ملی غیرت و حمیت اور حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ تعالی علیہ

آئینِ جوانمرداں، حق گوئی و بےباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی

علامہ محمد اقبال علی رحمہ ہمارا ملی اثاثہ ہیں اور وہ ملنی تعمیر جدید کے پرستار ہیں ان کے افکار و کردار کا سب سے بڑا موثر جاندار موضوع ملی غیرت اور ملی حمیت کی تعمیر ہے اور وہ ملت اسلامیہ کی نشاط ثانیہ کی اس ترتیب نو کو اسی بنا پر قائم کرتے ہیں کہ

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا

املت اور ملت کے عمومی تصور کے لیے وہ غیرت اور حمیت کو ایک دوسرے کا لازم جز (جزو لاینفک) جانتے ہیں اور وہ ایک جگہ غیرت تیمور کو استعارہ استعمال کرتے ہیں

مگر یہ راز آخر کھُل گیا سارے زمانے پر
حِمیّت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے

اور اسی ملی اور قومی غیرت و حمیت کی اساس اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

تُو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جُوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تُند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صَنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز! گرمیِ محفل نہ کر قبول
صُبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جِبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دِل نہ کر قبول
باطل دُوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شِرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول!

اور پھر دور حاضر کی مادیت کو جانچتے ہوئے بھانپتے ہوئے حضرت علامہ محمد اقبال ال رحمہ فرماتے ہیں کہ

چھوڑ یورپ کے لیے رقصِ بدن کے خم و پیچ
رُوح کے رقص میں ہے ضربِ کِلیم اللّٰہی!

اس لیے کہ فرماتے ہیں

مے خانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر

مفکر اسلام۔ مصور پاکستان علامہ محمد اقبال غیرت و حمیت کی کشید فقر (استغنا) سے کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ اس باب میں حضرت امام مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں

حاضِر ہُوا میں شیخِ مجدّدؒ کی لحَد پر
وہ خاک کہِ ہے زیرِ فلک مطلعِ انوار
اس خاک کے ذرّوں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار
گردن نہ جھُکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار
وہ ہِند میں سرمایۂ ملّت کا نِگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

اور حضرت علامہ اقبال اعلی رحمہ اسی غیرت کی بنا وہ کیسے قائم فرماتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ

خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل
عذاب دانش حاضر سے با خبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
فریب خوردۂ منزل ہے کارواں ورنہ
زیادہ راحت منزل سے ہے نشاط رحیل
نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثال تیغ اصیل

اور پھر فرماتے ہیں کہ

مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں
کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل
اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو
ترے لیے ہے مرا شعلۂ نوا قندیل
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
اور وہ پھر حضرت علامہ محمد اقبال بیان کرتے ہیں اس کی بنا کے
ضمیرِ کُن فکاں غیر از تو کس نیست
نشانِ بے نشاں غیر از تو کس نیست
قدم بیباک تر نہ در رہِ زیست
بہ پہنائے جہاں غیر از تو کس نیست

تخلیق کا بھید تیرے سوا کوئی نہیں ہے (خدا نے جب کائنات پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے کہا کن (ہو جا) فیکون (وہ ہو گئی) وجود میں آ گئی)۔ بے نشان کا نشان تیرے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ زندگی کے راستے میں اور زیادہ بے جھجھک قدم رکھ۔ کائنات کی وسعت میں بس تو ہے اور کوئی نہیں (اس کائنات میں تیرے سوا اور کوئی ہستی موجود نہیں ہے)

حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں

اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زِندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے، ضمیر کُن فکاں ہے زندگی

اور وہ پھر مغرب کی چیرہ دستی کو بیان فرماتے ہیں کہ

دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا

اور حضرت علامہ اقبال علیہ الرحمہ اپنے عہد کے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اپ ان نزاکتوں کا ادراک کرتے ہوئے قومی اور ملی تعمیر کے لیے ملی غیرت اور حمیت کی تعمیر کے لیے اپنی رہنمائی سے کچھ اس طرح نوازتے ہیں کہ

اے انفُس و آفاق میں پیدا ترے آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تِری ذات
میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغّیر تھے خرد کے نظریّات
محرم نہیں فطرت کے سرودِ اَزلی سے
بِینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات

اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پُوچھوں
حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات
جب تک میں جِیا خیمۂ افلاک کے نیچے
کانٹے کی طرح دل میں کھٹکتی رہی یہ بات
گفتار کے اسلوب پہ قابُو نہیں رہتا
جب رُوح کے اندر متلاطم ہوں خیالات
وہ کون سا آدم ہے کہ تُو جس کا ہے معبود
وہ آدمِ خاکی کہ جو ہے زیرِ سماوات؟
مشرق کے خداوند سفیدانِ فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فِلِزّات
یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہُنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظُلمات

رعنائیِ تعمیر میں، رونق میں، صفا میں
گِرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے
سُود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ عِلم، یہ حِکمت، یہ تدبُّر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہُو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بے کاری و عُریانی و مے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مَدنِیّت کے فتوحات
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حد اُس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات
آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر
تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات
میخانے کی بُنیاد میں آیا ہے تزَلزُل
بیٹھے ہیں اسی فکر میں پِیرانِ خرابات
چہروں پہ جو سُرخی نظر آتی ہے سرِ شام
یا غازہ ہے یا ساغر و مِینا کی کرامات
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈُوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دُنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات!

اور اس لیے حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ

یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
خودی کا سِرِّ نہاں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
خودی ہے تیغ، فَساں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
صنم کدہ ہے جہاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
کِیا ہے تُو نے متاعِ غرور کا سودا
فریب سُود و زیاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وہم و گُماں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ

اور حضرت علامہ اقبال اعلی رحمہ اس کا حل بیان فرماتے ہیں کہ

اپنی مِلّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رُسولِ ہاشمی
اُن کی جمعیّت کا ہے مُلک و نسَب پر انحصار
قوّتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیّت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھُوٹا تو جمعیّت کہاں
اور جمعیّت ہوئی رُخصت تو مِلّت بھی گئی

اور غیرت ملی اور قومی حمیت کے لیے وہ غلامی سے ازادی کے لیے اس انداز میں سرشاری کے ساتھ قوم کو ابھارتے ہیں کہ

اُٹھّو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمَرا کے در و دیوار ہِلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہُو سوزِ یقیں سے
کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سُلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کُہَن تم کو نظر آئے، مِٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسرّ نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پِیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو

حضرت علامہ محمد اقبالعلامہ اقبالعلامہ محمد اقبالملی غیرت و حمیت
Comments (0)
Add Comment