وجہ مہنگائی اور اس سے نجات

0

پوری دنیا میں مہنگائی کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی ہوئی کیا یہ کہنا کس حد تک درست ہے ؟

اصل میں یہ نا مکمل بات تحریک انصاف کے چند انجان کارکنان نے عوام کے دل میں ڈال دی مگر پوری بات نہیں بتائی ۔

آئیں آپ کو مکمل بات بتاتے ہیں ۔

باہر کے ممالک میں بالفرض اگر مہنگائی 2 فیصد تھی تو ان کی مہنگائی بڑھ کر 01 فیصد سے 02 فیصد ہوگئی – مطلب کل 03 فیصد یا 04 فیصد بڑھی مگر ان لوگوں کی حکومت نے ان کی آمدنی بھی اس حساب سے بڑھا دی لحاظہ ان کو مہنگائی محسوس نہیں ہوئی ۔

جبکہ پاکستان میں نواز شریف کی حکومت مہنگائی تقریباً 03 فیصد پر چھوڑ کر گئے تھی ۔ملک میں 2021 – 2022 میں مہنگائی کی شرح 12.96 فیصد پر چکی ھے چبکہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے آئے روز نئے لگنے والے ٹیکسوں کی وجہ سے مہنگائی مزید بڑھے گی ۔

مہنگائی میں کمی ملکی قرضوں میں کمی کے ساتھ مشروط ھے ؟

عوام کو گھر کے خرچے ، بچوں کی سکول فیس ٹیوشن فیس قاری صاحب کی فیس ،کتابین کاپیاں ، بجلی گیس پانی کے بل پیٹرولیم مصنوعات کے ہوش رُبا اضافے کی وجہ سے خرچوں نے عوام کی کمر توڑ دی لیبر کاسٹ مہنگی ہونے کی وجہ سے اشیاء ضروریہ خریدنا عذاب بن گیا ۔

جس وجہ سے اندرون و بیرون کچھ انویسٹرز نے پاکستان کو چھوڑ کر پاکستان کے ہمسایہ ممالک کا رخ کرلیا ۔

کیونکہ ادھر ہمسایہ ممالک میں، اپنے ملک و عوام کے ساتھ ایماندار مخلص لوگوں کی حکومت ھے ۔

تحریک انصاف نے تو معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ھے ؟

وجہ یہ بنی کہ ترقیاتی منصوبوں کا نہ لگایا جانا – اور اس طرح سے ملکی آمدنی میں اصافہ نہیں کیا ۔

صرف نئے قرضے لے کر عوام نئے ٹیکس ہی لگائے گئے ،جس کی وجہ سے عوام پر مہنگائی کا پریشر آیا یہ مہنگائی ابھی کتنی اوپر جائے گی کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔

اس کے علاوہ کسی ملک کی معیشت کیسے تباہ ہوتی ھے ؟اس کی بنیادی وجہ سمجھنے کی اشد ضرورت ھے ۔

اور وہ یہ ھے کہ جب آپ اپنی بجلی مہنگی تیار کریں گے مثلاً ماضی کی حکومتوں نے بجلی ایل این جی گیس یا فرنس آئل پر تیار کرتے رہے ، جس وجہ سے بجلی سستی تیار ہوتی رہی اور 8 روپیہ فی یونٹ کے حساب سے عوام کو بجلی میسر آتی رہی تھی ۔

جبکہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے بجلی صرف ڈیزل سے تیار کی جس وجہ سے ملک میں مہنگی بجلی تیار ہوتی رہی اور ڈیزل کی خریداری کیلئے بہت بڑی مقدار میں ملکی زرمبادلہ باہر جانے سے ملکی خزانہ و ملکی کرنسی کی قدر میں کمی آتی گئی ۔اور یہاں قابل ذکر بات یہ ھے کہ ڈالر مہنگا ہونے سے پیٹرولیم مصنوعات 103 ڈالر فی بیرل قیمت میں پڑنے کی وجہ سے تقریباً 190 روپیہ فی لیٹر قیمت پر پڑتی رہی ،لیکن موجودہ حکومت جو کہ شہباز شریف صاحب کی ھے آئی ایم ایف کے کہنے کے باوجود نہیں بڑھا رہی ھے جس کا خسارہ ملک پر پڑ رہا ھے ۔

اور پیٹرولیم مصنوعات کی مہنگی خریداری کی وجہ سے بھی کثیر مقدار میں زرمبادلہ باہر جانے سے ملکی کرنسی مزید گرتی جا رہی ھے اور کرنسی گرنے سے ملکی قرضوں میں 86 فیصد اضافہ ہوا اور ہمارے ریزرو تیزی سے گرتے جارہے ہیں۔

یہاں پر یہ بات قابل غور ھے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان گیس اور فرنس آئل کے بجائے ڈیزل پر ہی بجلی کیوں بناتے رہے ؟

فی لیٹر ڈیزل پر تقریباً 6 سے 10 روپیہ منافع کس کی جیب میں جاتا رہا ہوگا ؟ اس کی انکوائری ہونی چاہیے ؟ ایسی کیا مجبوری آن پڑی تھی کہ ڈیزل پر بجلی بنائی گئی ؟ یہ وجہ وہ خود ہی بتا سکتے ہیں ؟

معاشی بحران کی ایک یہ وجہ بھی ھے کہ جب آپ کی کرنسی ڈی ویلیو ( پاکستانی روپیہ کی قدر کم ) ہوگی تو باہر سے مہنگی گیس ، پیٹرولیم مصنوعات ، انڈسٹریل اشیاء و کیمیکل کا سامان مہنگے داموں خریدنا پڑے اور آپ کا ملکی زرمبادلہ کثیر تعداد میں باہر جانے سے آپ کی کرنسی پر پریشر پڑے گا جس سے ڈالر مزید مہنگا ہوتا رہے گا کیونکہ ڈالر ملک سے باہر جارہا ہوتا ھے تو ڈالر مہنگا ہوتا ھے تو اس سے آپ کی لیبر مہنگی ہوگی، لیبر مہنگی ہونے پر آپ کا اندرونی و بیرونی سرمایہ داروں کا رجحان ان ممالک کی طرف جائے گا جن ممالک میں لیبر سستی ھے ۔

ہوسکتا ھے وہ اپنا کاروبار، لیبر کی کاسٹ مہنگی ہونے کی وجہ سے بند کردیں یا اپنا سرمایہ لے کر اس ملک میں چلے جائیں جہاں لیبر سستی ہو ؟

پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت بجلی کی پیداوار ڈیزل اور فرنس آئل کے بجائے ایل این جی گیس پر اپنے پہلے دور حکومت کی طرح تیار کرنے حتمی فیصلہ کر چکی ھے جس سے آپ کی بجلی تمام ٹیکس سرچارج وغیرہ شامل کرکے 34 روپیہ فی یونٹ کے بجائے تقریباً 10 سے 15 روپیہ فی یونٹ بجلی عوام کو ملنے کی توقع ھے اور بجلی کی سستی ترین قیمت ہونے کی وجہ سے لیبر سستی پڑے گی ،اس طرح کرنے سے ملکی زرمبادلہ جو بڑی مقدار میں باہر جارہا تھا وہ کم مقدار میں باہر جانے سے بیرونی کرنسی کی قدر بھی کمی جبکہ روپیہ کی قدر میں اضافہ ہوگا ۔

مسلم لیگ ن کے ماہر معاشیات کے مطابق 2022 سے 2023 کا سالانہ خسارہ 45 ارب ڈالرز تک پہنچنے کا خدشہ ھے لیکن آئی ایم ایف کے مطابق ملکی خسارے کا تخمینہ 3420 ارب ڈالرز تک ھے ۔مطلب پاکستان کی معیشت کا صرف خسارہ پورا کرنے کیلئے ہر ماہ تقریباً 02 سے 04 ارب ڈالرز درکار ہیں جبکہ ملک کو چلانے کیلئے IMF کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ کے خسارے کا تخمینہ 3420 ارب لگایا گیا ہے جو حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور غیر ممالک سے قرضوں، گرانٹس اور بین الاقوامی مارکیٹ میں بانڈز جاری کرکے پورا کرنا ہے ۔

ملکی معیشت پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام میں رہنے کے لیے اس کی شرائط کو پورا کرنا لازمی ہے ، پاکستان کو آئی ایم ایف سے اس سلسلے میں رعایتیں بھی مل سکتی ہیں تاہم اس کا انحصار خطے اور بین الاقوامی حالات پر بھی منحصر ہے – کہ اگر انٹرنیشنلی حالات بہتر ہوئے تو پاکستان کو مزید رعایت مل سکتی ھے۔

واضح رہے کہ آئی ایم ایف شرائط کے تحت ماضی میں بجلی کے نرخ بڑھانے اور شرح مبادلہ میں روپے کی قیمت گرانے پر حکومت کو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔

آئی ایم ایف کی شرائط کیا تھیں؟

آئی ایم ایف نے جب 2021 فروری کے مہینے میں پاکستان کے ساتھ اپنے چھ ارب ڈالر کے پروگرام کا جائزہ لیا تو اس پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے پاکستان سے نئے مالی سال کے بجٹ میں کچھ اقدامات کا مطالبہ کیا۔

ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے اس سلسلے میں بتایا کہ آئی ایم ایف نے فروری میں ہونے والے جائزے میں چار اقدامات کا مطالبہ کیا تھا ،سب سے پہلی شرط کے تحت پاکستان کو اگلے مالی سال میں 1200 ارب کے اضافی ٹیکس جمع کرنے ہیں۔ دوسری شرط کے تحت پاور کے شعبے میں 900 ارب روپے زیادہ جمع کرنے ہیں، یعنی تقریباً 06 روپے فی یونٹ بجلی کے نرخ بڑھا کر اس اضافی رقم کو جمع کرنا تھا۔

تیسری شرط کے تحت 610 ارب روپے پٹرولیم ڈویلمپنٹ لیوی ( پی ڈی ایل ) میں جمع کرنے ہیں تو چوتھی شرط کے تحت کارپوریٹ سیکٹر ( کاروباری و تجارتی سیکٹر ) میں دیے گئے 140 ارب کے ٹیکس استثنیٰ کو ختم کرنا تھا۔

شرائط پوری ہونے کی صورتحال کیا رہی ؟

وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ میں آئی ایم ایف کی ان میں سے کون سی شرائط پوری کی گئیں اور کونسی پر عمل درآمد نہیں ہوا۔اس بارے میں ڈاکٹر فرخ سلیم نے بتایا کہ پی ڈی ایل کی مد میں 610 ارب روپے ٹیکس جمع کرنا اس بجٹ کا حصہ ہے تو اسی کے ساتھ کارپوریٹ شعبے کو دیا جانے والے 140 ارب روپے کا ٹیکس استثنیٰ بھی بڑی حد تک ختم کر دیا گیا اور اگلے مالی سال میں اضافی ٹیکس جمع ہو گا تاہم آئی ایم ایف شرط کے تحت 1200 ارب زیادہ ٹیکس جمع کرنا اس 2021 کے بجٹ میں شامل نہیں۔اسی طرح بجلی کے نرخ بھی کسی کسی مہینے نہیں بڑھائے گئے جو آئی ایم ایف پروگرام کی ایک شرط ہے ۔

معاشی امور کے ایک اور صحافی ظہیر عباسی نے بتایا تھا کہ حکومت نتخواہ دار طبقے سے 130 ارب روپے کا ٹیکس جمع کر رہی تھی اور آئی ایم ایف شرائط کے تحت اس طبقے پر 150 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنا تھا تاہم وہ اس بجٹ کا حصہ نہیں۔

پاکستان پر 2020 تک مجموعی قرضہ کتنا تھا ؟

پاکستان کے ذمہ واجب الادا مجموعی رقم 2020 تک 115 ارب ڈالر سے زیادہ تھا ،سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 31 دسمبر 2020 تک ملک کا مجموعی قرض 115.756 ارب ڈالر تھا۔

گذشتہ اور موجودہ ادوار میں کتنا بیرونی قرض واپس کیا گیا ؟

سابق وزیر اعظم عمران خان کے دعویٰ کے مطابق موجودہ حکومت نے اپنے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں تقریباً 20 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ واپس کیا ہے۔

ڈارسن سیکورٹیز کے ہیڈ آف ریسرچ یوسف سعید نے کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے واپس کیے گئے بیرونی قرض کی واپسی کی تصدیق سرکاری اعداد و شمار سے ہوتی ہے۔انھوں نے بتایا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ موجودہ حکومت کی مدت شروع ہونے سے لے کر 31 دسمبر 2020 تک تحریک انصاف حکومت نے 20.454 ارب ڈالر کا بیرونی قرض واپس کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے پہلے ڈھائی سالہ دور حکومت میں بیرونی قرض کی واپسی کو دیکھا جائے تو اس کی مالیت 9.953 ارب ڈالر تھی۔ اور پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت کے پہلے ڈھائی سالوں میں 6.454 ارب ڈالر کا بیرونی قرض واپس کیا تھا۔ اگر ہم 2008 ء سے 2021 ء تک کا ہر سال لیے گئے قرضوں کا ریکارڈ دیکھیں تو دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے۔

2008ء میں 45 ارب ڈالر
2009 ء میں 56 ارب ڈالر
2010ء میں 62 ارب ڈالر
2011ء میں 64 ارب ڈالر
2012 ء میں 62 ارب ڈالر
2013 میں 56 ارب ڈالر

2013 سے 2018 اگر قرضے لئے گئے تو اتارنے کے ساتھ ساتھ 13000 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں داخل ، دو بڑے ڈیموں کے علاؤہ چھ ڈیموں کی منظوری کیلئے چین سے 62 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری پاکستان میں کروائی گئی گوادر پورٹ پر تیزی سے کام جاری، پانچ موٹر ویز کے جال کے ساتھ ساتھ میٹرو بس منصوبے و اورنج لائن ٹرین منصوبہ شامل ھے ، یہ سب سی پیک منصوبہ کا حصہ ھے ۔

نواز شریف کو جب 2017 عدالت اعظمی نے نااہل قرار دیا تو اس وقت ملکی خزانے میں 18.46 ارب ڈالرز کے ریزرو موجود تھے ۔

Pakistan : Foreign exchange reserves including gold, billion USD
Year Value
2015 20.03
2016 22.03
2017 18.46
2018 11.84

2014 ء میں 62 ارب ڈالر
2015 ء میں 66 ارب ڈالر
2016ء میں73 ارب ڈالر
2017 ء میں 86 ارب ڈالر
2018ء میں 90 ارب ڈالر( قرضوں اقساط اتارنے کے بعد )

( 2018 سے 2022 عمران خان دور شروع ہوتا ھے اور عمران خان نے 40 ارب ڈالرز صرف قرضے لئے جس میں ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کوئی دیکھا دے ؟ جبکہ تقریباً 20 ارب کے قرضے اتارے بھی پیچھے باقی 20 ارب ڈالرز کہاں پر خرچ کئے ؟

یاد رہے یہ قرضے صرف آئی ایم ایف کے ہیں ایشائی ترقیاتی بینک اور اندورنی قرضے اس کے علا وہ لئے گئے ہیں )

اور جب عمران خان کی حکومت ختم ہوئی اس وقت پاکستان کے ریزرو اسٹیٹ بینک کے مطابق مارچ 2022 میں 10.5 ارب ڈالرز تک تھے مطلب 6- 7 ہفتوں کے ریزرو باقی رہ گئے ہیں جب قرضوں کی ادائیگیاں پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری اور ملک نظم و نسق کیلئے 7-6 ہفتوں کے ہی ریزرو رہ گئے ھیں۔ )

2019 ء میں 95 ارب ڈالر ،2020 ء میں 115 ارب ڈالر کے قرضے لیے گئے۔حیران کن طور پر پیپلز پارٹی کے دو سالوں 2012ء اور 2013ء میں قرضوں کی شرح میں کمی آئی۔2022 ء میں پاکستان کے کل ملکی قرضے 130632 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ۔اب یہ قرضے اتارنے کیلئے عوام پر مزید نئے ٹیکس لگائے جا ئیںگے اور اس طرح مہنگائی میں مزید اضافہ کیا جائے گا ؟اور مقتدر اشرافیہ اقتدار اور عیش و عشرت کے نشے میں مست ہے۔ اسے کوئی فکر نہیں کہ پاکستان کے قرضے کون اتارے گا،پاکستان کے محب الوطن حلقے جب تشویش اور فکرمندی کا اظہار کرتے ہیں تو مقتدر اشرافیہ کہتی ہے۔پاکستان کے قرضے مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے 87 فیصد تک پہنچ چکے جب کہ بنگلہ دیش میں قرضوں کی شرح 30 فیصد چین میں 54 فیصد اور روس میں 19 فیصد ہے۔

قرضے لینے میں کوئی برائی نہیں ہے اگر قرضوں کی سرمایہ کاری ان ترقیاتی منصوبوں میں کی جائے جو منافع بخش ہوں اور قرضوں پر سود اور اصل رقم واپس کرنے کے قابل ہوں۔پاکستان میں قرضے عام طور پر ایسے منصوبوں پر خرچ کیے جاتے رہے ہیں ، جو قرض واپس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ آج صورت حال اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ قرضوں پر سود کی قسط ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔اگر کسی ملک کو تنخواہیں ادا کرنے کے لیے بھی قرضے لینے پڑیں تو اس ملک کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے۔قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے پاکستان اپنی آزادی اور خودمختاری سے ہی محروم ہو چکا ہے اور انگریزوں کا بنایا ہوا نوآبادیاتی نظام بھی بدلنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتا۔

ایف اے ٹی ایف FATF کی تلوار پاکستان پر مسلسل لٹک رہی ہے،اگر پاکستان کے قرضے اسی رفتار سے بڑھتے رہے تو پاکستان کو خدانخواستہ ایٹمی اثاثوں سے بھی محروم کیا جا سکتا ہے۔ایک جانب قرضے بڑھ رہے ہیں اور دوسری جانب غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے،قرضے لے کر وی آئی پی کلچر کو جاری رکھا جا رہا ہے ،اگر ہم نے ملکی قرضے اتارنے ہیں تو وی آئی پی کلچر کو خیر باد کہنا ہوگا اور اپنے خزانوں و وسائل کو ایسے منصوبوں پر لگانا پڑے گا جس سے ملک کی آمدنی میں دن رات اضافہ ہو اور ہم ملکی قرضے ، قرضے لے کر اتارنے کے بجائے اپنی پیداواری صلاحیت سے اتار سکیں۔

اس کے لئے ہمیں اپنی ایکسپورٹ کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ مل کر انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کرنے کی اشد ضرورت ھے ،ہمارے ملک کی مجموعی ایکسپورٹ 2021 میں 03 فیصد رہی جبکہ امپورٹ 06 فیصد ھے یہ ایک بہت بڑا ملکی پیداواری نقصان ھے جس دن پاکستان نے اپنی ایکسپورٹ کو امپورٹ کے مقابلے میں بڑھا لیا اس دن پاکستان قرضے اتارنے کے قابل ہو جائے گا،اس کیلئے نئی فیکٹریاں و نئے کارخانے لگانے سے بے روزگاروں کو روزگار فراہم ہوسکنے کے ساتھ ساتھ ملکی پیداوار و ترقی میں نمایاں اضافہ ہوسکے گا اور ملکی معیشت میں بہتری آئے گی اور قرضے مانگنے کے بجائے ہم قرضے دینے والے ممالک کی فہرست میں داخل ہوجائیں گے۔ ان شاءاللہ

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!