سوشل میڈیا کی شہرت گزشتہ چار سال میں سابقہ حکومت کے بعد سامنے آئی جب اسوقت حکومتی جماعت نے نوجوانوں کی فوج اپنی جماعت کی تشہیر پر مامور کردیا، جب موبائل ہاتھ میں، کمپیوٹرسامنے ہو ، سیاسی اساتذہ کسی خدمت پر مامور کردیں، تو موبائل، کمپیوٹر سامنے ہونے کی وجہ سے ضروری نہیں کہ اگر سیاسی اساتذہ مثبت بات کی تشہیر کا سبق دیں تو نوجوان، غیر تیار شدہ ذہن صر ف مثبت بات کی تشہیر کریں انٹر نیٹ پر بہت کچھ ہوتا ہے۔ جب مد مقابل نے بھی سابقہ حکومت کے دیکھا دیکھی اپنے بھی سوشل میڈیا سیل بنالئے تو سوشل میڈیا پر نہائت ”گند بلا“ آنا شروع ہوگئی حکومت نے سوشل میڈیا کو لگام دینے کیلئے اربوں روپیہ خرچ کئے مگر جب گند شروع ہوجائے تو اسے روکنا مشکل ہوجاتاہے۔
دشمنوں میں گھر ا پاکستان اس سوشل میڈیا کا متحمل نہیں ہوسکتا ، اب اس سوشل میڈیا کو چلانے والے صرف اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بڑی تعداد میں موجود ہیں جنکی سرپرستی پاکستان دشمن کرتے ہیں، مالی معاونت بھی یقینا بھر پور انداز میں کرتے ہین جس سے وہ پاکستان کے خلاف منفی پروگنڈہ کرتے ہیں،یہ بات بھی عجیب ہے کہ امریکہ، یورپ، میں بیٹھے نام نہاد پاکستانی جو اپنے پاسپورٹس بھی اسی ملک کے لے چکے ہیں، جب پاکستانی بیرون ملک کسی دوسرے ملک کا پاسپورٹ لیتا ہے تو وہ اپنے سابقہ ملک سے مکمل دست برداری، اور جہاں کا وہ پاسپورٹ لیتاہے وہاں کے قوانین کی پاسداری کا حلف لیتا ہے اس صورتحال میں ان لوگوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر شورغو غا کوئی معنی نہیں رکھتا چونکہ وہ پاکستان کے معاملات میں دخل اندازی کا حق کھو چکے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں جہاں ہر قدم پر حکومتی اداروں کی رٹ کا سخت فقدان ہے جس نے پاکستان کو دنیا مین تماشہ بنادیا ہے اور یہ عمل گزشتہ چار سال میں زیادہ ہوا اس سے قبل کرپشن کے معاملات میں عدالتی رٹ کا نہ ہونا ، متنازعہ فیصلوں کی وجہ سے عدالتی وقار داؤ پر لگارہا، اور تاحال لگا ہے۔ جس ملک میں قانون کی حکمرانی نہ ہوا وہاں عوام کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اور جب کہ ہم نے پوری قوم کو تفرقوں کی بنیا کی حد تک پہنچا دیا ہے جسکے ذمہ دار اقتدار کی ہوس کے شکار سیاست دانوں کے علاوہ کوئی نہیں، تفرقوں، ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کی حامل قوم کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی،ہمارے ان تفرقوں کو وطن کے دشمن بخوبی استعمال کرتے ہیں،ہم یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ جس افواج کو ہم دعوت دیتے ہیں، بارشوں میں امدادی کام، امن وامان کی کسی نگفتہ بہ حالت میں بیرکوں سے سڑکوں پر آنے کی دعوت دیتے ہیں، دہشت گرد جب ملک کے نہتے عوام کا خون بہائیں تو یہ ہی افواج انکا مقابلہ کریں انکو صفحہ ہستی سے مٹائیں،اور اپنی جانوں کی قربانیاں دیں۔
جب دہشت گرد ملک پر حملہ آور ہوں تو اسی اسکول پر جہاں افواج پاکستان کے بچے زیر تعلیم ہوں حملہ کرکے سینکڑوں معصوم جانوں کو شہید کریں اب تو ان سے یہ بھی توقع ہوتی ہے کہ بیرون ملک سے ملکی معیشت سدھارنے کیلئے،وطن پہلے ہی موجود قرضوں کے لا متناہی سلسلہ کا شکار ہے، بیرون ملک افواج کا سربراہ ہی اپنی نیک نامی کو استعمال کرتے ہوئے قرضہ بھی دلوادے ایسی بہادر فوج کو سیاست دان اپنی سیاست چمکا نے کیلئے یہ امید رکھیں کہ وہ ہمارا ساتھ دیں اگر نہ دیں انہیں غیر جانبدار رہنے پر انہیں لعن تان کریں اور غیر جانبداری کا ترجمہ نہائت شرم انگیزی سے ”جانور“ کے لقب سے نواز جائے۔ کم و بیش سیاست دانوں کی اکثریت نے اپنے اپنے مطلب کیلئے افواج پاکستان کو اپنے بیانیوں میٰں نشانہ بنایا ہے۔ اقتدار کی ہوس رکھنے والے سیاست دانوں کے نابالغ تقلید کرنے والے اس قومی اداروں کے خلاف یہ نفرت لیکر چل پٹرتے ہیں اور گلیوں بازاروں میں منفی پروگنڈہ کرتے ہیں اور اسے ”اظہار رائے“کا لقب دیتے ہیں یہ سلسلہ صرف ملک میں نہیں بلکہ بیرونی دنیا بھی جاتا ہے۔اور ہم مضبوط ترین اداروں کوکمزور کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، اسکی شاباشی انہیں نامور سیاست دان دیتے ہیں۔
ماضی میں یہ عمل ہوا کہ کچھ ہمارے قابل احترام اداروں میں موجود کچھ ناعاقبت افسران نے اپنے آپ کو سیاسی پسند نہ پسند کی بنیاد پر اپنے آپ کو سیاست دانوں سے نتھی کیا مگر وہ قابل تعریف عمل نہ تھا اس عمل سے فائدہ مند ہونے والے اب ہمیشہ ہی اس بات کی توقع رکھتے ہیں مگر الحمداللہ اسوقت موجود ہمارے طاقتور اداروں میں اب یہ رجحان ختم ہوچکا ہے سابقہ عمل کو جمہوریت پسند عوام نے ہرگز پسند نہیں کیا آج جنرل باجوہ نے اس ادارے کی سیاست سے وابستگی سے پاک کردیا ہے۔صحافتی تجربہ نہ رکھنے والے یا ڈبل تنخواہ دار چاہے اپنی بات چیت سے یا اپنے مضحکہ خیز انداز سے چینلز پر بیٹھ کر جو کچھ کہیں مگر اداروں کے خلاف خاص طور افواج پاکستان کے خلاف واضح یا ڈھکے چھپے انداز میں جو کچھ کہیں وہ وطن عزیز کیلئے ہرگز احسن نہیں۔ دنیا خاص طور پر بھارت اسطرح کی بات چیت کو موضوع بناکر ہماری بہادر افواج جس سے وہ خواب میں بھی خوف محسوس کرتے ہیں اس کے خلاف پروپگنڈہ کرتے ہیں اور یہ موقع بد قسمتی سے ہم فراہم کرتے ہیں۔ حالیہ ہیلی کے قدرتی حادثے کو بھارت نے جسطرح تماشہ بنایا ہے اور اسے چند مٹھی بھر دہشت گردوں کے سرپرستوں کی کارستانی بتایاہے ایک نہائت افسوسنا ک امر ہے۔
بدبخت یہ بھول جاتے ہیں اگر کوئی دہشت گردی ہو تو اسکا اعلان واقع کے فوری بعد ہوتا ہے، واقع کے دوسرے دن یا تیسرے دن نہیں ہوتا کہ ”ہم نے کیا ہے“ ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد مشکل اور تکلیف دہ وقت میں پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے لیکن کچھ بے حس حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر تکلیف دہ او ر توہین آمیز مہم جوئی کی گئی، یہ رویے قطعی ناقابل قبول اور شدید قابل مذمت ہیں ہمارے تحقیقات ادارے بہت چاق و چوبند ہیں مگر زہر افشانی کرنے والوں کو نہ جانے کیوں کھلی چھوٹ دی گئی جو اب وبال جان بن گئی،معاملہ سنجیدہ ہوگیا اب بھی وقت ہے کہ تحقیقاتی ادارے اپنی تحقیق کو غیر جانبدرآنہ انداز میں پہنچائیں اگر ملوث افراد کو بغیرکسی وابستگی کو در گزر کرکے ایسی سزا دیں کہ آئیندہ کسی کی جرات نہ ہو۔
جو سیاسی جماعت یا افراد تحقیقات میں دخل اندازی کریں نام نہاد آزادی اظہار جیس چڑیا کا نام لیں انہیں بھی شامل تفتیش کرکے سزا دیں، موجودہ تحقیقات سے اللہ کرے اصل لوگوں کا علم ہوجائے اور انہیں سزا ملے ، پی ٹی آئی کے بیانیہ کی وجہ سے سوشل میڈیا کے نفرت انگیز پروپگنڈہ کو پی ٹی آئی سے منصوب کردیا گیا۔ پروپگنڈہ براہ راست پاک افواج اور اسکے سربراہ قمر جاوید باجوہ کے خلاف ہے، پاک فوج میں تفرقہ پھیلانے کی ناپاک کوشش ہے اور یہ نوبت افواج کے خلاف بیانیہ بنانے والوں کے خلاف بروقت سخت ”اہتمام“ نہ کئے جانے کا سبب ہے اب سیاسی جماعتیں متحد ہوکر مقابلہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے سوشل میڈیا کے خلاف الزام تراشی کررہے ہیں چند بدبختوں نے سوشل میڈیا پر یقیناً ایسی کوئی یاوہ گوئی کی ہو گی جس پر فوج کی طرف سے سخت ردعمل آیا۔ بتایا گیا کہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے مگر اس میں حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ نوجوان زندہ سلامت اور بقائمی ہوش وحواس ٹی وی پر پیش کیاگیا ہو گا خدشہ ہے کہ ٹیلی ویثر پر معافی مانگنے والے کسی ”بندوبست“ کے تحت تو نہیں کہ عدالت ضمانت لے ہی لے گی کہ آزادی اظہار پر قدغن نہ لگائی جائے۔ یہ ہی تحریر کرسکتا ہوں کہ افواج پاکستان کے خلاف منفی پروپگنڈہ کرنے والے قابل معافی نہیں ان سے بڑا پاکستان کا بڑا دشمن اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا جو ہماری سیسہ پلائی، دنیا کی بہترین فوج میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرے۔اس ملک کو رہنے دیں ہمارے بچے اپنا بہترین مستقبل اس میں دیکھ رہے ہیں۔