موت ایک سچا مسیحا

وقت کے مقتل میں جب انسان کی سانسیں پوری ہوتی ہیں تو پھر موت بھی قصاب بن کر انسان کو اپنی آغوش میں لے کر ہمیشہ کے لئے سلا دیتی ہے۔انسان اس کائنات کے مقتل میں جتنا وقت گزار چکا ہوتا ہے،اسے خبر ہی نہیں ہوتی کہ قاتل موت اس کے سر پہ وار کرنے آ چکی ہے۔

آدھی رات سے زیادہ کا وقت بیت چکا تھا،آج پھر سے وہ شب بیداری میں تھی اور پچھلے کئی روز سے اس کی راتیں عموما ایسے ہی گزر رہی تھیں۔اس کے ہاتھ میں وہ گفٹ تھے جو اسے برتھ ڈے وش کرنے پہ اس کی طرف سے ملے تھے۔کالج کے پہلے روز سے ہی ان کی دوستی کا آغاز ہوا تو اس نے بہت خوش و حرم ہو کر اپنی بہن کے اس کے بارے بتایا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان دوستی بھی مزید پروان چڑھتی چلی گئی تھی،لیکن آج اچانک اس کے نئے روپ نے اسے ہلا ڈالا تھا اور وہ بے آواز آنسو بہا رہی تھی،اس وقت گھر کا ہر فرد سو رہا لیکن وہ اب تک جاگ رہی تھی اور شاید اسے کئی پہر تک جاگتے رہنا تھا۔اس کا درد جسمانی اعضاء میں نہیں تھا مگر وہ نفسیاتی بیمار ہو رہی تھی

"اس کی وجہ سے میری اعتبار کرنے کی حس مر گئی ہے…. مجھے لوگوں سے خوف آنے لگا ہے… میں اب کافی عرصے تک دوست نہیں بنا پاؤں گی بلکہ شاید ساری زندگی دوستوں کے بغیر رہوں گی

میں کسی سے راز نہیں کہہ سکوں گی اور اگر کہہ دوں گی تو ساری ساری رات اور دن اسی خوف میں رہوں گی کہیں وہ میرا راز نہ فاش کر دے.. کہیں وہ بھی مجھے دھوکہ نہ دے دے "…..

آہ… میں سو نہیں پاتی ہوں میرا دل بہت دکھا ہوا ہے….

اگر ساری دنیا آپ کے ساتھ دھوکہ کرے دغا دے آپکی پیٹھ میں خنجر گھونپے یہاں تک کہ آپ کی فیملی آپ کا خاندان بھی اگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچائے یا آپ کا محبوب آپ سے بےوفائی کر دے………… چاہے آپ کے ساتھ کچھ بھی ہو جائے آپ کے پاس ایک شخص ہوتا ہے جس کو آپ سب بتا سکیں.. جس سے بلا جھجھک سب کہہ سکیں.. اور وہ ہوتا ہے آپ کا "دوست”….

میں اب سوچ رہی ہوں اگر آپ کا دوست ہی آپکے ساتھ ایسے کرے آپ کو دغا دے آپ کو دھوکہ دے بیچ بازار میں آپ کو ننگے پاؤں چھوڑ دے تو آپ کس سے جا کر کہیں گے”وہ بے آواز آنسو بہا رہی تھی

وہ دکھ نہیں ہے…

وہ ناسور ہے وہ زخم ساری زندگی نہیں بھرے گا….. ساری دنیا آپ کو چھوڑ دے دوست کو نہیں چھوڑنا چاہیے…….وہ چھوڑتا ہے ناں تو لگتا ہے جیسے کسی نے بھرے بازار میں آپ کے منہ پر جوتا مارا ہو… جیسے کسی نے آپ کےدل کو مٹھی میں لے کر اتنا دبایا ہو کہ خون رسنے لگے…. جیسے کسی نے آپکے جسم کو تیز دھار آلے سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہو……

بڑی تکلیف ہوتی ہے،، بڑی تکلیف…

اللہ کسی دشمن کو بھی دوستوں کے دکھ نہ دکھائے…..

کسی سے اگر بدلہ لینا ہو تو کیا کرو؟….

اس سے اسکا دوست چھین لو… وہ خود ہی مر جائے گا

"میں تمہارے لئے جان دے سکتی ہوں،میری دوستی اور دشمنی ہمیشہ پکی ہوتی ہے”عالیہ نے کرن کے چہرے کی طرف دیکھ کر استفسار کیا

"ہاں وہ تو کالج کے پہلے روز ہی تم سے دوستی ہوئی تو مجھے سمجھ آ گئی تھی”کرن نے گرائونڈ سے گھاس کھینچتے ہوئے جواب دیا

"تو تم مانوں نا میں ہی تمہاری سب سے اچھی دوست ہوں”عالیہ کرن کا ہاتھ پکڑا تو عالیہ نے ایک نظر اس کے ہاتھ کی طرف دیکھا

"تمہیں کیا چاہئیے،سیدھی طرح بولو کہ تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے”کرن اس کا ارادہ بھانپ گئی

"تم بہت معصوم ہو کرن،تم جیسی دوست بنانا میرا ایک خواب تھا،میں پچھلے دس سال سے یہی دعا مانگتی رہی کہ کوئی ایک لڑکی ایسی ہو جس کی معصومیت اور سادگی کے بعد مجھے کسی اور دوست کی حاجت نہ رہے”عالیہ نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا

"تم شاید مکھن لگا رہی ہو،میری خوشامد کر رہی ہو،بتائو اور کتنے پیسوں کی ضرورت ہے”کرن ہنس پڑی

"دس ہزار،مجھے دس ہزار چاہئیے”عالیہ نے اپنا سر جھکایا

"یہ دس ہزار ملا کر ساٹھ ہزار ہو جائیں گے،خیر تم مجھے بہت عزیز ہو اور میرے پاس بس نو ہزار موجود ہے”کرن نے بیگ سے ہزار ہزار کے نو نوٹ اسے تھما دیئے تو مسکرا دی اور پھر سے سنجیدہ ہو گئی

"میں بالکل سیریس ہوں کرن،مجھے سچ میں تم بہت عزیز ہو۔اتنی عزیز ہو کہ جب میں ایک بہترین ڈاکٹر بنوں گی اور ساری دنیا میرے پیچھے بھاگے گی تو میں اس وقت بھی تمہیں بھول نہیں سکوں گی،میں اس وقت تمہیں اپنے ساتھ رکھوں گی،تم نہ بھی پاس ہوئی تو میرا سایہ ہمیشہ تمہارے سر پہ رہے گا”عالیہ نے پراعمتادی سے اپنی بات مکمل کی

"تمہاری پرچھائی،تمہارا سایہ اور تمہاری آغوش کا تال میل مجھے کبھی ایک جیسا دیکھائی نہیں دیا”کرن نے اسے سوالیہ نظروں دیکھا

"اس لئے کہ تمہاری معصومیت اور سادگی فقط تمہیں اس سوچ سے کبھی آگے بڑھنے نہیں دیتی کہ تم پابندیوں کا شکار ہو اور تم پہ بہت سی حدود لاگو ہیں”عالیہ نے ایک اس کی بات سن کر جواب دیا

"یہ میری بات کا جواب تو نہیں ہے،یا شاید تمہیں میری بات سمجھ میں نہیں آئی”کرن نے اپنی بات کو دوہرانا چاہا

"مجھے تمہاری بات سمجھ میں آ گئی ہے لیکن تمہیں میری بات سمجھ میں نہیں آئی”عالیہ بھی اسی کی طرز میں بولی

"ہماری دوستی کو دوسرا سال ہے،ہم دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر بہت اچھے سے سمجھا ہے،تم کبھی کبھی بہت سخت رویہ اختیار کر لیتی ہو اور تمہیں خبر بھی نہیں ہوتی،میں تمہارے اس رویے سے سہم سی جاتی ہوں”کرن نے اس کی بات سن کا اپنی بات کہی

"ہاں،مجھے غصے میں بعض اوقات کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا،اس لئے میں غصے کا اظہار کر کے تمہیں ہرٹ کر دیتی ہوں لیکن میری باتوں کو دل پہ مت لیا کرو”عالیہ نے اسے سمجھایا تو اس نے چند لمحوں کے لئے خاموشی اختیار کر لی اور پھر ذرا توقف کے بعد اس سے مخاطب ہوئی

"عالیہ،تمہیں میرے اندر کون سی بات بری لگتی ہے”وہ خاموش ہوئی تو عالیہ چند لمحوں کے لئے سوچ میں پڑ گئی

"جب تم کسی اور کلاس فیلو سے بہت ہنس کر اور میٹھے انداز میں بات کرتی ہو”اس نے کرن کو بتایا

"لیکن یہ تو بری بات نہیں ہے،بطور کلاس فیلو ہم کسی بھی دوست سے بات کر سکتے ہیں”کرن اس کی بات سن کر حیران ہوئی

"لیکن یہ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میری دوست کسی اور کی بھی ویسی اچھی دوست ہو جیسی وہ میری دوست ہے”

کرن کو اس کی منطق بہت عجیب لگی تھی لیکن وہ اس کے جواب میں کچھ بھی نہ بول سکی کیونکہ ابھی دو روز قبل ہی عالیہ نے اس کے لئے برتھ ڈے کی پارٹی ارینج کی تھی اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ عالیہ سے کوئی سوال مزید پوچھے

"یہ موبائل تمہارے بیگ کی جیب سے نکلا ہے اور تم کہتی ہو کہ تم چور نہیں ہو”پروفیسر اس پہ برس رہی تھی جب کہ وہ بے آواز آنسو بہا رہی تھی۔

"تم نے میری بات کا کیوں جواب نہیں دیا،اگر تم نے جھوٹ بولا اور جرم تسلیم نہ کیا تو میں پولیس کو بلاوا لوں گی”پروفیسر نے اس دھمکی دی

"میم،یقین کریں میں نے کوئی چوری نہیں کی،یہ کسی اور نے میرے بیگ میں رکھ دیا تھا”اس نے صفائی دی

"میم یہ فقط شکل سے ہی معصوم لگتی ہے مگر معصوم ہے نہیں،اس کی دوستی بھی ایسی لڑکی سے ہے جو ہر لحاظ سے بہت تیز ہے”مریم نے اس پہ طنز کیا کیونکہ اس کا ہی موبائل کرن کے بیگ سے نکلا تھا

"یہ سراسر الزام ہے،میم میں حلف کے لئے تیار ہوں میں نے کوئی بھی چوری نہیں کی،اگر پھر بھی آپ کو لگتا ہے کہ میں نے موبائل چرایا ہے تو مجھے کچھ وقت دیں میں اس کی قیمت ادا کروں گی،میں سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں”روتے ہوئے اب اس کی ہچکی بندھ گئی تھی تو اس کی حالت دیکھ کر سب خاموش ہو گئے

"میم،مجھے کچھ بھی ہرجانہ نہیں چاہیئے،اس نے حلف کی بات کی ہے تو میں مان لیتی ہوں کہ اس نے چوری نہیں کی اور اگر چوری کی ہوتی تو شاید یہ اپنا بیگ ساتھ لے جاتی۔اگر اس نے چوری کی ہوتی تو موبائل بھی بند کر دیتی یا پھر سائلنٹ پہ لگا دیتی”مریم نے اس کی غلطی معاف کر دی تو پروفیسر نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا اور موبائل مریم کے ہاتھ میں تھما کر وہاں سے چلی گئی۔کلاس روم میں موجود باقی لڑکیاں بھی وہاں سے ایک ایک کر کے نکل گئیں جب کہ وہ وہاں پہ اکیلی رہ گئی،وہ کرسی پہ بیٹھی بے آواز آنسو بہا رہی تھی۔اس کی آج بلا وجہ ہی انسلٹ کی تھی اور وہ کام جس کے بارے اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا آج اسی کا الزام اس پر لگا تھا۔وہ ہچکیوں میں رو رہی تھی جب عالیہ کلاس میں داخل ہوئی اور اس کے آنسو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی

"کیا ہوا ہے کرن،کیا تم ٹھیک ہو”وہ سکتے میں آگے بڑھی تو کرن نے پتھرائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا

"تم۔۔چلی جائو،تم کیسی دوست ہو جب مجھے تمہاری ضرورت تھی تو تم غائب تھی،تم یہاں سے باہر چلی گئی تھی”کرن نے اس سے شکوہ کیا لیکن عالیہ آگے بڑھ گئے اور اسے اپنے ساتھ لگا کر اسے چپ کروانے لگی،کرن بھی اس کے ساتھ لگ کر بے آواز رو رہی تھی۔

"انہوں نے مجھ پہ چوری کا الزام لگایا ہے،عالیہ میں چور نہیں ہوں،میں نے بالکل بھی چوری نہیں کی”وہ بولی تو عالیہ نے اس کے آنسو صاف کئے

"مجھے یقین ہے کہ تم کبھی چور نہیں ہو سکتی اور۔۔۔۔۔۔۔”اس کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی جب مریم اپنے ساتھ چند لڑکیوں کو لئے داخل ہوئی اور آتے ہی اس نے ایک زور دار تھپڑ عالیہ کو رسید کیا

"انتہائی گھٹیا ترین لڑکی ہو،کیا ملا ہے تمہیں،یہ سب کر کے تمہیں ذرا سی بھی شرم نہیں آئی”مریم نے عالیہ کو گریبان سے پکڑا

"کیا ہوا ہے،کیا کیا ہے اس نے”کرن نے مریم کا ہاتھ پکڑا

"جو چوری تم نے کی ہے،وہ دراصل اس نے کی ہے،اسی نے ہی تمہارے بیگ میں موبائل رکھا تھا اور خود موقع سے فرار ہو گئی”مریم کے الفاظ نے اس پہ بم پھوڑ دیا،وہ گرتے گرتے کرسی پہ بیٹھی

"کیا کسی کی معصومیت کو داغ دار کرتے اور اس پہ الزام لگاتے تمہیں شرم نہیں آتی”مریم اس پہ غرائی جب کہ عالیہ سر جھکائے خاموش رہی

"میں۔۔۔۔۔میں۔بس تم سے یہی سوال کرتی ہوں،کیوں،تم نے یہ سب میرے ساتھ کیوں کیا ہے”کرن نے انتہائی کرب کے عالم میں اسے دیکھا

"کیونکہ اس نے مجھے کہا تھا کہ میں تم سے دور رہوں،تم سے دوستی نہ کروں،اس نے مجھ سے کئی بار لڑائی بھی کی تھی لیکن میں نے اس کی بات نہیں مانی اور نہ ہی تمہیں بتایا،میں نے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھا ہے جب یہ تمہارے بیگ میں موبائل رکھ رہی تھی۔کرن،میں نے تمہیں اس سے باز رہنے کی نصیحت کی تھی لیکن تمہیں اس پہ اندھا یقین تھا اور اب اس یقین کا انجام دیکھ لو،اس نے تمہارا یقین توڑ دیا”مریم کے ساتھ ہی اس کی ایک کلاس فیلو صدف کھڑی تھی جس نے مزید انکشافات کر کے عالیہ کے راز کھولے

"کاش،میں یہ راز افشاں ہونے سے پہلے مر جاتی”کرن کا جی چاہا کہ وہ چیخے لیکن وہ چیخ نہ سکی اور پھر اپنا بیگ اٹھائے کلاس روم سے باہر نکل آئی۔اس کا رخ اب گھر کی طرف تھا لیکن اس کی حالت بہت خراب ہو رہی تھی۔وہ الجھی ہوئی تھی،اس کی ذات ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی اور آنکھوں میں مسلسل آنسو تھے،وہ اسی حالت میں گھر پہنچی اور خود کو ایک کمرے میں بند کر لیا،اس کی مما نے بارہا دروازہ کھٹکٹایا اور اس سے کھانے کا پوچھا لیکن اس نے طبیعت خراب کا بہانہ بنا کھانا کھانے سے انکار کر دیا

اس کے سالانہ پیپرز بہت قریب تھی،لیکن وہ پچھلے ایک ماہ سے کالج نہیں گئی تھی۔آج بھی آدھی رات سے زیادہ کا وقت بیت چکا تھا لیکن اسے نیند نہیں آئی تھی۔پچھلے کئی ہفتوں سے اس کا درد یونہی مسلسل بڑھ رہا تھا۔وہ اس اذیت سے نجات کے لئے موت مانگتی رہتی لیکن اس کی اذیت کم ہوئی اور نہ ہی اسے موت آئی۔اس کے ہاتھ میں عالیہ کے دیئے گئے برتھ ڈے گفٹس تھے جنہیں دیکھ کر اسے رونا آ رہا تھا۔وہ اٹھ کھڑکی کے کواڑ میں کھڑی ہو گئی۔کھڑکی باہر کا موسم شدید بارش کی وجہ سے سرد ہو چکا تھا اور بارش اب بھی جاری تھی،وقفے وقفے سے آسمانی بجلی چمکتی اور بادل گرجتے لیکن اس کی ذات میں اتنی دراڑیں پڑ چکی تھیں کہ اسے بادل کی گرج چمک کا کوئی خوف نہیں تھا اور نہ ہی وہ بجلی چمک سے چونک رہی تھی،وہ اسی حالت میں کھڑی،خود سے جنگ میں مبتلا تھی جب ہی اسے اپنی سانس پھولتی ہوئی محسوس ہوئی،آس پاس موجود ہر چیز اسے گھومتی ہوئی نظر آئے۔اسے چکر آ رہے تھے۔اس نے چند قدم آگے بڑھا کر پانی گلاس میں انڈیلا اور پانی پینے لگی لیکن گلاس اس کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا اور وہ فرش پہ بے ہوش ہو کر گر پڑی۔آخری بار اس کی نظر اپنے ہاتھ سے بہتے ہوئے خون پہ پڑی جو شیشہ لگنے کے باعث زخمی ہو چکا تھا۔

اسے ہسپتال میں ایڈمٹ ہوئے آج چھٹا روز تھا،مسلسل تکلیف اور اذیت میں رہنے کے باعث اسے شدید نروس بریک ڈائون ہو گیا تھا اور وہ بے ہوش ہو گئی تھی اور ابھی تک بھی اسے ہوش نہیں آیا تھا۔ڈاکٹرز نے اس کے ہوش میں آنے کی امید چھوڑ دی تھی۔وہ ہسپتال کے بیڈ پہ بے سدھ پڑی وینٹی لیٹر کے زیر اثر سانس لے رہی تھی ہاسپٹل میں کچھ فاصلے ہئ پہ اس کے ماں باپ کھڑے رو رہے تھے۔ایک کونے میں اس کا بھائی زمین پہ بیٹھا اشک بہا رہا اور بڑی بہن گود میں اپنے بیٹے کو اٹھائے مسلسل اس کا نام پکار رہی تھی،اس کا چہرہ بھی بھیگ چکا تھا لیکن وہ تھی کہ جیسے مردہ ہو چکی ہے۔دیار غیر میں مقیم ایک بھائی ہر روز ویڈیو کال کر کے اس کی حالت دیکھتا اور پھر آنسو بہاتا ہوا فون بند کر دیتا۔اسے وینٹیلیٹر پہ مصنوعی سانسیں دی جا رہیں تھی لیکن اس کی طرف سے کسی قسم کی کوئی حرکت یا جنبش نہیں ہوئی تھی۔ماں باپ اور بہن بھائی کے مسلسل آنسو بھی اس کی اکھڑتی ہوئی سانسیں کو بحال نہیں کر پا رہے تھے،شاید اس کا وقت اجل بہت قریب آ چکا تھا،اسے اب ابدی نیند سونا تھا۔وینٹی لیٹر کے ذریعہ سے سانس لیتے اچانک اس کے دل کی دھڑکن کم ہونے لگی،نرس نے اس کی یہ حالت دیکھی تو وہ ڈاکٹرز کی طرف دوڑی اور جلد ہی ڈاکٹرز کی پوری ٹیم اس کے ارد گرد جمع ہو گئی۔مسلسل آدھے گھنٹے کی کوشش کے بعد اس کا وینٹی لیٹر ہٹا دیا گیا،ڈاکٹر نے ایک نظر اس کے باپ کی طرف دیکھا اور پھر آگے بڑھ کر اس نے کرن کے باپ کا کندھا تھپتھپایا اور "ایم سوری” کے الفاظ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔اس کے خاندان پہ اس کی موت سے قیامت برپا ہو گئی،بہن اس کے شانے پہ سر رکھ کر بلک بلک کر رونے لگی جب کہ والدہ کا سر اس کے بھائی کے کندھے پہ تھا،اس بابا کچھ فاصلے پہ کھڑے تھے،ان کی آنکھوں سے آنسو نہیں نکل رہے تھے کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ شاید ان کی روح بھی ان کی عزیز بیٹی کے ساتھ نکل گئی ہے۔وہ سب رو رہے تھے جب ہی عالیہ نے روم میں قدم رکھا،اس کی نظر جیسے ہی بے جان پڑی کرن پہ پڑی تو وہ سانس نہ لے سکی۔اس کا جی چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے،وہ کرن سے معافی مانگنے اس کے گھر گئی تھی لیکن گھر سے معلوم ہوا کہ وہ طبیعت کی خرابی کے باعث ہسپتال میں داخل ہے اور جب وہ ہسپتال پہنچی تو اسے کیا ملا،فقط کرن کا ایک بے جان وجود،عالیہ ہار گئی تھی،دوستی میں دھوکہ کھانے کے بعد کرن نے اپنی سچائی ثابت کر دی تھی لیکن عالیہ کی دھوکے بازی نے اسے مجرم بنا دیا،وہ مجرم جو کٹہرے میں کھڑا ہو اور اس کی اذیت کم کرنے کے لئے اسے ہر روز موت کی سزا دینے کا حکم سنایا جائے لیکن پھر اس پہ عمل درآمد نہ کر کے اس کی اذیت کو بڑھا دیا جائے،کرن کی دعا قبول ہو چکی تھی اور اب وہ مر چکی تھی،وہ اپنی جیت پہ دور کھڑی مسکرا رہی تھی۔

ازقلم/اویس

موت ایک سچا مسیحا
Comments (0)
Add Comment