دو قومی نظریہ اور تحریک پاکستان

قیام پاکستان کی نظریاتی اساس دو قومی نظریے پر قائم ہے۔ اور یہی وہ نقطہ تھا جس کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ نے قائداعظم کی قیادت میں مسلمانان ہند کے لیے ایک علیحدہ وطن کے حصول کے لئیے جدوجہد کی۔ مسلم لیگ کی رائے کے برعکس کانگرس ہندوستان کے تمام باشندوں کو ایک ہی قوم تصور کرتی تھی اور اس کی سیاست کا محور و مرکز انگریز سے آزادی کے بعد متحدہ قومیت کی بنیاد پر پورے ہندوستان کو ایک ملک کے طور پر قائم رکھنا تھا۔

ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی موجود ہے جو دو قومی نظریہ کو لے کر ابہام کا شکار ہے اور اس نظریے کی پر صحت پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتا ہے۔ اور خصوصا” اس نظریے کے تحت ہندوستان کی تقسیم کو فعل باطل قرار دیتا ہے۔ اس مکتبہ فکر کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان کئی صدیوں سے ہندوستان میں امن و آشتی سے اکٹھے زندگی بسر کر رہے تھے تو پھر اچانک ہی مسلمان ایک علیحدہ قوم کیسے بن گئے اور انھیں یہ حدشہ کیوں پیدا ہو گیا کہ انگریز کے جانے کے بعد ہندو ان پر حاوی ہو کر انھیں غلام بنا لیں گے۔ اور پھر اس سوچ کے زیر تحت مسلمانوں نے اپنے لئے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کر دیا۔

میری رائے میں مسلمانوں اور ہندووں کا ایک ہزار سال تک باہمی اتفاق سے کسی مسلسل بڑی چپقلش کے بغیر اکٹھے زندگی بسر کرنا اس بات کی گارنٹی نہیں تھی کہ وہ اگلے ایک ہزار سال تک بھی اسی طرح اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ کئی صدیوں پر محیط ہندوؤں اور مسلمانوں کے مشترکہ وجود کے حامل سماج کو وقت کے جبر نے مختلف ادوار میں ایسے حالات و واقعات سے دوچار کیا تھا جن کے اثرات نے بیسویں صدی کے آنے تک اس سماج کے حدوحال، رویوں اور مختلف مذاہب کے باہمی تعلق کی نوعیت میں اس حد تک تغیر پیدا کر دیا تھا کہ ان دو بڑی قوموں کو اپنے صدیوں پرانے تعلق کو توڑ کر اپنی راہیں جدا کرنا پڑیں۔

سب سے پہلے ہمیں ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کے تناظر میں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دو قومی نظریہ کن ارتقائی مراحل سے گزر کر پروان چڑھا۔ میری نظر میں دو قومی نظریہ ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندووں کے مشترکہ معاشرے کے قیام کے اوائل سے ہی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ اس کثیر المذاہب سماج میں مختلف قوموں کے باہمی میل جول کی بدولت ان کی معاشرتی اور مذہبی رسومات کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا ایک ناگزیر اور فطری عمل تھا۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں اور ہندووں دونوں میں اپنے اپنے مذاہب کو بیرونی ملاوٹ سے پاک رکھنے کی اہمیت کا احساس شدت سے موجود تھا۔ یہی وجہ تھی جب بھی ہندو تمدن کے غلبے کا اندیشہ پیدا ہوا جس سے اسلام کی پاکیزگی متاثر ہو سکتی تھی تو اس سے بچنے کے لئے عملی کوشسیں کی گئیں۔ اس کی ایک مثال مغل حکمرانوں کا سیاسی ضرورت کے تحت ہندومت اور اسلام کے امتزاج سے ہندوستان میں ایک مشترکہ مذہب کے تصور کو قائم کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ مغلوں کا خیال تھا کہ اسلام اور ہندومت کو ایک دوسرے میں ضم کر کے وہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جو ان کے اقتدار کو طول دینے میں معاون اور مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ مغلوں نے ہندووں اور مسلمانوں کی آپس میں شادیوں کی حوصلہ افزائی کی اور اسلام میں ہندوانہ رسم و رواج کو فروغ دیا۔ مغلوں کی شعوری کوشش کے علاوہ صدیوں کے باہمی میل جول کی بدولت بھی مسلمانوں نے کچھ ایسی ہندوانہ رسومات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تھا جو ان کی دینی تعلیمات کے سراسر خلاف تھیں۔ جب ان اقدامات سے اسلام کی اصل روح کے متاثر ہونے اور ہندوستان میں مسلمانوں کے علیحدہ تشخص کو نقصان کا خدشہ پیدا ہوا تو شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی) میدان عمل میں آئے اور مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی تاکہ وہ اپنے دین کو بیرونی آمیزیشوں سے پاک کر کے اس کی اصل اور خالص روح پر عمل پیرا ہوں اور ہندوستان میں اپنی علیحدہ شناخت برقرار رکھ سکیں۔ اس کے بعد شاہ ولی اللہ نے اس مذہبی فریضہ کو اپنی زندگی کا مقصد بنا کر جدوجہد جاری رکھی۔ اس طرح ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کی اپنی علیحدہ شناخت برقرار رکھنے کی خواہش کو زبان نصیب ہوئی۔ اور جب مؤرخ نے مسلمانان ہند کی اس فطری سوچ و فکر کو لفظوں کا پیرہن دیا تو "دو قومی نظریہ” کی اصللاح وجود پزیر ہوئی۔

وقت کے بہاؤ نے جب اس سماج کو خالات کی ستم ظریفیوں کے کڑے تجربات سے گزار کر سال 1857ء پر لا کر کھڑا کیا تو انگریزی تسلط استقبال کے لئے بانہیں پھیلائے کھڑا تھا۔ میری نظر میں یہ انتہائی اہم دور تھا جب مسلمان اور ہندو دونوں ایک ہی آقا کی اسیری کا شکار ہو کر "محکوم” ہونے کی مساوی حیثیت احتیار کر چکے تھے۔ یہ صورتحال ہندوؤں اور مسلمانوں کے روئیوں کے اظہار کے ذریعے یہ طے کرنے کے لئیے موزوں ترین تھی کہ صدیوں کی ہمسفری کے بعد اب ان دونوں اقوام کے درمیان باہمی تعلق نے آخر کار کیا شکل اختیار کی ہے۔ 1867ء میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے یہ ثابت کر دیا کہ دونوں اقوام صدیوں کی ہمسفر تو تھیں لیکن ان میں ہمنوائی نہ تھی۔

ہوا یوں کہ 1867 میں ہندووں نے بنارس سے لسانی تحریک شروع کی جس کا مقصد اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری اور عدالتی زبان کے طور پر رائج کرنا اور عربی کی جگہ دیوناگری رسم الخط کو اپنانا تھا۔ اس لسانی تحریک نے تشدد کا رنگ اختیار کر لیا اور کئی عللاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے۔ اس دور میں سرسید احمد خان نے اس تحریک کو روکنے کے لیے مصالحتی کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ہندووں کو یہ بات سمجھانے میں ناکام رہے کہ اردو بلا تفریق مذہب ہندوستان میں بسنے والے تمام لوگوں کی زبان ہے اور ہندووں نے بھی اس زبان کی ترویج میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ یاد رہے کہ سرسید احمد خان ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے حامی اور متحدہ قومیت کے تصور کے علمبردار تھے۔ لیکن اس لسانی تحریک کے محرکات پر غور کرنے اور ہندو لیڈروں سے گفت وشنید کے نتیجے میں انھیں اپنے نظریات تبدیل کرنا پڑے۔ سرسید یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اب ہندو اور مسلمان کبھی بھی کسی معاملے میں صدق دل کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ شریک نہیں ہوں گے اور ان کے درمیان دشمنی میں دن بدن اضافہ ہو گا۔ اسی بنا پر سرسید احمد خان کو قیام پاکستان کی تناظر میں دو قومی نظریے کا بانی کہا جاتا ہے۔

یہ لسانی تحریک ہندووں کی اس سوچ کی واضح عکاسی کرتی ہے کہ چونکہ مسلمان کمزور ہو چکے ہیں لہذا اب ہمیں ہندو قومیت کی بنیاد پر اپنی عظمت رفتہ بحال کرنے کی جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے۔ ہندووں کی اس سوچ سے متحدہ قومیت کے تصور کی واضح نفی اور دو قومی نظریے کی حمایت کا اظہار ہوتا ہے۔ تو کیا میں یہاں یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ عملی صورت میں دو قومی نظریے کی بنیاد کا سہرا سرسید سے پہلے ہندووں کے سر ہونا چاہیے؟

یہاں سرسید احمد خان کی علمی خدمات کا مختصر زکر ضروری ہے ۔انھوں نے اس نازک دور میں وقت کے تقاضوں کے پیش نظر مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے کے لئے "علی گڑھ تحریک” کا آغاز کیا۔ انگریزی زبان پر عبور اور جدید تعلیم کا حصول ہی مسلمانوں کے لئے وہ واحد راستہ تھا جس کی بدولت وہ اپنی معاشی حالت کو بہتر بنا کر معاشرے میں ایک باعزت مقام حاصل کر سکتے تھے۔ لیکن سماج میں ہندووں کی عددی اکثریت اور معاشی برتری کے مقابلے میں توازن پیدا کرنے کے لئیے اس ضروری ہتھیار کی اہمیت کو نظرانداز کیا گیا۔ اس ضمن میں ہمارے علماء کے منفی کردار کا ذکر بھی ضروری ہے جنہوں نے مسلمانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ ہونے پر زور دینے کی بجائے انگریزی تعلیم کو ہی حرام قرار دے دیا۔ یاد رہے کہ سرسید احمد خان کے کچھ مذہبی عقائد ایسے تھے جن کی بنیاد پر اس دور کے علماء نے مسلمانوں کو سرسید احمد خان سے دوری اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کو سرسید کے دینی عقائد کو نظر انداز کر کے کم از کم ان کے تعلیم پر زور و تلقین پر خصوصی توجہ دینی چاہئے تھی۔ انسانی شخصیت کا ایک کمزور پہلو یہ بھی ہے پم کسی دوسرے انسان کی شخصیت کے کسی ایک منفی پہلو کو مرکز نگاہ بنا کر اس کی پوری شخصیت کا ہی بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔ پھر اس شخص کی زبان سے نکلی ہوئی کوئی بھی اچھی بات بھی سننا یا اس پر غور کرنا ہمارے لئے شجر ممنوعہ قرار پاتا ہے۔ تاریخ کے اس اہم اور نازک موڑ پر مسلمانوں کا جدید تعلیم پر توجہ نہ دینے کے دور رس نتائج برآمد ہوئے اور مسلمان جو پہلے ہی سماج کا کمزور حصہ تھے مزید پستیوں میں گرتے چلے گئے۔ دوسری طرف ہندو قوم جو پہلے ہی معاشی اور تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے ایک قدم آگے تھی جدید تعلیم سے آراستہ ہو کر اور آگے بڑھ گئی۔

1885ء میں آل انڈیا کانگرس قائم ہوئی اور 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ اور اس طرح بیسویں صدی کے آغاز سے ہندوستانیوں نے برٹش انڈیا میں انگریزوں کا وفادار رہتے ہوئے اپنے حقوق کی جدوجہد کا آغاز کی۔ مسلم لیگ کی سیاست جدوجہد کی بنیاد دو قومی نظریہ پر قائم تھی جبکہ اس کے برعکس کانگرس نے ہندوستان کے تمام باشندوں کو ایک ہی قوم تصور کرتے ہوئے متحدہ قومیت کی بنیاد پر اپنی سیاست استوار کی۔ کانگرس بلا تفریق مذہب ہندوستان کے تمام باشندوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کی دعویدار تھی۔ لیکن میرا موقف ہے کہ آزادی کی جدوجہد کے دوران کئی مواقع پر کانگرس نے ہندو بالا دستی کے اصول پر عمل پیرا ہو کر اس دعوے کی نفی کی ہے۔ اور قول و فعل کے اس تضاد بدولت مسلمانوں کا کانگرس سے اعتماد اٹھ گیا جو ہندوستان میں دو قومی نظریے کی مقبولیت کا باعث بنا۔ اپنے موقف کی دلیل کے طور پر میں جدوجہد آزادی کے چند اہم واقعات درج کر رہا ہوں۔

1916ء کو کانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان معاہدہ لکھنو کے تحت کانگرس نے مسلمانوں کے جداگانہ طریقہ انتخاب کے اصول کو تسلیم کر لیا تھا۔ لیکن 1928ء میں نہرو رپورٹ کے ذریعے اس اصول کو ماننے سے انکار کر دیا۔ مسلم اقلیت کی اس جائز خواہش اور حق کے احترام کا پاس نہ رکھنے کی یہ غلطی کانگریس کی عددی اکثریت کے بل بوتے پر ہندو غلبے کی خواہش کا برملا اظہار تھا جسے قائداعظم اور دوسرے مسلم لیڈروں نے بر وقت بھانپ لیا تھا۔ اسی وجہ سے قائداعظم کو کانگرس سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی۔

اسی دوران ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس جیسی انتہا پسند ہندو تبظیمیں بھی سرگرم عمل ہو چکی تھیں جو ہندوتوا کے نظریے پر کار فرما تھیں۔ ہندو مہا سبھا کا مقصد ان مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنانا تھا جن کے آباو اجداد نے کسی زمانے میں ہندو مذہب کو ترک کیا تھا۔ اس تنظیم نے اسلامی عقائد کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ آر ایس ایس کا مؤقف تھا کہ ہندوستان پر صرف اور صرف ہندو دھرم کے پیروکاروں کا حق ہے لہذا اس خطے کو دوسرے تمام مذاہب کے لوگوں سے پاک کر دینا چاہیے۔ ان نظریات کو ہندوؤں کے "دو قومی نظریہ” کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ان کے طرز عمل میں تشدد اور دہشتگردی کے عنصر کا حاوی ہونا مسلمانوں کے اندر اضطراری کیفیت پیدا کرنے کا باعث بنا اور مسلمانوں میں اپنی بقا اور شناخت کے خطرات میں اضافہ ہوا۔ اس بھیانک حقیقت نے مسلمانوں میں دو قومی نظریے کو تقویت بخشنے میں اہم کردار ادا کیا۔

علامہ اقبال، جن کی فکر اور فلسفہ مسلمانوں کے نشاتہ ثانیہ کے وسیع امکانات کا احاطہ کرتا ہے، ہندوستان کے سیاسی اور سماجی حالات کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندو مسلم تنازعے کا بہترین حل جو مسلمانوں کی بقا اور روشن مستبقل کا ضامن ہو سکتا ہے مسلم اکثریتی صوبوں میں ان کی اپنی مکمل بااختیار حکومتوں کے قیام میں مضمر ہے۔ 1930ء کو الہ آباد میں مسلم لیگ کے صدارتی خطبے میں پیش کیا گیا یہی تصور قیام پاکستان کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔

کانگرس اور مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد زوروشور سے جاری رہی اور 1937ء کے صوبائی انتخاب کا وقت آگیا۔ یہ انتخابات کانگرس اور مسلم لیگ کے لئیے انتہائی اہم تھے۔ ان انتخابات میں کانگرس کی تمام مسلم نشتوں پر واضح جیت نے یہ ثابت کر دیا کہ مسلم لیگ کا بیانیہ مسلمانوں میں ابھی تک مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا اور وہ کانگرس کو ہی ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت سمجھتے ہیں۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد کانگرس وزارتوں نے کچھ ایسے اقدامات کئے جس نے مسلمانوں کا جینا دوبر کر دیا۔ گائے کے ذبح کو ممنوع قرار دینا، صوبائی قانونی ساز مجالس اور سکولوں میں دن کا آغاز بندے ماترم سے کرنا جیسے قوانین مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھے۔

کانگرس وزارتوں کے ان مسلم دشمن اقدامات نے مسلمانوں پر کانگرس کا اصل چہرہ آشکار کر دیا اور اس سے مسلمانوں کو کانگرس کے مستقبل کے ارادوں کا بھی اشارہ مل گیا۔ مسلم لیگ نے صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور 1940ء کو قرارداد پاکستان پیش کی اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کی دیا۔

1939ء کو شروع ہونے والی دوسری جنگ عظیم نے تحریک آزادی ہند میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ اس جنگ نے برطانوی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی اور اب انگریز کے لیے انڈیا پر اپنا تسلط زیادہ دیر برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا تھا۔ تاج برطانیہ نے وعدہ کیا کہ جنگ کے بعد انڈیا کو آذادی دے دی جائے گی۔ 1945ء کو جنگ کا اہتمام ہوا اور 1946ء کو انڈیا میں انتخابات ہوئے۔ 1937ء کے برعکس ان انتخابات میں مسلم لیگ نے بھرپور کامیابی حاصل کی اور 90 فیصد مسلم نشستیں جیتیں۔ مسلم لیگ نے اپنی انتخابی مہم دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کے نعرے پر چلائی تھی۔ اس جیت نے کانگرس اور انگریزوں پر واضح کر دیا تھا کہ پاکستان اب انڈیا کے مسلمانوں کی دلی آرزو بن چکا ہے۔

اس سال یعنی 1946ء کو الیکشن کے بعد ہندوستان میں عبوری حکومت کے ڈھانچے کی تشکیل کی غرض سے سلطنت برطانیہ نے کیبنٹ مشن پلان پیش کیا۔ اس پلان میں دی گئی تجاویز کے مطابق انڈیا میں ایک مرکزی حکومت قائم ہو گی جس کے پاس صرف دفاع ، خارجہ اور ٹیلی کمیونیکیشن کی ذمہ داریاں ہوں گی۔ باقی تمام اختیارات صوبائی حکومتوں کو سونپ کر بڑی حد تک خودمختار کر دیا گیا تھا۔ اس پلان کی ایک اہم شق یہ بھی تھی کہ دس سال کے بعد صوبوں کو احتیار حاصل ہو گا کہ اگر وہ چاہیں تو مرکز سے علیحدگی احتیار کر سکتے ہیں۔ قائداعظم نے اس پلان کو پہلے تسلیم کر لیا لیکن کانگرس نے یہ سوچ کر تسلیم نہیں کیا اس پلان میں 10 سال بعد پاکستان بننے کی راہ موجود ہے۔ بعد میں کانگرس نے اس پلان کی شقوں میں رد و بدل کے ساتھ اسے قبول کرنے کا عندیہ دیا۔ اس پر کئی ہفتے گفت وشنید ہوتی رہی اور کوئی بھی فریق کسی ختمی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ پھر جب اچانک جب انگریز سرکار نے کانگرس کی تجویز کردہ کچھ ترامیم منظور کرکے کانگرس کو مرکز میں حکومت بنانے کا عندیہ دے دیا تو قائداعظم نے کیبنٹ مشن کا بائیکاٹ کر کے Direct Action Day کے نام سے احتجاج کی کال دے دی۔ یہ عوامی احتجاج بعد میں بنگال میں شدید فسادات کی شکل اختیار گیا اور کئی دن کے ہنگاموں کے بعد جب حالات کنٹرول سے باہر ہو گئے تو انگریز سرکار نے پاکستان کے مطالبے کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔

کانگرس اگر اس کیببنٹ مشن پلان کو فوری طور پر منظور کر لیتی تو انڈیا کی تقسیم روک سکتی تھی۔ کانگرس کے پاس مرکز میں طاقت ہونے کےسبب مواقع اور وقت موجود تھا کہ وہ صوبوں کا دس سال کے بعد بھی مرکز کا حصہ بنا رہنے کی کوئی نہ کوئی صورت نکال سکے۔

کیبنٹ مشن پلان کے نکات میں پاکستان کا زکر تک نہ ہونا اس تھیوری کو بھی غلط ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کا قیام انگریز کی ایک سازش تھی۔ البتہ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کا قیام مغرب کے مفاد میں تھا۔ خاص طور پر امریکہ جو جنگ عظیم دوئم کے بعد سپر پاور کے طور پر ابھرا تھا اسے جنوبی ایشیا میں کیمونزم کے خلاف کوئی ایسا ملک چاہئے تھا جس پر وہ آسانی سے دباؤ ڈال کر اپنا اتحادی بنا سکے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہی کہ مغرب کی یہ سوچ آخری وقت میں مسلم لیگ کے لئیے اپنا نصب العین حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔ لیکن اس کے باوجود ہم مسلم لیگ اور قائداعظم کی کئی سالوں پر محیط ان تھک کوششوں کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ کیبنٹ مشن پلان کے دور میں قائد اعظم نےحالات کی نزاکت کا صحیح ادراک کیا اور ان کے بروقت درست فیصلوں اور حکمت عملی سے کانگرس اور انگریز سرکار دباؤ کا شکار ہوئے۔

اس مضمون میں بیان کئے گئے تمام حالات اور واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کا قیام مسلمانان ہند کے مفاد میں تھا اور دو قومی نظریہ ہی قیام پاکستان کا اصل محرک ہے۔

اس سے قطع نظر کہ قیام پاکستان میں کونسے عوامل کار فرما تھے ہمارا فرض بنتا تھا کہ ہم اس نعمت خداوندی کو اس کے اصل نصب العین کے مطابق امن و سلامتی اور انسانی فلاح وبہبود کے اصولوں کا حامل ایک ایسا ملک بنا تے جہاں ہم خود اور ہماری آئندہ آنے والی نسلیں عزت و وقار سے زندگی بسر کر سکتے۔ افسوس صد افسوس کہ پاکستان کے وارثوں نے اس ذمہ داری کو یکسر نظر انداز کیا۔

دو قومی نظریہ اور تحریک پاکستان
Comments (0)
Add Comment