یہ کتاب الطاف حسن قریشی نے لکھی ہے اور اسےمرتب ایقان قریشی نے کیا اور مجھے میرے بہت ہی پیارے عزیز کامران الطاف حسن قریشی نے بھیجی ہے اس سے تبصرہ کتب نہ سمجھا جائے کیونکہ میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ میں اپنے استاد محترم اور پاکستان کے نامور دانشور صحافی الطاف حسن قریشی کے لکھے ہوئے پر کوئی تبصرہ کر سکوں یہ اصل میں داستان ہے جو انہوں نے 1967میں حج کیا اور اس کی تفصیلات بیان کی اور بعد میں 1997 میں جو آگ لگی اس میں بھی وہ حج میں موجود تھے پاکستان کے بارے میں جو لوگوں کا نقطہ نظر تھا وہ آپ اس کتاب کو پڑھ کر جان جائیں گے ،شاہ فیصل سے ان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی پاکستان کو سراہا اور پاکستان کے دو اہم لوگوں کے بارے میں 1965 کی جنگ کے بعد صدر ایوب خان اور مولانا مودودی کے بارے میں بہت اچھے الفاظ میں ذکر کیا گیا اس وقت پاکستان دنیا میں ایک طاقتور پاکستان کی حیثیت سے ابھرا تھا ہر ایک کو پاکستان سے امید تھی لیکن آج کا پاکستان کسی ورکشاپ میں کام کرنے والے ایک چھوٹو سے بھی زیادہ اہمیت نہیں رکھتا بہرحال دو ایک اہم چیزیں میں نے اس کالم میں ذکر کیا ہے پڑھیے اور سر دنھئے۔
اس وقت کے عرب مشائخ صحافی اور حج کرنے والے شاید اس دنیا میں نہیں ہیں اور کوئی ہے بھی تو پاکستان کی حالت ظاہر دیکھ کر رو دیا ہوگا
سوسنا ہوگا رو دیا ہوگا
عزیزم کامران نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کے کالم میں دو چار جگہ الطاف حسن قریشی کا نام الطاف حسین لکھ دیا ہے بس غلطی ہو گئی کہاں الطاف حسن اور کہاں الطاف حسین کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا گستاخ اکھیاں کتھے جااڑیاں
کچھ روز پہلے میں برادرم فرید احمد پراچہ کے ساتھ بات کر رہا تھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ قریشی صاحب کی نئی کتاب میں آپ کا بھی ذکر خیر ہے میں نے فوراً قریشی صاحب کے صاحبزادے کامران صاحب کو فون کیا کہ بھئی اگر ایسی کوئی بات ہے تو مجھے اس کتاب کے ان صفحات کی تصویر واٹس ایپ پر بھیج دیں تو ماشاءاللہ بڑے مذاق کا حسن والے ہیں کامران صاحب تو انہوں نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے کہ آپ کو کتاب بھیجی جائے تو میں نے کہا یہی سمجھ لیں تو دو تین روز میں وہ کتاب مل گئی ،یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ ہم جیسے لوگوں کا تذکرہ کبھی الطاف حسن قریشی کرتے ہیں اور کبھی امجد اسلام امجد اور عطا اللہ قاسمی۔
کامران صاحب اسی سلسلے میں آپ سے ایک بات کرنا چاہوں گا ہمیں پتہ چلا کہ عطاءاللہ قاسمی ،بانو قدسیہ اور اشفاق احمد مدینہ منورہ پہنچ رہے ہیں ،جدہ میں ہی ہمیں اطلاع ملی تو میں فورا ًمدینہ منورہ پہنچ گیا جمعرات کا دن تھا ڈیڑھ بجے ڈیوٹی سے فارغ ہو کر تقریباً تین چار گھنٹے کا سفر چھوٹی سی گاڑی میں کیا میں بہت تیزی سے چلا 180 کی سپیڈ بھی کہ دوست آ رہے ہیں میرے ساتھ روئف طاہر اور خالد منہاس بھی تھے ۔
ان کو ہم ویلکم کرنے جب مدینہ منورہ ایئرپورٹ پر پہنچے تو وہاں جا کر پتہ چلا عطاء الحق قاسمی کے ساتھ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ بھی ہیں ۔
تو اس بابے اور بابی کا بھی ہم نے بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا ،میری عادت ہے سیدھا سادہ سا بندہ ہوں میں دو چار مرتبہ ان کو کہا کہ آئیں ہماری گاڑی میں چلیں ہم آپ کو اپنے گھر لے چلتے ہیں میرے اپنے دوست کا گھر تھا بہت اچھا نتظام تھا ،تو ضد کرنے پر بابا جی نے فرمایا ، ’’عطا یار یہ شہرت بھی بڑی عجیب چیز ہوتی ہے کہ بندے کو بعض اوقات تکلیف میں مبتلا کرتی ہے‘‘ان کا اشارہ میری طرف تھا۔
ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم بہت بڑے معروف لوگ ہیں اور لوگ ہمیں ضد کر کے لے جاتے ہیں تو اپنا بھی گجر پن اندر سے جاگا اور میں نے کہا کہ حضرت جدہ 400 کلومیٹر دور ہے اور ہم اپنی گاڑی میں آپ کو لے جانے کے لیے آئے ہیں اور یہاں آپ کا ہم نے بندوبست کیا ہوا ہے تو ہم تو اپنے دوست عطاءالحق قاسمی کو لینے آئے تھے لیکن آپ اپنی شہرت اور اپنی مشہوری کو اپنے پاس رکھیں اور جائیں جس کے ساتھ آپ جانا چاہتے ہیں اور عطا کو بھی میں نے کہا عطاالحق بھائی آپ بھی کوئی اس طرح شہرت کے ہاتھوں مجبور ہیں تو آپ بھی رک جائیں ہم یہاں ایک رات رک کے جمعہ کی نماز پڑھ کے واپس جائیں گےخ انہوں نے کہا نہیں نہیں میں تو اپنے دوستوں کے ساتھ جاؤں گا ہمارے ساتھ ہو لیے ۔
کچھ لوگ اکٹھے ہو گئےمراد یہ ہے 20 30 لوگ اسی ہمارے دوست جہانگیر مغل صاحب کے گھر میں جسے آستانہ جہانگیریہ کہتے ہیںہم سب تو وہاں پہ پہنچ گئے وہاں ہم نے دوستوں کو اطلاع کی کہ عطااللہ قاسمی آئے ہوئے تھوڑی دیر بعد ہمیں پیغام ملا ۔
کیسی ملجگی سی روشنی ہے
یہ جیسی بھی ہے اپنی روشنی ہے
اچھا لگا مجھے ہم بھی اس وقت پاکستانیت میں ڈوب کر پی آئی اے کی مشہوری میں لگے ہوئے تھے، اللہ پاک نے ملک ایوب صاحب کو اس دنیا سے بلا لیا ہے وہ جاوید اندازہ وزیر راجہ ہاکی کے منظور الحسن یہ اتنی خوبصورت ٹیم تھی بعد میں امتیاز بھٹو بھی اس میں شامل ہوئے کہ جنہوں نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کا نام روشن کیا بہرحال بعد میں مجھے ایک شخص نے اشفاق احمد کی کتابوں کا مجموعہ تحفے میں دیا میں نے وہ تحفہ واپس کر دیا میں نے کہا کہ جو شخص شہرت میں اس حد تک آگے چلا جائے گا اس کو پوری دنیا جان رہی ہو لیکن اپنے مدینہ منورہ میں استقبال کرنے والوں کا دل توڑتا ہو تو مجھے ان کی کتابیں نہیں پڑھنی۔
لوگوں کے ساتھ بڑا رابطہ رہا الطاف حسن قریشی صاحب نے ہمیں بہت کچھ سکھایا اردو ڈائجسٹ کا نمائندہ بنایا تو ساتھ میں یہ کہا کہ اگر کسی کے خلاف کوئی چیز چھپ رہی ہو تو آپ مخالف فریق کا موقف بھی چھاپیں اور پھر اس کا فیصلہ کاری کے اوپر چھوڑ دیا جائے میں تحریک انصاف کا ایک ذمہ دار شخص ہوں لیکن لکھاری حضرات اور ادب میری پہلی ترجیح ہے اور آپ جان کر حیران ہو گئے ہیں کہ کوئی پانچ سال پہلے میرے چھوٹے بیٹے دلدار کی شادی تھی اور اس بارات کو فلیٹیز لاہور میں مجیب الرحمان شامی، ضیا شاہد صاحب نے لیڈ کیا تھا اور آج بھی لاہور میں جاؤں تو کسی اور سے نہ مل پاؤں تو میں الطاف حسن قریشی صاحب سے ضرور ملتا ہوں اور دیگر دوستوں سے بھی۔
کامران صاحب الطاف حسن قریشی کے صاحبزادے ہیں بات کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یقین کریں کہ باتوں سے پھول جھڑتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی جب دل اداس ہوتا ہے تو میں ان سے بات کرتا ہوں کتاب قافلے دل کے چلے جہاں حج کے سفر کا ،انہوں نے ذکر کیا وہاں سعودی عرب میں ان کے اعزاز میں جو استقبالیہ دیے گئے اور جن اشخاص کا ذکر کیا گیا اور جن جگہوں کا ذکر کیا گیا جدہ کا فردوس ہوٹل جدہ کا ملک سرفراز جدہ کے ملک محی الدین اور چوہدری شہباز سردار شہباد اور مسعودپوری ان لوگوں نے جو ان کی پذیرائی کی قریش صاحب نے مجھ ناچیز کا نام بھی لیا اور مدینہ کے ڈاکٹر خالد عباس اسدی صاحب ریاض کے طارق چیمہ بہت اچھی طرح جانتا ہوں میں احمد بلال محبوب جو پلڈاٹ کے چیئرمین ہیں اور بہت ساری شخصیات کا نام لیا یہ کتاب جب تک زندہ رہے گی لوگ ہمیں ضرور جانیں گے۔
بس ایک بات میں کہنا چاہوں گا کہ بڑے لوگ وہی ہوتے ہیں جو چھوٹے لوگوں کا خیال کرتے ہیں اور چھوٹوں کو یہ محسوس نہیں ہونے دیتے کہ ہم بڑے لوگ ہیں میں نے ایک دفعہ اس شخص کا کا نام اگرچہ میرا دل نہیں کرتا کہ میں لوں لیکن ضروری ہے کہ میں نام لے لوں الطاف حسن قریشی صاحب اور مجیب الرحمان شامی صاحب ہالی ڈے ان ہوٹل اسلام آباد میں مقیم تھے تیار ہو کے کسی فنکشن میں جا رہے تھے تو شامی صاحب نے اپنا جوتا پکڑ کے اس کو صاف کرنا چاہا میں نے ان کے ہاتھوں سے لے لیا اور پھر شامی صاحب نے سختی سے مجھے منع کر دیا اور میں نے کہا کہ سر یہ اعزاز مجھے دے دیں کہ میرے بچے بھی سوچیں گے کہ الطاف حسن قریشی اور شامی صاحب کے جوتے صاف کیے ہیں ،شامی صاحب نے کہا کہ یہ ہمارے لیے تو حرفت کا باعث ہوگا بڑے لوگ ایسے ہوتے ہیں مجھے آج افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے وہ تذکرہ کیا ہے اشفاق احمد کا لیکن میں مزید بڑے لوگوں سے گزارش کروں گا کہ کسی کا دل اس طرح نہیں توڑتے اور وہ بھی مدینہ منورہ میں۔