آہستہ آہستہ نمازی بڑھنے لگے۔علم الدین صاحب کا سر میری گود میں تھا۔کتنا خوش قسمت اور عظیم مرتبہ وہ شخص ہے جسے موت در مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ نصیب ہو۔میں علم الدین صاحب کی پیشانی سے اپنا سر لگا کر رو رہا تھا۔حالانکہ میرا ان سے کوئی رشتہ بھی نہیں تھا مگر نہ جانے کیوں ایسے لگا جیسے ہم صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔جیسے ہمارا ایک دوسرے سے خون کا رشتہ ہو۔آج سے پندرہ روز پہلے میں علم الدین صاحب کے نام سے بھی واقف نہیں تھا۔مگر پہلے دن سے اب تک جتنے روز بھی میں علم الدین صاحب کے ساتھ رہا ان دنوں میں علم الدین صاحب کے لئے میرے دل میں محبت اور عزت پروان چڑھتی رہی۔میرے علاوہ کچھ نمازی جو وہاں موجود تھے جو بہت عقیدت رکھنے والے تھے وہ لوگ بھی آنسو بہانے لگے۔وہ مسلمان کتنے خوش قسمت ہیں جو مسجد نبوی کی پہلی صف میں کھڑے ہو کر سنہری جالیوں کے سامنے سجدے میں ہوں اور اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔تھوڑی دیر میں علم الدین صاحب کا جسد خاکی اٹھا کر ہم مسجد کے صحن میں لائے۔میں علم الدین صاحب کے بالکل ساتھ ساتھ تھا اور مجھے ان کا وارث بن کر انہیں دفن کرنا تھا۔ان کی تدفین کے لئے جنت البقیع میں ایک جگہ مختص کی گئی۔جہاں بہت سے صحابی رسول اور اہل بیت دفن ہیں۔علم الدین صاحب کتنے خوش ہیں کہ آخری وقت میں وہ در نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ ہیں اور ان کی سانسوں کی ڈوری ٹوٹ گئی۔اس وقت ان کے الفاظ میرے کانوں میں سنائی دیئے جو ایک دن پہلے مجھ سے کہہ چکے تھے”آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ آنے کے لئے میں نے ستر سال تک دوری برداشت کی ہے۔مجھ میں اب یہ در چھوڑنے کی سکت نہیں ہے فرزند،تم میرے لئے دعا کرنا،میں یہیں کا ہو کر رہ جائوں۔مجھے یہیں پہ موت آ جائے۔ہو سکتا ہے میرا خمیر مدینہ کی مٹی کا ہو اور مجھے یہی خاک ہونے کی جگہ مل جائے”واقعی علم الدین صاحب کا خمیر مدینے کی مٹی سے تھا تب ہی انہیں جنت البقیع میں جگہ مل رہی تھی۔میں ان کے پاس بیٹھا آنسو بہا رہا تھا۔مسجد نبوی شریف میں آنے والے زائرین اور نمازی ایک بار کھڑے ہو کر علم الدین صاحب کو ضرور دیکھتے۔شاید ان کے دل میں بھی مسجد نبوی میں مرنے کی خواہش تھی۔میں نے کچھ سوچ کر علم الدین صاحب سے ان کے ایک پرس سے موبائل نکالا جس کے بارے میں اب تک لا علم تھا۔میں نے موبائل دیکھا تو اس پہ "پیارا بیٹا”کے نام سے مس کالز تھیں۔یہ مس کالز پچھلے چھ دن سے مسلسل آ چکی تھیں۔مگر موبائل سائلنٹ موڈ پہ ہونے کی وجہ سے انہیں پتا نہ چل سکا۔میں نے اس نمبر پہ کال کی تو پہلی بیل کے بعد فورا کال اٹھا لی گئی۔دوسری طرف کسی نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا”بابا”ایسے لگا جیسے دوسری طرف کوئی رو رہا ہے۔”ہیلو،بابا کچھ تو بولیں بابا،پچھلے چھ دن سے مسلسل کال کر رہا ہوں بابا”دوسری طرف سے کوئی بولا تو میرے لب خوبخود ہلے”اسلام علیکم”میں بولا
"آ۔۔۔آپ۔۔کون”دوسری طرف موجود شخص نے اجنبی آواز سن کر پوچھا تو میں نے انہیں اپنا تعارف کروایا۔
"بابا کہاں ہیں،آپ میری ان سے بات کروا سکتے ہیں”ان کے بیٹے نے پوچھا
"آپ کیوں بات کرنا چاہتے ہیں ان سے”میں نے جواباً کہا
"میرے بابا ہیں وہ،پچھلے چھ دن سے میں مسلسل انہیں یاد کر کر کے رو رہا ہوں،انہوں نے میری کال بھی نہیں اٹھائی۔کیا آپ میری ان سے بات کروا سکتے ہیں”علم الدین صاحب کے بیٹے نے بے بسی سے کہا ان کی بات سن کر میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔میں انہیں کیا بتاتا کہ علم الدین صاحب تو اس دارفانی سے رحلت فرما چکے ہیں۔انہیں بتانے کا مجھ میں حوصلہ نہیں تھا۔میری آنکھوں سے متواتر آنسو بہہ رہے تھے۔
"میں آپ کو اپنا واٹس اپ نمبر لکھواتا ہوں آپ اس پہ کال کریں اور اپنے بابا سے بات کر لیں”میں نے ان وے مخاطب ہو کر کہا اور انہیں اپنا واٹس اپ نمبر لکھوا دیا۔تھوڑی دیر میں ان کی واٹس اپ کال آ گئی تو میں نے انہیں مسجد نبوی میں علم الدین کا جسد خاکی پڑا دیکھا دیا۔ان کے لئے یہ سب اچانک اور غیر متوقع تھا۔اچانک ان کی چیخ بلند ہوئی”بابا،بابا نہیں بابا آپ مجھے ایسے نہیں چھوڑ کر جا سکتے”وہ چلا رہے تھے مگر شاید اب وقت بیت چکا تھا۔کافی دیر وہ علم الدین صاحب کا چہرہ دیکھ کر آنسو بہاتے رہے اور پھر مجھے مخاطب کر کے بولے”سنو جوان”تو میں نے موبائل اپنی طرف کر لیا۔میری آنکھیں مسلسل رونے کی وجہ سے سرخ تھیں۔”آپ میرے بابا کوکب سے جانتے ہیں”انہوں نے پوچھا
"پچھلے پندرہ دن سے”میں نے جواباً کہا
"کیا صرف پندرہ دن ہوئے”انہوں نے حیرانگی سے میری جانب دیکھا
"آپ کے بابا نے مجھے کہا تھا کہ میرے بیٹے کو بتا دینا،میں نے اسے معاف کر دیا۔اللہ بھی اسے معاف کر دے”میں نے ان کی حیرانگی کی طرف متوجہ ہوئے بغیر کہا
"آپ سے ایک درخواست ہے جب میرے بابا کو دفن کر دیا گیا تو ان کی قبر کا نشان اور جگہ مجھے بتا دینا۔میں جلد بابا کی قبر پہ ضرور آئوں گا”انہوں نے مجھ سے درخواست کی تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"آپ مجھے اپنا مکمل پتہ دے دیجئے،میں آپ کے بابا کی امانتیں آپ تک پہنچا دوں گا”میں نے ان سے ان کا ایڈریس بتانے کا کہا
"نہیں میں ان کا حقدار نہیں ہوں،میں قابل بیٹا نہیں”انہوں نے ایڈریس بتانے سے انکار کر دیا تو میں بھی خاموش ہو گیا اور پھر ان سے فون بند کرنے کا کہا کیونکہ اب علم الدین صاحب کو غسل دینے کا وقت تھا۔تھوڑی دیر میں ہی گورنمنٹ کی طرف سے آئے چند افراد نے انہیں غسل دیا اور پھر جنازے کے بعد جنت البقیع میں انہیں دفن کر دیا گیا۔ان کا جسد خاکی میں نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔خاک کا انسان آخر خاک میں ہی مل جائے گا اور باقی سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا۔ان کہ تدفین کے وقت ان کے بیٹے کی کال آئی اور وہ مسلسل ویڈیو کال سے ان کی تدفین دیکھتے رہے۔علم الدین صاحب وہ پہلے شخص تھے جو دین کے معاملے میں میری رہنمائی کرنے میں پہلی بار مجھے میسر ہوئے۔پر افسوس ان کا اور میرا ساتھ بہت کم عرصے کے لئے تھا۔تدفین کے بعد میں نے ان کی قبر پہ کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کی اور ان کی مغفرت کی دعا کی اور پھر واپس لوٹ آیا۔واپسی پہ مجھے اپنے قدم بھاری بھاری ہوتے محسوس ہوئے۔میری آنکھیں علم الدین صاحب کی وفات سے لے کر ان کی تدفین تک خشک نہ ہوئیں اور مسلسل بہتی رہیں۔میں بڑی مشکل سے ضبط کا دامن تھامے مسجد نبوی میں پہنچا تو آنکھیں پھر سے چھلک پڑیں۔دل فرط جذبات اور عقیدت سے رونے لگا اور میں بے اختیار سجدے میں گر گیا۔بلاوا خوش نصیبوں کے حصے میں آتا ہے اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے پکے جڑے رہتے ہیں۔ان کی موت بھی علم الدین صاحب جیسی ہوتی ہے اور ان کی قبر کی پکی جگہ بھی مدینے میں بنتی ہے۔میں نے مسلسل آنسو بہا رہا تھا جب ظہر کا وقت ہو گیا اور مسجد نبوی میں مئوذن اذان کی صدا بلند کرنے لگا۔علم الدین صاحب کے بغیر وہ پہلی اذان تھی جو میں مسجد نبوی میں سن رہا تھا۔میں نم آنکھیں لئے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا تھا۔میری خوش نصیبی تھی کہ میں در مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ بلایا گیا اور مجھے سجدے کی توفیق ملی۔میں فورا اٹھ کر مسجد نبوی کے اندرون میں داخل ہوا تو پہلی صف نمازیوں سے بھر چکی تھی اور مجھے دوسری صف میں جگہ ملی۔علم الدین صاحب کے بغیر میں ایک قدم پیچھے ہو چکا تھا مگر میری آنکھوں سے آنسو بہنا کم نہ ہوئے اور میں اب مسجد نبوی سے فراق کا سوچ کر رونے لگ گیا۔اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا اور میں نے باجماعت مسجد نبوی میں نماز ظہر ادا کی۔علم الدین صاحب کے بغیر میری وہ پہلی نماز تھی اور میری بغل میں کندھے سے کندھا ملائے کوئی اور بزرگ کھڑے تھے۔
نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد میں کچھ دیر کے لئے صف پہ ہی بیٹھ گیا اور کچھ ذکر و اذکار کرنے لگا۔ہم گناہگاروں کے پاس آخری سہارا صرف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔دنیا اور آخرت میں ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سی کامیابی حاصل کریں گے۔میں کچھ دیر نماز کے بعد کے ذکر و اذکار کرتا رہا اور پھر اٹھ کر سنہری جالیوں کے پاس چلا گیا۔آنکھیں فرط جذبات سے پھر سے چھلک پڑیں۔میں نے سنہری جالیوں کو چھوا تو سانس نہ لے سکا۔اس وقت زبان سے یہ الفاظ نکلے”اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،گناہوں میں میرا کوئی ثانی نہیں ہے۔میں نے اپنی زندگی کے پینتیس سال گناہوں کی زد میں گزار دیئے ہیں۔میں معافی کا حقدار نہیں ہوں مگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رحمت اللعلمین ہیں۔میری بخشش کا ذریعہ صرف آپ ہیں۔میری حاضری قبول فرما لیں”میری آنکھیں مسلسل بہہ رہی تھیں۔میں سنہری جالیوں کے اس قدر قریب تھا کہ بار بار انہیں چھو رہا تھا۔میں دونوں ہاتھ باندھے کھڑا درود و سلام بھیج رہا تھا۔اس وقت مجھے اپنی دادی ماں کے کہے وہ الفاظ یاد آئے جب انہوں نے مجھے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیال جب بھی تمہیں آئے تو یہ سوچ کر اپنے گناہوں پہ معافی ضرور مانگنا میں امتی ہونے کے بھی قابل نہیں تھا۔مگر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی بنا کر مجھ پہ کرم کیا گیا”میری آنکھوں سے مسلسل آنسو رواں تھا۔انسان کتنی جلدی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں ہمیں پتا ہی نہیں چلتا۔ابھی علم الدین صاحب کو گزرے چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے۔اس وقت علم الدین صاحب کی یاد نے مجھے مزید سوگوار کر دیا۔اچھے لوگوں کا ساتھ بھی کتنا قلیل ہوتا ہے۔وہ قلیل وقت کے لئے آتے ہیں اور قلیل وقت میں ہی گزر جاتے ہیں۔علم الدین صاحب سے میرا کوئی رشتہ نہیں تھا مگر چند دنوں میں ہی وہ مجھ پہ جان چھڑکنے لگے۔اس وقت مجھے مواخات مدینہ کی یاد آئی کہ کیسے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر میں انصار مدینہ اور مہاجرین مکہ کو آپس میں بھائی بھائی بنایا گیا۔آنسوئوں کی ایک لڑی پھر سے گال بھگوتے ہوئے ٹھوڑی تک پہنچ گئی۔میں در نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ ہم مسلمان کس قدر پستی کا شکار ہو چکے ہیں۔میں نے خانہ کعبہ سے لے کر مسجد قباء تک اور مسجد قباء سے مسجد نبوی تک آنے میں کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں کیا تھا۔مگر جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم در پہ پہنچا تو اس وقت یہ خیال آیا کہ انصار مدینہ کی قربانی ہمارے لئے مشعل راہ ہے مگر ہم لوگ ایک دوسرے کا حق کھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ہم پستیوں کو چھوتے ہوئے اس حد تک گر چکے ہیں کہ ہمارے ہاتھ بالکل خالی ہیں۔نہ جانے کس لحاظ سے ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں۔میری آنکھوں سے آنسو متواتر بہہ رہے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ حاضری ہم امتیوں کے کتنی بڑی سعادت ہے مگر بیشتر لوگ ایک رسم پوری کرنے آتے ہیں۔میری آنکھوں سے آنسو جاری تھی اور میں سنہری جالیوں کو بوسہ دے کر واپس پلٹا۔علم الدین صاحب کے بغیر سفر بہت مشکل لگ رہا تھا۔انہوں نے ہر معاملے میں میری رہنمائی کی۔میں کچھ دیر کے لئے کیمپ میں سستانے کے لئے چلا گیا۔دن گزرتے چلے گئے آخر کار مدینہ سے میری روانگی کا بھی وقت آ گیا۔آخری روز میں کچھ دیر کے لئے علم الدین صاحب کی قبر پہ چلا گیا۔
"آج فراق کا وقت آ گیا ہے علم الدین صاحب،فراق کتنے بڑے کرب میں مبتلا کر دیتا ہے یہ میں نے آج جانا ہے۔آج مجھے مسجد نبوی سے کوچ کر جانا ہے۔مگر مجھے لگتا ہے کہ اب میری لاش واپس جا رہی ہے۔میرا دل اور میری روح در مصطفی پہ ہی رہ جائے گی۔میرا جسم تو یہاں سے چلا جائے گا مگر میں یہاں سے نہیں جا سکوں گا۔مدینے والے کا مدینہ میرے دل میں بس گیا ہے”میری آنکھوں سے متواتر آنسو جاری تھی۔میں کچھ دیر کے لئے وہاں کھڑا رہا اور پھر ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھی۔پھر آخری بار علم الدین صاحب کی قبر کی طرف دیکھا اور جنت البقیع سے نکل کر مسجد نبوی میں چلا گیا۔مسجد نبوی میں گنبد حضرا پہ آخری بار نظر پڑتے میری آنکھوں آنسو نکل آئے۔میں پھر سے بے اختیار ہو گیا۔شب فراق واقعی کرب میں مبتلا کر دیتی ہے۔میں کچھ دیر کے لئے سبز گنبد پہ نظریں جمائے دیکھتا رہا اور پھر آخری بار سنہری جالیوں پہ کھڑے ہو کر درود و سلام پڑھنے کے لئے آگے بڑھ گیا۔میں نے کئی لمحات وہیں پہ کھڑے بیتا دیئے۔اس وقت میرا جی چاہا اس جدائی پہ دھاڑیں مار مار روئوں آنسو بہائوں مگر اس وقت جو دل کی حالت تھی وہ ظاہری طور پر کہاں نظر آ رہی تھی۔میری آنکھوں سے آنسو جاری تھی اور میں دل میں درد لئے مسجد نبوی سے روانہ ہوا۔میری آنکھیں مسلسل بہہ رہی تھیں۔میں بڑی مشکل سے بھاری بھاری قدم اٹھاتا بس میں سوار ہوا۔تھوڑی دیر میں ہی بس جدہ ائیر پورٹ کے لئے چل پڑی۔آخری بار میری نگاہوں کے سامنے سبز گنبد تھا اور میری زبان پہ درود و سلام جاری تھا۔
ازقلم/اویس
(ختم شد)