تحریک عدم اعتماد آئین پاکستان کا ایک جز ہے ، جو اسوقت پیش کیا جاتا ہے جب کوئی حکومت عوام کا جینا حرام کردے، کرپشن عام ہوجائے ، معیشت تباہ ہوجائے، یہ اراکین اسمبلی کا حق ہے اگر اسے اراکین اسمبلی کی حمائت حاصل ہے تو وہ باآسانی عدم اعتمام کی تحریک پیش کرسکتی ہے، حالیہ تحریک عدم اعتما د پاکستا ن کے جمہوری نظام میں پہلی دفعہ نہیں مگر پہلے بھی ہوچکا ہے مگر اقتدار میں موجود حکومت اسے ناکام بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ پاکستان کے عوام نے گزشہ دس روز نہایت ہی کرب میں گزارے ، کیونکہ ذرائع کے تعاون سے برسراقتدار آنے والی حکومت نہ جانے کیوں سمجھ بیٹھی کہ کم از کم پچاس سال تک حکومت کرے گی، چاہے جو کچھ بھی ہو ، تحریک عدم اعتماد کا شور اٹھنے کے بعد زیادہ اور عمومی طور پورے تین سال پاکستان میںاس حکومت نے نہایت ہی بھونڈے اور نہائت ہی پھکڑ طریقے سے شور و غو غاکیا جائے اس میںکوئی سیاسی نعرہ کے بجائے، اپنی کارکردگی بتانے، بہتر کرنے کے بجائے نہایت جھوٹے دعوے ، مخالفین کے متعلق گندی زبان کا استعمال ، غرور اور تکبر ، خود پسندی، زبان اور کردار میں تضاد ، جو اللہ تعالی کو ناپسند ہیںوہ تمام طریقے اختیار کئے جائیں۔
2014 ء کی پی ٹی آئی کی تحریک سے لیکر 2022 ء گھر جانے تک اپنے طریقہ کار اور زبان میں کوئی تبدلی نہیںآئی کرپشن، کرپشن کا شور ہوا ساڑھے تین سال تک ڈالنے کے باوجود ایک روپیہ نہ مل سکا، ثناء اللہ کی گاڑی سے منشیات نکال کر قر آ ن بھی اٹھا لیا مگر عدالت میںپیش نہ کرسکے دوران تحریک عدم اعتماد ایک نیا انوکھا بیانیہ لے آئے کہ حکومت کے خاتمے کے لئے متحدہ حزب اختلاف کے پیچھے امریکہ ہے ،واہ واہ اچھا بیانیہ ہے جو ایک پاکستان کے سفیر کے خط کی بنیاد پر بنایا گیا، تمام تر عقل مندی سابق وزیر خارجہ کی تھی، جب غیرممالک میںکوئی بھی سفیر وہاںکی انتظامیہ سے ملتاہے اسکے ملک کی عمومی باتیںہوتی ہیں، اسکا تذکرہ شائد امریکہ کے کسی عہدیدار نے بھی پاکستانی سفیر سے کردیا ہوگا جسے ایک ’’سازش ‘‘کا نام دیدیاگیا۔
اگراسوقت کی حکومت ، تحریک انصاف کے سامنے واقعی یہ سازش آئی تھی تو سب سے پہلے اسلام آباد میںامریکہ سفارت خانے کے سامنے اپنے دس لاکھ نہیں کوئی ایک لاکھ ہی پارٹی کے جانثاروںکا مظاہر ہ کرنا تو بنتاتھا۔ایسا نہیںہوا بلکہ پاکستان کے ستر فیصد ووٹ رکھنے والی متحدہ اپوزیش کو غدار قرار دے دیا ،اورتیس فیصد ووٹ رکھنے والے پاکستان کی اسمبلی سے باہر چلے گئے۔ یہ کچھ تحریک انصاف 2014ء میںکرتے رہے استعفے د یئے مگر قانون کے مطابق اسپیکر کو نہ د یئے اور اسمبلی سے باہر رہے ، وہاںکی مراعات حاصل کرتے رہے ، پاکستانی عوام کی ٹیکسوںکے رقم سے تنخواہیں بھی لیتے رہے اور اب الحمداللہ پھر ایسا ہی کررہے ہیں، کم از کم اپنے استعفے قانون کے مطابق اسپیکرکو دیں اور حکومتی خزانے پر رحم کریں۔تحریک عدم اعتماد کے دوران جو جس سیاسی پھکڑ پن کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ میں رقم ہوگیا ، یہاںتک تو سب معمولی بات تھی۔
مگر اب انکے چاہنے والے جس طرح مسلح افواج ، عدالت کے اعلی عہدیداروں کے خلاف اپنے سوشل میڈیا کے بنائے ہوئے اکائونٹس کے ذریعے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ نہایت مکروہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور ’’ گالیا ں‘‘ دی جارہی ہیں۔ یہ سب تو کبھی پاکستان کے سنگین دشمن نے بھی نہیںکیا ۔یہ سب از خود عوام کی طرف سے نہیں ہورہا بلکہ وہی وزراء ، وہی مشیر جو عمران حکومت کے تباہی کے ذمہ دار ہیںاسکی پشت پر ہیںاگر تحریک انصاف اس مذموم کام کی مخالف ہوتی تو فوری طور پران کی جانب سے مذمت کی جاتی کہ یہ کچھ بے وقوف لوگوںکو اپنا مسئلہ ہے اس میں تحریک انصاف ملوث نہیں۔ شنید ہے کہ لوگ سوشل میڈیا پریہ مکروہ کام کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں ۔
پاکستان کے عوام اس کاروائی میںاپنے اداروںکے ساتھ ہیں۔عمران خان نہ جانے اس روش پر کیوںچل پڑے دراصل جب وہ اقتدار میں آئے تھے تو انہیں ممبران اسمبلی تھالی میں لاکر پیش کئے گئے تھے ، یہ کہا گیا کہ ’’ریکوڈک‘‘ کیس سے پاکستان کا چھٹکارہ بغیرکسی مالی نقصان کے ہوا جبکہ اصل بات یہ کہ تحریک انصاف حکومت نے 900 ملین ڈالر دیکر اس معاملے سے چھٹکارہ ہوا ، یہ بات قوم سے چھپا نے والے کیا مجرم نہیںکہلا ئیں گے ۔ انتخابات میں جانے سے قبل ملک کو پہنچے نقصانات‘ معیشت‘ خارجہ پالیسی‘ اداروں کی عظمت کی بحالی کے بعد انتخابات کی طرف جائے تو عوام انکے ساتھ ہونگے۔