لندن(نمائندہ خصوصی)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جمعرات کو لندن میں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کی۔ملاقات میں بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ پاکستان پیپلز پارٹی کا وفد بھی تھا۔ وفد میں شیری رحمان، نوید قمر، قمر زمان کائرہ اور قاسم گیلانی شامل تھے۔
بلاول بھٹو زرداری نواز شریف سے ملاقات کے لیے جب حسن نواز کے دفتر پہنچے تو حسن نواز اور حسین نواز نے بلاول بھٹو اور وفد کا استقبال کیا۔ملاقات کے بعد بلاول بھٹو کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ عمران خان سے قوم کو نجات دلانا بہت ضروری تھا۔انہوں نے بدتمیزی اور غنڈہ گردی کے کلچر کو فروغ دیا تھا۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ملک کا برا حال کردیا تھا جس کو بحال کرنے میں وقت لگے گا، پونے چار سال سیاہ ترین تھے، ہر بات پر یوٹرن لیا گیا۔
انہوں نے عمران خان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ کہتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے تو خودکشی کر لوں گا،اب ہم سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہے کہ ملک کا جو نقصان ہوچکا ہے اس کی تلافی کیسے کی جائے۔نواز شریف نے کہا کہ وہ تین بار وزیراعظم منتخب ہوئے اب ان کی تمنا ہے کہ ملک کو منزل تک پہنچائیں۔انہوں نے بلاول بھٹو کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے میرے پاس آکر اچھے جذبات کا اظہار کیا ہے۔نواز شریف نے قوم سے اپیل کہ وہ ہماری کامیابی کے لیے دعا کرے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے اعلامیے کے مطابق بلاول بھٹو زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان ملاقات میں ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔بلاول بھٹو اور نواز شریف نے قومی سیاسی معاملات میں افہام و تفہیم اور اتفاق رائے سے ساتھ چلنے کے عزم کا اظہار کیا۔ملاقات سے قبل میڈیا سے مختصر گفتگو میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے اور ملک کو درپیش چیلنجز کا اس وقت مقابلہ کرسکتے ہیں جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے جو کچھ پاکستان پیپلز پارٹی سے ہوسکا وہ کریں گے۔بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کی جمہوریت کی بحالی کے لیے سابق وزیراعظم نواز شریف کی قربانیوں کی تعریف کی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جمہوریت کی بحالی میں جو کردار میاں صاحب کا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا ماضی میں جو تجربہ ہے اس کے پیش نظر دونوں پارٹیوں کو احساس ہے کہ یہ موقع ملک کے لیے کتنا اہم ہے۔