ایک صحافی کی غیرجانبداری اس کی رپورٹنگ سے ظاہر ہوتی ہے اسی اصول کے تحت ایک جج کی غیر جانبداری کا اندازہ اس کے انصاف کی بنیاد پرعدالتی فیصلوں سے کیا جاتا ہے ورنہ ایک صحافی چاہے خود کتنے ہی غیر جانبدار ہونے کے دعوے کرے، اسے جانچنے کا پیمانہ صحافی کا کام ہی ٹھہرتا ہے اسی طرح ایک جج کو جانچنے کا پیمانہ بھی واضح ہے کہ اس کے فیصلے بولتے ہیں۔
اس وقت وطن عزیز کی سپریم کورٹ کی نشست پر نئے بیٹھنے والے منصف اعلیٰ کی خدمت عالیہ میں یہ چند گزارشات پیش کرنا ہیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو مختصر سا وقت اس عہدہ جلیلہ پر فائز رہنے کا نصیب ہوا ہے اس کو اپنے منصفانہ فیصلے جات سے تاریخی بنا کر جائیں کہ پاکستان کی تاریخ میں سنہری باب کا اضافہ ہو اور عدلیہ کی شان میں ہمارے جیسے پاکستانی صحافیوں کی قلم کی نوک سے ٹپکنے والی بوند بوند سیاہی اپ کی تحسین رہتی دنیا تک کرتی رہے ۔
جناب چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے لیے سب سے بڑا اور فوری چیلنج یہ ہے کہ وہ ملکی تاریخ کا سب سے اہم سیاسی کیس سابق وزیر اعظم چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کیس ہے اس بابت چیف جسٹس جو رویہ اختیار کریں گے بنیادی طور پر یہی کیس ایک ٹیسٹ کیس ثابت ہوگا اگر اس کیس پر چیف جسٹس نے حق و انصاف کے مروجہ اصولوں، آئین و قانون کے مطابق فیصلے صادر کردیئے تو انصاف کا بول بالا ہوگا اور ملک میں بحران اور ہیجان کی کیفیت ختم ہوجائے گی اور عام انتخابات کا کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت سے ملک میں استحکام آئے گا جس سے معاشی طور پر مثبت نتائج برآمد ہونگے۔
اگر چیف جسٹس9 مئی کے واقعات کے اصل کرداروں کو سامنے لے آتے ہیں اور غیرجانبداری سے واقعات میں ملوث اصل کرداروں اور پس پردہ سازش کرنے والوں اس کی منصوبہ بندی کرنے اور اس سانحے کی روک تھام نہ کرنے والوں کو بے نقاب کرلیتے ہیں اور سچ اور جھوٹ کو سامنے لے آتے ہیں تو عمران خان، اور پی ٹی آئی کے جو ہزاروں رہنما اور کارکن قیدی بنا لیے گئے ہیں جن کو جبری طور پر گھروں سے غائب کر دیا گیا ہے وہ ان لوگوں کو انصاف دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ایسا اگر مجوزہ انتخابات سے پہلے کر دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں عمران خان اور ان کی جماعت کے لوگ بھی آزادی سے انتخابات میں حصہ لے سکیں تب تو واقعی چیف جسٹس تاریخ میں امر ہو سکتے ہیں۔
اس وقت ملک کے اندر اور بیرون ملک عام تاثر یہی ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کے لوگوں کے خلاف تمام کیس سیاسی بنیادوں پر قائم کئے گئے ہیں کہتے ہیں کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو، اپوزیشن جماعتوں، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے سیاسی مخالفین اور ناقدین کی مخالفت کو خاطر میں لائے بغیر دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کا کیوں بیانیہ عوام الناس میں مقبول سے مقبول ترین ہوتا جارہا ہے ۔
جناب چیف جسٹس کے پیش نظر یہ حقیقت بھی رہنی چاہیے کہ بظاہر ہر طرح کے ریاستی جبر و تشدد کے باوجود نہ صرف یہ کہ عمران خان کی مقبولیت کو گھٹایا نہیں جاسکا بلکہ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے،دوسرا میاں نواز شریف کو جس طرح ملک کی اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے دی گئی سزا ئوں کے باوجود جس طرح کھلی چھٹی دے دی گئی ہے اس پر اگر چیف جسٹس نے فوری طور پر ازخود نوٹس نہ لیا تو بھی انصاف پر سے لوگوں کو اعتماد مزید مجروح ہوگا۔
یہاں ہم بطور صحافی بھی چیف جسٹس کی توجہ ملک کے اہل صحافت کے ساتھ جاری صورتحال کی طرف بھی دلانا چاہتے ہیں،ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی سرزمین کو صحافیوں کے لیے تنگ کیا جا چکا ہے جس کی ایک بڑی مثال عمران ریاض کے ساتھ پیش آنے والے نادیدہ واقعات ہیں۔آئے روز میڈیا کے بڑے بڑے اینکرز کے ٹی وی شوز بند ہو رہے ہیں اداریے اور کالم سنسرشپ کے خطرے کے باعث ڈر ڈر کر لکھے جارہے ہیں۔
جناب چیف جسٹس ہم آپ کے علم میں برطانیہ اور یورپ یا مغرب میں مستقل سکونت اختیار کرنے والے بعض پاکستانیوں کشمیریوں کے خیالات بھی منظر عام پر لانا چاہتے ہیں، یہاں پر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو آمر ضیاء الحق مرحوم کے ستائے ہوئے ہیں مگر وہ کہہ رہے ہیں کہ جتنا ظلم و جبر پاکستان میں آج ہو رہا ہے اتنا ضیائی آمریت میں بھی نہیں ہوا، ضیائی آمریت میں جمہوری نظام کی واپسی کے لیے جدوجہد کرنے کی پاداش میں پاکستان پیپلز پارٹی کے زیادہ تر مرد حضرات پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے گئے مگر اب جبکہ بظاہر ملک پر آمریت کا نظام بھی قائم نہیں ہے مگر بیرون پاکستان یہ آوازیں تسلسل سے بلند ہورہی ہیں۔
اوورسیز پاکستانیوں نے ملک اور ریاستی اداروں کے خلاف باتیں کرنا شروع کردی ہیں محب وطن پاکستانی جن کی نس نس میں پاکستان سے پیار بھرا ہوا ہے ملک کی حالت دیکھ کر نہایت مایوس ہوچکے ہیں اور تو اور پی ٹی آئی کی خواتین کے ساتھ بھی ریاستی جبر ہو رہا ہے، اور پی ٹی آئی کے کارباری شخصیات کے بزنس بند کروائے جارہے ہیں اگر یہ سچ ہے تو پھر چیف جسٹس صاحب یہ سلسلہ بند کرایا جائے اور سچ کو سامنے لایا جائے9 مئی کا واقعہ بار بار قابل مزمت ہے لیکن پاکستانیوں کے ذہن صاف کرنے کے لئے پہلے تحقیقات ضروری ہیں پھر بھلے قصور واروں کو سزا ملے۔
اللہ حامی وناصر