جی ہم شرمندہ ہیں اے حکیم الامت
آپ بھی ہوتے تو ڈی سی آپ کو تیس دن کے لیے بند کر دیتا
اچھا کیا کہ آ پ اس سے پہلے ہی یہاں سے چلے گئے ہم نے تو اقبال کو بس ایک قومی شاعر کی حیثیت سے اپنے مطالعہ پاکستان میں شامل کر رکھا ہے اور وہ کام بھی اقبال کے ذمہ کر دیے ہیں جو اقبال نے کیے بھی نہیں اقبال تو ویسے ہی اس قوم کے بارے میں جا نتے تھے ،پورا احساس تھا کہ یہ آ زادی کے حقدار نہیں ہیں اسی لیے انہوں نے کہہ دیا تھا کہ
صنوبر باغ میں ازاد بھی ہے پابگل بھی
انہی پابندیوں میں رہ کر حاصل آ زادی کو تو کر لے اقبال نے کبھی بھی ایک الگ پاکستان کی بات نہیں کی تھی وہ زیادہ سمجھدار تھے بہت زیادہ سمجھدار تھے ان کو پتہ تھا کہ یہ لوگ اس سے آ زادی بھی حاصل کر لیں گے تو پھر اسی کے غلام بن کر زندہ رہیں گے آ پ نے دیکھا ہوگا کہ جس کسی کو برطانیہ کی نیشنلٹی مل جاتی ہے یا ویزا مل جاتا ہے تو وہ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہوتے ہیں ایک طرف انگریز سے آزادی حاصل کرنا اور دوسری طرف اسی کے دیس میں جا کے بسیرا کرنا ہمارا خواب ہے،آ ج یوم اقبال منایا جا رہا ہے ہم بھی اقبال کا دن منا رہے ہیں ۔اقبال ڈے نے سموک کے دنوں کو ملا کر لانگ ویک اینڈ منانے کا تحفہ دے رکھا ہے اقبال کا خود ہی کا ڈے منانے کے لیے لوگ مری کا رخ کر رہے ہیں چونکہ بلندی پہ جا کر وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمارا ٹھکانہ چونکہ اقبال نے یہ کہا تھا پہاڑوں کی چٹانوں پر ہے تو آ ج وہ پہاڑوں کی چٹانوں پر رواں دواں اقبال کی شاہین جا رہے ہیں صد ہے کہ اقبال کا خودی کا پیغام ہم نے خود دبا رکھا ہے جس جگہ بھی جائیں تو ہم ایک بھکاری کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں اور جس کسی نے خودی کی بات کی جس کسی نے اقبال کے پیغام کی بات کی اس کو اٹھا کے ہم نے اٹک اور اڈیالہ جیل میں ڈال دیا تمہارا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ تم نے ایبسولیوٹلی نا ٹ کیوں کہا تھا خیر آ ئیں چلیں اگے بڑھتے ہیں۔
لیکن یہ دیکھیں اقبال کی بہو اس کے ساتھ ہم نے کیا کیا ،اقبال کا پوتا جو اقبال کی طرح ایک جوش و جذبے والا سینیٹر ہے اس کے گریبان میں بھی ہاتھ ڈالا اللہ کی قسم ہم تو وہ لوگ ہیں کہ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی تھالی میں سوراخ کرتے ہیں، اب آ ج اقبال ڈے منایا جا رہا ہے کیوں منا رہے ہیں ،آ پ نے اقبال کے کہنے پر کون سا ایسا کام کر لیا ہے جو آ پ آ نے والی نسلوں کو یہ بتائیں گے کہ ہم علامہ اقبال کے پاکستان میں رہ رہے ہیں ایک تو سب سے پہلے جھوٹ ہم یہ بولتے ہیں کہ اقبال نے تصور پاکستان دیا ،تصور پاکستان تو دیا چوہدری رحمت علی نے 1915میں، انہوں نے کہہ دیا تھا ان ہندوؤں سے الگ ہو جاؤ اپنے دریاؤں کے سوتے اپنے پاس رکھو ورنہ یہ آ پ کے معبد بھی گرا دیں گے ۔
بابری مسجدجب گری تو چوہدری رحمت علی مجھے بڑے یاد آ ئے ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جو نالائقیوں پر مشتمل ہوتا ہے آ ج آ پ کو مطالعہ پاکستان کی بات کریں تو ہنسی آ تی ہے یہی اقبال ہمارا آ زادی دینے والا بھی بنتا ہے اور یہی اقبال ہندوستان کا تو یہی دیکھ لیں آ پ اقبال کس کا تھا اقبال امت مسلمہ کا ایک شاعر تھا وہ مسلم نشاط ثانیہ کی بات کرتا تھا ۔
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
وہ نیل کے سال سے لے کر تابخاک کاشغر کی بات کرتا تھا کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
کاشغر جو ہے وہ چائنہ میں ہے اور جس ایریے میں رہتا ہے وہ جس کے بارے میں اقبال نے یہ کہا تھا کہ اکٹھے ہو مسلمان مصر سے لے کر کاشغر تک مصر کا جنرل سی سی وہاں بیٹھا ہوا ہے جو مرسی کی حکومت کا خاتمہ کر کے وہاں پہ بٹھایا گیا ہے اب اقبال کو اسی شہر کے حوالے سے یہ کہوں گا کہ آ ج وہ نیل کے ساحل میں مسلمانوں کے اوپر جو گزر رہی ہے اور فلسطین کے مسلمانوں کے اوپر جو گزر رہی ہے وہ خدا کسی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے ادھر سے اسرائیل ان کو مارتا ہے غزہ میں اور ادھر سے سرنگ سے باہر نکلتا ہوا سی سی کے سپاہی اس کو گولی مارتے ہیں ایک بوڑھے فلسطینی نے جو مجھ سے کہا تھا وہ میں نے اپنے کالم میں بھی ذکر کیا اس نے کہا تھا کہ کاش ہمارے بارڈر کے اوپر پاکستان ہوتا مصر نہ ہوتا یہی رونا کچھ لوگوں نے رویا ہے کہ مصر کو قابو کرو مصر کو کہو کہ انسان بنے سی سی کو کہو کہ انسان بنے لیکن اس فیصل بھائی کا یہ میں کہنا چاہتا ہوں کہ نیل کے ساحل پر پہلے ہی چار چھ سال پہلے مرسی کو مار کے اخوان المسلمون کو ختم کر کے وہ اسرائیل کو یہ گرین سگنل دے دیا گیا تھا کہ ایسا جرنل وہاں پہ بٹھا دیا گیا تھا جو خود بھی کہتا ہے کہ میں یہودی کے ہاتھ میں پلا ہوں بہرحال اب یہاں پہ کاشغر کی بات کر لو تو پھر کہتے ہیں کہ چائنہ سے ہماری بڑی دوستی ہے اور چائنا سے ہماری بلند و بالا دوستی ہے اور وہاں پہ بھی جو مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ کاش اقبال زندہ ہوتے تو ضرور بات کرتے ہیں ان کے بارے میں باقی رہی بات جسٹس ناصرہ اقبال کی ان سے یہ کہوں گا کہ آ پ کس کے لیے چیختی ہو اور کس کے لیے چلاتی ہو آپ بتا رہی ہو کہ میرا گیٹ توڑ دیا گیا، پولیس آ پ کے گھر کے اندر چلی گئی پولیس والے بھی ہمارے کیا بات کرتا ہوں میں کہنا کچھ نہیں چاہتا، اس موقع پر میرے آ نسو بہہ نکلے ہیں کہ کیا یہ جنرل ڈائر کی پولیس ہے کیا یہ ہماری پولیس ہے کہ جب وہ تھانیدار علامہ اقبال کے پوتے کے گھر پہ پہنچا ہوگا اور اس کو یہ پتہ ہے کہ اس کی بہو بھی ایک اندر ہے تو کیا اس نے یہ کام کرتے ہوئے اقبال کے بارے میں نہیں سوچا ہوگا میرا خیال ہے اس نے ضرور سوچا ہوگا لیکن اس کے بڑے نے اس کو کچھ اور لالچ دے دیا کہ جاؤ اقبال کے گھر میں ہمارا پیغام پہنچا دو کہ نہ تو ہم تمہیں اپنا مانتے ہیں اور نہ ہی تمہارے بچوں کو اپنا گردانتے ہیں ہاں ہم اقبال کے نام کی چھٹی دے دیتے ہیں وہ ہزارے کا حسین بخش کوثر اس نے کیا خوب ماہیا کہا تھا
نکا جیا موڑا پڑیاں اتے گراں ماہیا
اپے حاکم اپے کرے نیا مائیا
اور دوسرا معنی میں اردو میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ
شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کہ یہ شخص
چراغ بانٹتے پھرتا ہے پھوڑ کرآنکھیں
یہ ہاتھ جو اقبال کے پوتے پر دکھائی دیتا ہے یہ ہماری قومی اہمیت کے اوپر اٹھا ہوا ہے ایک ہاتھ ہے ہم نے اقبال کے بچوں کے ساتھ کیا کیا وہ تو آ پ نے دیکھ ہی لیا اور ہم نے قائد اعظم محمد علی جناح کی اولاد کے ساتھ کیا کیا پورا پاکستان اس وقت مرلوں میں تقسیم ہو کے بک رہا ہے بڑے بڑے ٹاؤن بن رہے ہیں کنالوں ،دو کنال ،چار کنال، پانچ مرلے ،آٹھ مرلے لیکن اس میں قائد اعظم محمد علی جناح کی اولاد کے لیے کچھ بھی نہیں چوہدری رحمت علی کو تو ہم نے اسی وقت بھگا دیا تھا کہ جاؤ نام تو تم نے دے دیا ہے اب اپنی شناخت کے لیے گوروں کے دیس میں ہی رہنا مطالبہ کرتے ہیں ہر سال اسی نومبر میں اور فروری میں کہ چوہدری رحمت علی کا جسد خاکی پاکستان آئے گا وہ بھی نہیں آ ئے گا اور کیا کیا افغانیوں کے ہاتھوں اپنا وزیراعظم مروا دیا ،کچھ عدالتی قتل ہوئے کچھ سڑکوں پہ مارے گئے، یہ پاکستان آ ج علامہ اقبال کا دن منا رہا ہے کس منہ سے وہ قبر اقبال سے آ رہی تھی
صدا یہ چمن مجھ کو آ دھا گوارا نہیں
آج یوم اقبال ہے آ ؤ عہد کریں کہ جو کچھ اس سے پہلے ہم نے اقبال کے ساتھ کیا اور جو کچھ اس کی خودی کے پیغام کے ساتھ کیا اس کو ہم بھول جاتے ہیں، اس خدا سے معافی مانگتے ہیں کیا اقبال ہم نے تمہارے ساتھ اور تمہاری اولاد کے ساتھ جو کچھ بھی کیا اس پر ہم شرمندہ ہیں اور ہم آ ٹھ فروری کو اقبال کے اصل شاہینوں کو برسر اقتدار لا کر ایک نئی صبح کا آ غاز کریں گے ایسی صبح کا آ غاز جو میرے اور آپ کے بچوں کے لیے امید سحر ہوگی۔