میڈیا میاں نوازشریف اور انکی جماعت پر سوال اٹھا رہا ہے کہ میاں نوازشریف انتخابی مہم کو کیوں نہیں چلا رہے اور مریم نواز ہی اکیلی کیوں جلسوں میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں اور دوسرا الیکشن مہم میں پارٹی منشور کیونکر سامنے نہیں لایا جا رہا جبکہ الیکشن محض دو ہفتوں بعد منعقد ہونے جا رہا ہے یہ سوالات نا صرف میڈیا کے ہیں بلکے عام پاکستانی کے پیش نظر بھی یہی سوال ہیں پاکستان کی تاریخ کا یہ واحد الیکشن ہوگا جس میں روایتی گہما گہمی نظر نہیں آرہی اور دیکھا جائے تو یہ گہما گہمی سیاسی لیڈران نے اجاگر کرنا ہوتی ہے شہر شہر اور گاوں گاوں گھوم کر اپنے امیدواروں کی سپورٹ کو بڑھانا ہوتا ہے اور لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنا ہوتا ہے مگر مسلم لیگ ن کی جانب سے ابھی تک ایسا کچھ بھی ہوتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا۔
مسلم لیگ ن کے سب سے بڑے مخالف عمران خان جیل میں پڑے ہیں اور انکی جماعت کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور ایک نظر سے دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کے لئے میدان خالی پڑا ہے کیا مسلم لیگ ن اس خالی میدان کا فاہدہ نہیں اٹھانا چاہتی یا مسلم لیگ ن پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی مقبولیت سے پریشان ہے یا پھر اپنی سولہ ماہ کی پی ڈی ایم حکومتی کارکردگی کی بدولت خالی میدان میں بھی اترنے سے گریزاں ہے سوال تو بہت ہیں جن میں ایک سوال میاں نوازشریف کی صحت کے حوالے سے بھی پیدا ہو رہا ہے کیا انکی صحت کے معاملات ان کو انتخابی مہم سے دور رکھے ہوئے ہیں یا پھر وہ تمام خدشات درست ثابت ہونے جا رہے ہیں کہ 8 فروری کو الیکشن نہیں ہونے جا رہا جسکی وجہ سے میاں نوازشریف شریف انتخابی مہم کا حصہ نہیں ہیں یا پھر پاکستانی سیاست کی روایتی سیاست نے ایک دم سے کروٹ بدل لی ہے کہ لوگوں کے درمیان انتخابات کو لیکر سنجیدگی ختم ہوچکی ہے۔
یہاں سوال عوام کے حوالے سے بھی اٹھتا ہے کہ کیا عوام کے اندر سوچ پائی جاتی ہے کہ الیکشن پروسس ایک ڈھونگ سے زیادہ کچھ نہیں اور ان کا پورے سسٹم سے اعتبار ختم ہوچکا ہے تو یہ حقیقت ہے کہ عوام کے اندر انتخابی عمل کو لیکر ان گنت ایسے ابہام پائے جاتے ہیں جو پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کبھی کبھار سچ نظر آتے ہیں اور لگتا ہے کہ پاکستان میں کونسی تھیوری کب پریکٹیکل بن کر سامنے آجائے کسی کو کچھ اندازہ نہیں ہو رہا ہے حالات واقعی سادہ نہیں ہیں حالات اس قدر گوں نا گوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں کہ صورت حال اعصاب شکن دیکھائی دیتی ہے عمران خان نے 2018 سے قبل میاں نوازشریف کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ میاں نوازشریف یہ اعصاب کی جنگ ہے دیکھتے ہیں یہ جنگ کون ہارتا ہے اب یہ خبر نہیں کہ میاں نوازشریف یا عمران خان اعصاب کی جنگ ہارے ہیں کہ جیتے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ عوام اس اعصاب کی جنگ کو 2013 سے جھیل رہی ہے اور اب عوام ک اعصاب جواب دے چکے ہیں۔
روزانہ تبدیل ہوتی صورتحال عوام پر کسی عذاب سے کم نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام کے اندر سیاسی لیڈران کی اہمیت کم ہوتی چلی جا رہی ہے اور دوسری جانب اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار کو لیکر بھی عوام نالاں ہے اور ایک پہلو سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا بھی ہے جہاں جھوٹ اور سچ میں تمیز ممکن نہیں رہی اور حالات ابتر ہوتے چلے جا رہے ہیں الیکشن پروسس کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ 9 مئی کے تمام کرداروں کو بھلے ہی قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں مگر انکی جماعت کے آزاد امیدواروں کو الیکشن مہم چلانے کی ہر طرح کی سیاسی اور جمہوری اقدار کے مطابق آزادی دیں اور میاں نوازشریف بھی باہر نکلیں اور شہر شہر اور نگر نگر گھوم کر اپنی جماعت کی انتخابی مہم کو آگے بڑھائیں تاہم پاکستان پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کو بلاول بھٹو زرداری زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہیں وہ اپنے جلسوں میں عوام سے وعدے بھی کر رہے ہیں اور اپنے مخالفین پر تنقید بھی کر رہے ہیں جس سے کہیں نا کہیں الیکشن کا ماحول بنتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
کراچی میں ایم کیو ایم اور خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں باپ پارٹی، قومی وطن پارٹی،عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر علاقائی جماعتیں بھی عوامی مہم میں دیکھائی نہیں دے رہیں اور ان جماعتوں کے قومی سطح کے لیڈران بھی میاں نوازشریف کی راہ اپنائے ہوئے ہیں اور جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ویسے ہی الیکشن ملتوی کرنے کے حق میں ہیں اور سینٹ میں الیکشن ملتوی کرنے کی متعدد قراردادیں منظور ہوچکی ہیں جبکہ اسکے برعکس سپریم کورٹ آف پاکستان اور الیکشن کمیشن 8 فروری کو الیکشن کروانے کی ضمانت دے رہے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ عوام کو 8 فروری کو الیکشن ملتا ہے جس کو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ناگزیر تصور کیا جا رہا ہے یا پھر جو الیکشن نا ہونے کو لیکر ابہام پائے جاتے ہیں وہ پورے ہوتے ہیں کیوں کہ یہ پاکستان ہے کچھ بھی ممکن ہے ۔۔۔۔۔۔