محمد منیر ساغر 9نومبر1959کو جہلم کے مشہور قصبہ قلعہ روہتاس میں پیدا ہوئے۔قلعہ روہتاس عالمی سطح پر تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔زمانہ قدیم میں یہ جگہ گکھر مغل اور افغان کی مسکن رہی۔1535 میں شیر شاہ سوری نے اسلامی اقدار کو بحال کرتے ہوئے اس قلعے کی بنیاد رکھی۔
محمد منیر ساغر کا تعلق منہاس راجپوت قبیلے سے تھا۔کمسن نشان حیدر راشد منہاس شہید کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔محمد منیر ساغر کے آباؤاجداد جموں کے علاقہ پر گوال سے ہجرت کر کے قلعہ روہتاس میں آباد ہوئے۔جموں کی ریاست پر گوال کا نام راجہ پرگ کی نسبت سے تھا۔اسی پرگ دیو کی اولادیں اسلام سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئی اور پگوال منہاس قبیلے کی بنیاد رکھی۔
پر گوال منہاس قبیلے کی جانشینی یا پگڑی نسل در نسل منتقل ہو کر محمد منیر ساغر تک پہنچی جو ان کے وصال کے بعد ان کی اولاد کے پاس ہے۔
محمد منیر ساغر کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا باقاعدہ شاعری 1980میں شروع کی۔1985میں آپ کا ایک کتابچہ” کلام ساغر”کے نام سے شائع ہوا۔ابتدائی زندگی میں آپ صرف مجاز پر ہی شاعری کرتے رہے۔آپ جہلم کے مشہور شاعر "جوگی جہلمی” کی شاعری سے بھی بہت متاثر تھے۔
جہلم کے نواحی شہر دینہ میں کوئی ادبی ماحول نہ تھا۔دینہ میں پہلی ادبی انجمن” شمع ادب” کی بنیاد کا سہرا بھی محمد منیر ساغر کی سر پر ہے،جس میں طاہر محمود جہلمی مرحوم ،شاہین فصیح الربانی ،ارشد جہلمی نے بھی اس انجمن کی بنیاد میں کلیدی کردار ادا کیا۔انجمن” شمع ادب "کی پہلی نشست بابر ہوٹل منگلا روڈ دینہ میں منعقد ہوئی جس کو اس وقت کی مشہور ادبی شخصیات غلام کبریا راحیل اور ریاض انور ایڈوکیٹ نے بھی بہت سراہا اور اسے جاری رکھنے کا اظہار کیا۔
2006میں محمد منیر ساغر نے حقیقی اور اسلامی شاعری لکھنے کی بھرپور کوشش کی مگر کوئی نتیجہ اخذ نہ ہوا۔بالآخر2011میں اللہ کے کرم اور محمد و ال محمد کی خصوصی نظر سے آپ حمد ،نعت اور شان اہل بیت لکھنے میں کامیاب ہوئے۔جہلم کے مشہور شاعر ریاض انور صاحب نے آپ کی شاعری کی درستگی بھی کی اور اپ کو داد بھی دی۔
پھر وہ وقت آیا کہ آپ کی لکھی ہوئی حمدیں، نعتیں قصیدے، منقبت اور مرثیے مشہور نعت خوان ذاکرین اور علماء کے لب زینت بنے۔اسی قلعہ روہتاس کی پتھریلی اور سخت جان زمین نے بہت بڑے ادبی سپوت اور شاعروں کو جنم دیا جن کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی جن میںحاجی سوار الدین شیدا مرحوم،جناب محمد دین الفت مرحوم،ڈاکٹر یاور حسین ساقی مرحوم بھی شامل ہیں۔
حاجی سوار الدین شیدا ادبی شخصیت کے علاوہ مذہبی اور سماجی طور پر بھی ایک پہچان رکھتے تھے۔قلعہ روہتاس میں میلاد النبی کے جلسے اور جلوسوں کا انعقاد 1930 میں حاجی سوار الدین شیدا نے ہی کیا۔21رمضان المبارک 2024 کو محمد منیر ساغر خالق حقیقی سے جا ملے۔
محمد منیر ساغر کی ایک کتاب جس کی ترتیب آپ نے خود اپنی زندگی میں کی جلد” آفتاب عشق ” کے نام سے شائع کی جائے گی۔
جس معدد سے لکھی میں نے کتاب عشق ہے
بن گئی روشن ستارہ آفتاب عشق ہے