تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ہم تاریخ کا کوئی سبق یاد نہیں رکھتے۔
ہر چیز کا ایک دور ہوتا ہے۔ اب کی دقیانوسیت کبھی کا راسخ ایمان ہوا کرتی تھی اور اب کی ایمانیات کبھی متروک ہو جائیں گی۔ کیونکہ تغیر و تبدل ہر شے پر اثر انداز ہوتا ہے خواہ وہ سماج ہو، مذہب ہو یا ریاست۔
بھارت کی کوک سے جنم لینے والے پاکستان کی بنیادیں سیکولر خطوط پر استوار کی گئی تھی کیونکہ پہلے دن سے ہی پاکستان میں برطانوی جمہوریت اور آئین کو نافذ کیا گیا نہ کہ شریعت کا ریاستی نظام۔مذہبی پیشواؤں میں سے کوئی بھی الگ ریاست کے بننے کا حامی نہیں تھا سب اپنے اپنے خطبوں میں جناح کو انگریزوں ہرکارا گردانتے اور ہند کی تقسیم کو مسلمانوں کی تقسیم سے جوڑ کر لوگوں کو جذباتی کرتے۔
ابوالکلام آزاد نے اس میں بڑا نام کمایا، مگر پاکستان کے بنتے ہی ملائیت نے پاکستان کو شیر مادر سمجھ کر حق جتایا۔ جناح کے پاس چند علماء اکھٹے ہو کر آئے اور مشورہ دیا کہ پاکستان کی بنیادیں شریعت پر رکھی جائیں تو جناح نے صاف انکار کیا اور کہا کہ پھر آپ لوگ کہیں گے کہ ہمیں اقتدار کی باگیں پکڑا دیں کیونکہ ہم شریعت کے عالم ہیں۔
پاکستان کی بنیاد چونکہ دو قومی نظریہ پر تھی جس کے اندر ہی انسانی تقسیم کا جوہر موجود تھا تو جناح چاہتے یا نہ چاہتے اسے مذہبی انتہا پسندی کی طرف جانا ہی تھا۔
پاکستان کو قائد اعظم کی رحلت کے فوری بعد ہی مذہبی شدت پسندی نے غلبہ پانا شروع کر دیا اور آئین میں پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ کر دیا گیا اور شق رکھی گئی کہ صدر ہمیشہ مسلمان ہونا لازمی ہے دوسری بار آئین بنا تو وزیراعظم کا مسلمان ہونا ضروری ہو گیا یعنی میرٹ کو نظر انداز کیا گیا اور مذہبی بنیادوں پر اصول متعین کئے گئے یہ غلبے کی نفسیات تھی کہ اس سے مسلمان ہند میں اپنی شائد کمتری کا بدلہ لینا چاہتے تھے ۔
اب رفتہ رفتہ یہ چیزیں حکومتی تمام اعلیٰ عہدوں پر اطلاق کرنے کے ساتھ ساتھ اب مشورہ دیا جا رہا ہے کہ نکاح اور حج سے قبل بھی ختم نبوت پر ایمان کا سرٹیفکیٹ لیا جانا ضروری ہے اسلامائزیشن کا یہ عمل جنرل ضیاء کے دور میں اپنی انتہا کو اس وقت پہنچا جب امریکہ کو افغان جنگ میں ہمارے مفت کے جنگجو چاہئیں تھے تو مدارس کو طاقت دی گئی اور سکول تک کے سلیبس میں جنگی سورتیں احزاب اور انفال کو بمعہ ترجمہ پڑھایا جانے لگا۔
اس سب کے دوران بھارت نے اپنی بنیادیں سیکولرزم پر رکھی اور آج وہاں ہندوؤں کی تعداد زیادہ ہے مگر کسی کو بھی کوئی امتیازی سلوک جھیلنا پڑے تو وہ ریاست سے اس کے سیکولرازم کی دوہائی دیتے ہیں یہاں تک کہ ہندوستان کے علماء دیوبند بھی سیکولرازم کی خیر چاہتے ہیں۔ اس سے بنیادی حقوق کو افزائش میں ماحول ملا اب آزادی رائے جیسے نایاب حق کو ہی دیکھیں وہ لوگ خدا پر مقدمہ کرنے جیسے عنوان پر "او مائے گوڈ” جیسی فلمیں بنا کر نشر کر چکے ہیں۔ جس سے ان کے ہاں ریاستی سطح پر وسیع النظری دیکھنے کو ملتی ہے اور ہمارے ہاں "زندگی تماشا”جیسی فلم جس میں صرف ملائیت کے سماجی کردار پر بحث کی گئی تھی،کو خدا کی توہین گردان کر سینسر کر دیا گیا۔
اب سب کا اثر کیا پڑا؟ بھارت کی کرنسی آج ہم سے ساڑھے تین گنا سٹرونگ ہو گئی یعنی ان کا ایک روپے ہمارے ہاں ساڑھے تین روپے بن جاتے ہیں۔ گوگل، ایمازون اور پے پال جیسی کمپنیاں بھارت کے ساتھ خوش ہو کر کام کرتی ہیں۔ گلف عربی ممالک میں بھارتی مزدوروں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے کیونکہ جتنے پیسے وہاں سے وہ کماتے ہیں انیس بیس کے فرق سے وہ اب بھارت میں بھی کما لیتے ہیں۔
ہمیں اب مسئلے کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم پر عالمی بے اعتباریاں اسی وجہ سے ہیں کہ ہم دنیا سے پیار نہیں اور ہم اسے عارضی سمجھ کر بالکل توجہ نہیں دے رہے ہمارے پولیسی میکر بھی ماضی سے کچھ سیکھ کر اس کا اطلاق نہیں کرنا چاہتے کیونکہ مذہبی انتہا پسندی ہمارے آئین اور عوام دونوں کی جڑوں تک میں سرائیت کر چکا ہے اس پر ذرا سی بات بھی کر لیں تو سر اور دھڑ کے مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔اب تو مایوسی ہونے لگی ہے کیونکہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ہم تاریخ کا کوئی سبق یاد نہیں رکھتے۔