جیسے اسرائیل اس روئے زمین پر اپنا وجود رکھتا ہے بلکل ویسے ہی فلسطین بھی ایک ایسی حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا مگر اسرائیل اپنی بے مقصد اور گھنائونی اجارہ داری کو قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور فلسطین کی حقیقت کو ماننے سے انکاری ہے جو آج کی دنیا میں کم ازکم ممکن نہیں ہے اور عالمی امن کا دعویدار امریکہ اسکا نا صرف حمایتی ہے بلکے یورپی یونین جیسے انسانی حقوق کے علمبردار ممالک بھی اسکی حمایت کرتے دیکھائی دیتے ہیں اور یہی دوہرے معیار اسرائیل کو روزانہ کی بنیاد پر فلسطینی عوام پر جبر اور ان کا قتل عام کرنے کی اجازت دیتا ہے، فلسطینی عوام کے حقوق کو پامال کر رہا ہے فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی آباد کاری امریکہ اور یورپی یونین کے دوہرے معیار کی بدولت ہے۔
اسرائیلی قابض فوج مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصی میں جارحیت اور اس کی توہین کرنے سے بھی باز نہیں آتی یہی نہیں اسرائیلی فورسز فلسطینیوں کے پناہ گزینوں کے کیمپوں میں بھی ظلم ڈھانے سے باز نہیں آ رہی حالانکہ 4 جون 1967 کی بین الاقوامی قرارداد کے مطابق اسرائیل فلسطینی علاقوں میں دخل اندازی نہیں کرے گا اور فلسطين کو ایک الگ ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا مگر اسرائیل مسلسل عالمی قراردادوں کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ تمام کام کر رہا ہے جو اِنسانی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہیں اور انسانیت کی تذلیل بھی مگر عالمی قوتیں یہ سارا کھیل چپ چاپ دیکھ رہی ہیں اور خطے میں فلسطینی عوام کے جانوں اور حقوق کی پامالی کا تماشہ دیکھ رہی ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب سمیت تمام مسلم ممالک اسلامی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے دو ریاستی منصوبے کے حل کی حمایت کرتے چلے آرہے ہیں جو کہ ایک مناسب حل ہے جس کے بعد فلسطینی اور اسرائیلی عوام کے درمیان تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل ہوسکتے ہیں مگر امریکہ بہادر اور اس کے یورپی یونین جیسے حواریوں کو صرف اسرائیل کے حقوق اور اس کی حمایت کرنا آتا ہے اور جو اسرائیل بندوق کی نوک پر فلسطین پر قابض ہو رہا ہے اور لوگوں کی جانوں سے کھیل رہا ہے اس سے انکاری ہے اور ایسے میں جہاں دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے اور قیام امن کرکے دنیا بھر کے لوگوں کو تحفظ دینے اور معیشت پر توجہ مرکوز ہے ایسے میں دنیا کے دو ممالک جو ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں بھارت اور اسرائیل دونوں ملکر دنیا کا امن تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
دونوں عالمی امن کے لئے ایسا خطرہ بن چکے ہیں کہ ان کو روکنا بہت ضروری ہوچکا ہے کیونکہ ایک جانب ہندوانہ سوچ انتہا پسندی کا موجب بن رہی ہے تو دوسری جانب اسرائیلی انتہا پسندی کی سوچ بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے اس لئے امریکہ اور یورپی یونین سمیت دیگر ایسے وہ ممالک جو فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتے وہ حقیقت کو سمجھتے ہوئے نا صرف فلسطین کو آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کریں بلکے اسرائیل کو بھی لگام ڈالیں اور اسے ظلم و ستم اور اجارہ داری جیسی سوچ سے نکالیں تاکہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہوسکے اور لگتے ہاتھ بھارت کے جنگی جنون کا بھی خاتمہ ممکن بناتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کروائیں تاکہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی بلند و بالا عمارت کی کچھ لاج رہ سکے اور اس کے انسانی حقوق کے چارٹرڈ کو تحفظ ملے سکے وگرنہ عالمی امن کے دعوے سے دستبردار ہوجائیں۔