائندوں کے منہ میں جاتا ہے، اور باقیوں کو دعوت نامہ بھی اس شرط پر ملتا ہے کہ وہ کھانے کے بعد فوراََ نکل جائیں، تاکہ تصویروں میں خالی کرسیاں نمایاں نہ ہوں۔
آخر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے:
کیا ہم واقعی ایک کمیونٹی ہیں؟
یا پھر محض ایک ایسی بھیڑ، جو تصویریں، ویڈیوز، اور فالورز کے پیچھے بھاگتی ہے، جسے اصل بات کی خبر ہی نہیں؟
دوستو، جب تک ہم اس "فوٹو فرینڈلی منافقت” سے باہر نہیں نکلیں گے، تب تک ہماری کمیونٹی صرف تصویروں میں اچھی، اور حقیقت میں تقسیم شدہ، مصنوعی اور بے مخلص ہی نظر آئے گی۔