برین ڈرین

0

ہمارے بچے پڑھ نہ سکے ہم دشمنوں کے بچوں کو پڑھاتے رہ گئے۔ پڑھ لکھ کر چاند پر پہنچ گئے اور ہم دیکھتے رہ گئے۔ بات ترجیحات کی ہوتی ہے، ملک کی ترقی و خوشحالی اسی وقت ممکن ہوتی ہے۔ جب تعلیم سبھوں کے لیے ہو۔ وطن عزیز میں چار طرح کا تعلیمی نظام رائج ہے۔ مدرسہ ، سرکاری اسکول، انگریزی اور کیمرج اسکول،کیمرج میں تعلیم وہی بچے حاصل کرتے ہیں جن کے والدین تعلیمی اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔اکثریت اے لیول کرنے کے بعد ملک سے باہر چلے جاتے ہیں،اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہیں رہ جاتے ہیں ۔

جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے بچے واپس آ کر سول سروس کے امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے کے بیوروکریسی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بیوروکریسی میں پچیس ہزار ایسے افراد ہیں جو دہری شہرت رکھتے ہیں۔ انکے نزدیک وطن سے محبت سے زیادہ وہاں کی شہریت عزیز ہوتی ھے۔آج ہر ادارے میں ایسے افراد موجود ہیں جو دہری شہرت رکھتے ہیں۔

ملکی معاشی حالات پچھلے سولہ ماہ میں جس تیزی سے تنزلی کا شکار ہوئی ھے اسکی مثال نہیں ملتی ھے۔نو لاکھ تعلیم یافتہ اور پروفیشنل افراد ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔غریب افراد غیر قانونی طریقے سے ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں یونان میں کشتی ڈوبنے کا واقعہ رونما ہوا ۔حکومتی سطح پر صرف بیان بازی ہوتی رہی، مجرموں کو قانون کی گرفت میں نہیں لایا گیا۔ ملک کی ترقی میں جہاں بہت سے عوامل شامل ہیں وہیں تعلیم یافتہ افراد کا موجود ہونا بہت ضروری ھے جنکے تجربوں سے لوگوں کو فائدہ حاصل ہوتا ھے۔

مدرسے سے فارغ و تحصیل ہونے والے افراد کی اکثریت کا مستقبل مسجدوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں ۔سرکاری اسکولوں کی حالت ناگفتہ بے ہیں ، اکثریت انٹر ، بی اے کرنے کے بعد کلرک کی نوکری تلاش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ معاشی بحران کی وجہ کر سرکاری اداروں میں انکی کھپت نہ ہونے کے برابر ھے۔ انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والے افراد پرائیویٹ کمپنیوں میں ملازمت مل جاتی ھے، جنکی اکثریت اکاؤنٹس، سیلز یا ایڈمنسٹریشن کے شعبوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔

ملک میں ٹیکنیکل تعلیمی اداروں کا فقدان ھے جسکی وجہ کر ہنرمند افراد کی عدم دستیابی ایک سنگین مسئلہ ھے۔انڈسٹریل سیکٹر میں فنی تعلیم یافتہ افراد کی کمی ھے۔ اکثریت ان لوگوں کی ھے جنہوں نے استادوں سے ہنر سیکھا ہوا ہوتا ھے۔ فنی تعلیم یافتہ افراد اداروں کی پیداوار میں اضافے کا باعث بنتے ہیں یونیورسٹیوں میں تحقیق اور تجربات کی سہولیات دم توڑتی نظر آرہی ہیں، مالی وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ کر۔ دنیا میں سب سے زیادہ پی ایچ ڈی کیے ہوئے لوگ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں ہیں۔ ملک کی ترقی کا دارومدار سیاسی استحکام اور تعلیمی ترقی پر منحصر ہوتا ھے۔

ہمارے یہاں سب سے کم رقم تعلیم اور صحت کے لیے مختص کی جاتی ھے۔ صحتمند افراد ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ہماری آبادی کا پچاس فیصد نوجوان افراد پر مشتمل ھے۔ ناقص منصوبہ بندی نے ان لوگوں کو مجبور کر دیا ھے ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔حکومت کو سنجیدگی سے برین ڈرین کو روکنا ہوگا۔اسکے لیے قانون سازی نہیں بلکہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لانے کے لیے مثبت اقدامات ہنگامی بنیادوں پر کرنا ہوگا۔ آلو ، پیاز اور ٹماٹر کی برآمدات کو بڑھا کر زرمبادلہ میں اضافہ تو کیا جاسکتا ھے مگر ملکی ترقی ممکن نہیں۔

اسکے لیے یکساں تعلیمی نظام اور ہنرمندوں کی تعداد میں اضافہ ناگزیر ھے۔ تعلیمی معیار کو جدید خطوط پر استوار کرنا لازمی ھے۔ ہماری یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والے افراد مغربی ممالک کے برابر ہوں اسکے لیے ضروری ھے ہمارے اساتذہ کرام اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں۔ یہ سب اسی وقت ممکن ھے جب ملک کے اندر سیاسی و معاشی استحکام ہو۔قلیل مدتی منصوبہ بندی نہیں بلکہ طویل مدتی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا ورنہ برین ڈرین کا سلسلہ مزید شدت اختیار کر جائے گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!