علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ تعالی کا پیغام نوجوان اورعالمی نوجوان تحریکوں پر اس کی اثرات

0

فاران کی چوٹیوں سے بلند ہونے والی صدا جو تا قیام قیامت احقاق حق اور ابطال باطل کی دیلیل اتم ہے ۔ جو حق و باطل کے درمیان حد فاصل بنائے رکھے گی۔ یہی پکار مشرق افق پہ نیر تاباں بن کر صدائے اقبال بن کر چمکی اور دمکی اس انداز میں کہ ملت اسلامیہ کی نشاط ثانیہ کی تڑپ بن گئی۔ اس پرسوز ترانہ بن گئی۔ اس صدا کا پیکر وہ امین وہ فہیم وہ ذہین وہ فریس۔ وہ اقلیم سخن۔ وہ حدائق بلاغت۔ وہ نابغہ عصر ۔ گنجینہ علم و ادب و انقلاب ۔ حضرت علامہ محمد اقبال کی صورت میں قدرت نے ڈھال کر اتارا۔ جو اوصاف حمیدہ و جمیلہ و جلیلہ اور اخلاق سلیم و حلیم و پاکیزہ سے متصف نوجوان کو جہد مسلسل بصورت شاہین آمادہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہ ایسے نوجوان کو خواب لئے پھرتا ہے جو درخشندہ ماضی کی صورت گری کے لئے خنجر ہلال کا عزم مصمم لئے عمل پیہم ۔ یقین محکم اور فاتح عالم ہوتے ہو ئے تسخیر کائنات پر پورے جوش سے تحرک و استغنا کے ساتھ آمادہ ہو۔ جو ستاروں پر کمندیں ڈالتا ہو۔ جو ہر دم ہر رنگ ہر روپ ہر رعنائی ہر طرح سے مسخر کرنے پر تلا ہوا ہو۔ وہ قوت ایمانی ۔ رزق حلال پاکیزہ اخلاق سے عبارت ہو ۔ مغرب اور اغیار کی چیرہ دستیوں سے بلند ہو کر عظمت رفتہ کی نشاط ثانیہ کے لیے مثل شاہین یہ زندگی گزارے کہ وہ صدا ہر دم نوجوانوں سے اس انداز میں مخاطب ہے کہ
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
میرا عشق میری نظر بخش دے

اور پھر نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے علامہ محمد اقبال کہتے ہیں
اے پسر ! ذوق نگاہ از من بگیر
سوختن در لاالہ از من بگیر
پھر وہ نوجوانوں کو جھنجھوڑتے ہیں کہ
کبھی یہ نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا۔ تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

اور پھر فرمایا
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پر دم ہے اگر تو۔ تو نہیں خطرہ افتاد

علامہ اقبال علیہ الرحمہ بسطہ فی العلم و الجسم سے کشید فکر کرتے ہوئے ایسے جوان کی چاہت کرتے ہو ئے مخاطب ہیں کی ثقہ علم اور مضبوط جسم والے جوان کے اندر کوئی نا امیدی مایوسی محرومی بزدلی کم ہمتی سستی کی کوئی جگہ نہ ہو وہ جوہر خودی۔ خود اعتمادی۔ شاہین صفات۔ نظریاتی اور فکری بیداری۔ روحانی پالیدگی۔ قلبی سکون۔ عملی زندگی۔ قوم اور انسانیت کی خدمت کے جذبے اور عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اس پر عمل کی اساس رکھے ۔ جو امید۔ خود اعتمادی۔ سائنسی اور فکری ترقی۔ امت مسلمہ کی وحدت۔ بلند حوصلگی۔ اوللعزمی۔ بلندی پرواز عمل و استقلال اور ازادی اور بغاوت کا جذبہ رکھتا ہو۔

حضرت علامہ محمد اقبال نوجوانوں کو شکست کو فتح میں۔ تنزلی کو ترقی میں۔ زوال کو عروج میں بدل دینے کا بہترین معیار سمجھتے ہیں وہ نوجوان کو انقلابات زمانہ کا سرچشمہ گردانتے ہیں۔ کہ جیسے حالیہ تواریخ میں انقلابات کے باب میں نوجوانوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ جوانوں کی قوت۔ صلاحیت۔ حوصلہ۔ عزم کے سامنے ہر قسم کے مصائب و الام اور حوادث ہیچ ہوتے ہیں۔ ان کے علم۔ عمل۔ تعلیم ۔اخلاق سیلم۔ سائنسی تحقیق اور معاشی اور معاشرتی استقلال کے سامنے ہر چیز خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتی ہے۔ وہ نوجوان اصحاب کہف کے جوانوں کی مانند ایمان کی حفاظت کرتے ہیں اور وہ نوجوان کبھی نمرود کی اگ میں اتش عشق سے کود جاتے ہیں۔ وہ نوجوان فرعون کو برسر عام للکارتے نظر آتے ہیں۔ وہ نوجوان وادی غیر ذی ذرع مین سبزہ پیدا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور کبھی داؤد و سلمان بن کر انصاف کی سلطنت تعمیر کرتے ہیں۔ کبھی وہ جوان برسر عام صلائے حق دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور پھر کبھی فاران کی چوٹیوں پر صدا بن کر آمادہ انقلاب دکھائی دیتا ہیں۔

ضمیر اور داعیہ
نوجوانوں کے اندر وہ ضمیر اور داعیہ پیدا کرنے کے لیے علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں کہ جیسے شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے کہا تھا کہ
درجوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبراست
وقت پیری کرگ ظالم میشود پرہیزگار

حضرت علامہ اقبال نوجوانوں کے اندر وہ امتیازی خصوصیت وہ داعیہ وہ قوت پیدا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
زندگی ہو میری پروانہ کی صورت یارب
علم کی شمع سے ہو محبت یارب

اور پھر فرمایا
جوانوں کو میری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا ! آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کر دے

اور پھر دعا کرتے ہوئے کہ
یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے

اور پھر وہی آداب وہی اسلوب، جب نوجوانوں میں پیدا ہوتے ہیں تو وہ فرماتے ہیں کہ
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرذندی

فرماتے ہیں کہ
خال خال نظر اتے ہیں وہ
کرتے ہیں جو اشک سحر گاہی سے وضو

اور نوجوانوں کے اندر ان کی شخصیت نکھارتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

پھر فرمایا
عمل ہی سے بنتی ہے زندگی جنت بھی جہنم بھی
کہ یہ خاکی اپنی فطرت میں نوری ہے نہ ناری

اور فرمایا
وہی جوان ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے داغ ضرب ہے کاری

فرماتے ہیں کہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہین بناتا نہیں آشیانہ

اور نوجوانوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ
نگاہ بلند سخن دل نواز جاں پر سوز
یہی رخت سفر میر کارواں کے لیے

اور نوجوانوں سے اس کی بلندحوصلگی ل کی اور اعلی کردار کی بنا پر فرماتے ہیں کہ
خود ہی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

اور جوانوں کی تعمیر شخصیت میں داعیہ پیدا کرتے ہوئے فرماتے ہیں
یہی مقصود فطرت یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی

نوجوانوں کی تربیت
علامہ محمد اقبال نوجوانوں کی تربیت فرماتے ہوئے ساتھ ساتھ وہ اغیار کی چیرہ دستیاں جن سے نوجوانوں کا کردار اور عمل متاثر ہو سکتا ہے سے بچاتے ہو تشخیص اور علاج کرتے ہو فرماتے ہین تاکہ نوجوانوں کو ہر برے افکار و اعمال و افعال سے بچائیں کہ
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ الا اللہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

اور کہتے ہیں کہ
شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا

اس لیے فرماتے ہیں کہ
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچوں کو صحبت زاغ

آپ نوجوان کو ہر بری صحبت سے ایسے بچاتے ہیں کہ
خوش تو ہیں جوانوں کی ترقی سے ہم مگر
نکل جاتی ہے لب خنداں سے یہ فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا ائے گا الحاد بھی ساتھ

برسر پیکار
علامہ اقبال علی رحمہ نوجوانوں کو اعلی اکردار اپنا کر۔ متقی اور محبت والا بنا کر جب اسے باطل کے سامنے ٹکرا دینے کے جذبے پہ ابھارتے ہیں اور ٹکرا جانے کی۔ترغیب دیتے ہیں کہ
چھپٹنا ۔ پلٹنا۔ پلٹ کر چھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

اور
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ ڈالتے ہیں جو کمند

فرماتے ہیں کہ
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

فرمایا کہ
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پر دم ہے اگر تو۔ تو نہیں خطرہ افتاد

اس لیے کہا کہ نوجوان اس کردار کے اگر پیدا ہو جائیں تو وہ سحر بن جاتے ہیں کہ
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا

اور وہ جوان کو مخاطب کرتے ہوئے باطل کے ساتھ برسر پیکار ہونے کے لیے برانگخیتہ کرتے ہیں کہ
ہے شباب اپنے لہو کی اگ میں جلنے کا نام
سخت کوشش سے ہے تلخ زندگانی انگبیں

جو کبوتر پہ چھپٹنے میں مذہ اے پسر وہ مزہ شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں

اور وہ نوجوانوں کو مسلسل تسلسل کے ساتھ۔ یقین کے ساتھ برسر پیکار رہنے پر ترغیب فرماتے ہیں کہ
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

اور وہ کہتے تھے کہ
یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

مقصدیت
اور پھر حضرت علامہ محمد اقبال نوجوان کے اندر اس زیست میں اس زندگی میں مقصدیت بھرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
کبھی یہ نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا۔ تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

اور اسے آمادہ کرتے ہیں ترغیب دیتے ہیں

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

اس لیے کہا کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

وہ نوجوانوں کو ستارہ بن کر چمکنے کی دعوت دیتے ہیں۔ قلندر لاہوری نوجوانوں کی شخصیت کے اندر اسی جذبے۔ اسی فکر۔ اسی سوچ۔ اسی نظریے کا فیضان بھرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ پھر وہ نوجوان کبھی ابن حزام بن کر عرب کے صحراؤں کو جگمگاتا ہے۔ تو کبھی خمینی اور علی شریعتی بن کر اس کے ارض فارس کو دمکاتا ہے۔ کبھی ترکی میں مغربی استعمار کی ہر شکل سے ازادی کے لیے برسر پیکار کرتا دکھائی دیتا ہے۔کبھی سید قطب اور کبھی حسن البنا بن کر ملت کی نشاط ثانیہ کے لیے اپنا خون پیش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ عالم شرق ہو یا عالم غرب اقبال کی صدا چہار دانگ عالم گونجتی سنائی دیتی ہے۔ الغرض نشاط ثانیہ کی اس صدی کی ہر تحریک میں محرک اقبال ہے۔ مہمیز اقبال ہے اور پھر اقبال وہی بات کہتا ہے کہ یہ صدا فاران کی چوٹیوں سے ابھرنے والی صدا سے مستعار صدا ہے کہ
اُٹھّو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمَرا کے در و دیوار ہِلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہُو سوزِ یقیں سے
کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سُلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کُہَن تم کو نظر آئے، مِٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسرّ نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پِیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!