بچپن میں کہانی سنا کرتے تھے شیر آ شیر آ ۔
تین سالوں سے میڈیا میں شور مچ رہا ھے شیر آ رہا ھے۔ آخرکار 21 اکتوبر کی تاریخ طے ہو گئی ،جو استقبال کے لیے جائے گا ولیمے کے کھانوں سے ضیافت کی جائے گی ،جو زیادہ لوگ لائے گا اسکو ہنڈا 125 موٹر سائیکل دی جائے گی۔کسی نے فتوی دیا اسکو حج کا ثواب ملے گا، کسی نے تو حد ہی کر دی یہ کہہ کر جنت میں جائے گا۔
عوام سمجھدار ہو گئی ھے اسے معلوم ہے جنت میں جانے کے لیے مرنا لازم و منظوم ھے سرکاری سطح پر زور شور کے ساتھ تیاریاں شروع ہو گئی ہیں قبل از وقت گرفتاری سے بچنے کے لیے عطا تارڑ نے اسلام آباد کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں درخواست جمع کروا دی ھے۔ رجسٹرار نے بغیر کسی اعتراض کے نمبر بھی الاٹ کر دیا ھے۔ جبکہ درخواست کنندہ سزا یافتہ اور اشتہاری مجرم بھی ھے۔چیف جسٹس صاحب نے بینچ بھی تشکیل دے دیا ھے۔بائیو میٹرک مجرم کی جگہ انکے وکیل سے کروا لی گئی۔
جبکہ اسی عدالت نے حکم نامہ جاری کیا تھا عمران خان کو خود آنا پڑے گا بائیو میٹرک کروانے کے لیے۔جب وہ گئے تھے تو انکو اغوا کر لیا گیا تھا اور دوسری طرف 9 مئی کا واقعہ پیش آگیا تھا۔ جب عدالتیں رات کے بارہ بجے کسی کے کہنے پر کھل سکتی ہیں اور مرضی کے مطابق فیصلہ دے سکتی ہیں۔ ایک مجرم کی آمد پر تاریخ خود کو دہرا بھی سکتی ھے۔ شہر بھر میں مجرم کو خوش آمدید کہنے کے لیے پوسٹر اور بینر لگائے جا رہے ہیں۔
سوال یہ ھے کون ھے جو بینر کو پھاڑ رہا ھے اور کالی سیاہی چہرے پر مل رہا ھے۔ مجرم کی تقاریر کیا جج صاحبان اور مقتدر ادارے فراموش کر چکے ہیں جو انہوں نے گوجرانوالہ کے جلسے میں کیے تھے ۔چند دنوں قبل لندن میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹ سے ایک بیان بھی جاری کیا ججوں اور جرنیلوں کے خلاف شہبازشریف کو فوری طور پر پاکستان آنا پڑا اسکے بعد میاں صاحب کا بیان سامنے آتا ھے ، میں نے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔
موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے مفکرین اور مبصرین یہی کہہ رہے ہیں میاں صاحب نے سرینڈر نہیں کیا، بلکہ عدلیہ نے کیا ھے، چند سو سیکنڈ میں ساری ضمانتیں میاں صاحب کو مل گئیں۔ یہ وہی اعلیٰ عدلیہ ھے جس نے میاں صاحب کے بارے میں کہا تھا انہوں نے عدالت میں جھوٹ بولا اور گمراہ کیا قطری خط جھوٹ ھے ، بعد میں میاں صاحب نے بھی قطری خط سے لاتعلقی کا اظہار فرمایا تھا۔
میاں صاحب کی آمد اور استقبال کے لیے جو انتظامات کیے جارہے ہیںبات سچ ثابت ہو گئی ھے میاں کھاتا ھے تو لگاتا بھی ھےکہاں کہاں اور کس پر لگایا ھے ، عوام سمجھ گئی ھے، شعور بیدار ہو گیا۔عوام خوش فہمی میں رہی 75 سالوں تک طاقت کا سر چشمہ عوام ھے، مگر آج ایک بار پھر ثابت ہو گیا عوام نہیں بلکہ کوئی اور ھے۔