جب جنرل ضیا الحق نے ڈالروں سے بھرا ہوا سوٹ کیس جنرل اختر عبدالرحمن کے حوالے کیا

” جنرل ضیاء الحق نے میرے سیکرٹری احمد بادیب اور جنرل اختر عبدالرحمن کو یہ کہتے ہوئے جنرل اختر عبدالرحمن کے گھر بھیج دیا کہ وہاں جا کر سوٹ کیس میں لائے گئے ڈالروں کی صورت میں کیش کو گنیں۔ بھٹو کی پھانسی نے دنیا بھر میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف جذبات کو بھڑکا دیا تھا۔ ضیاءالحق نے فوراً دیکھا کہ ایک کمیونسٹ سپر پاور کے خلاف افغانوں کی مزاحمت کی حمایت کر کے وہ اپنے عمل (پھانسی) سے توجہ ہٹا لیں گے۔ اور مغرب سمیت مسلم دنیا، دونوں میں اپنے حق میں ہمدردی حاصل کر لیں گے۔ درحقیقت اخلاقی، سٹریٹجک اور سیاسی لحاظ سے یہ صریحاً ایک اتفاق تھا۔ جنرل اختر عبدالرحمن نے ریاض میں صرف دو دن گزارے اور ہم نے فوری طور پر پاکستان کی ابتدائی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ جنرل اختر کے سعودی عرب سے جانے کے چند دن بعد ، ہم نے احمد بادیب (اپنے سیکرٹری) کے ہاتھ ایک سوٹ کیس میں 20 لاکھ امریکی ڈالر کیش کی صورت میں اسلام آباد بھیج دیے۔ یہ دو ملین ڈالر، سو سو ڈالر کے بیس ہزار نوٹوں پر مشتمل تھے۔ اور احمد نے اپنی کسی قیمتی چیز کی طرح سعودی عرب سے پاکستان آتے ہوئے سارے راستے میں ڈالروں سے بھرے ہوئے سوٹ کیس کو اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔

یہ رقم دستی اور کیش کی صورت میں بھیجنے وجہ یہ تھی کہ شروع سے ہی ہم اور پاکستانی (اور بعد میں امریکی) نہیں چاہتے تھے کہ افغانوں کو دی جانے والی ہماری امداد کا پتہ چلے۔ اگر یہ رقم بینکنگ نیٹ ورکس اور سرکاری محکموں کے ذریعے منتقلی کی جاتی، تو یقیناً اس کا علم سوویت انٹیلی جنس کو ہو جاتا۔ اور ممکنہ طور پر پاکستان میں اس رقم کے پہنچنے کے مقام کا بھی پتہ چل جاتا۔ ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ سو ڈالر کے نوٹ مجاہدین کے دھڑوں کو پسند آئیں گے۔

میرے سیکرٹری احمد بادیب سیدھے صدر جنرل ضیاء الحق کی رہائش گاہ پر گئے، جہاں ان کی جنرل ضیاء اور جنرل اختر عبدالرحمن سے ملاقات ہوئی، جنرل ضیاء الحق نے دونوں (احمد اور جنرل اختر) کو یہ کہتے ہوئے جنرل اختر عبدالرحمن کے گھر بھیج دیا کہ وہاں جا کر لائی گئی رقم کو گنیں۔ احمد کو اس وقت تک وہاں سے نہیں جانے دیا گیا، جب تک لائی گئی رقم کی گنتی مکمل نہیں ہو گئی۔ ”

ان خیالات کا اظہار شہزادہ ترکی الفیصل آل سعود نے سعودی جنرل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ (جی آئی ڈی ) کے سربراہ کے طور پر اپنے 24 سالوں کی ایک بصیرت انگیز اور دل چسپ یادداشتوں پر مبنی کتاب ”دی افغانستان فائل“ میں کیا ہے۔ یہ کتاب ستمبر 2021 میں منظر عام پر آئی تھی۔ کتاب میں شہزادہ ترکی الفیصل کی زیادہ تر توجہ افغانستان پر رہی، جہاں وہ 1979 سے 2001 تک مرکزی شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی اس کتاب میں 1979 میں سوویت حملے اور 2001 میں امریکی جنگ کے آغاز کے درمیان سعودیوں کے کردار کے بارے میں بہت سی نئی معلومات بھی فراہم کی ہیں۔ آدھی سے زیادہ کتاب سوویت یونین کے خلاف جنگ کے لیے وقف کی گئی ہے۔

سعودی شہزادے یا رائل فیملی سے وابستہ قریبی لوگ عام طور کتابیں نہیں لکھتے۔ شہزادہ بندر بن سلطان کے بعد شہزادہ ترکی الفیصل دوسرے اہم سعودی فرد ہیں جنھوں نے یہ کتاب لکھی ہے۔ امریکی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل شہزادہ ترکی الفیصل، 24 سال، ( 1977 تا 2001 ) سعودی عرب کی انٹیلی جنس ایجنسی ”جی آئی ڈی“ کے سربراہ رہے۔ اس کے علاوہ وہ برطانیہ اور امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر بھی تعینات رہے۔ کتاب کے ٹائٹل پر 1992 ء میں کابل میں لی گئی ایک تصویر میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے ہمراہ شہزادہ ترکی الفیصل بطور سربراہ سعودی انٹیلی جنس ایجنسی ”جی آئی ڈی“ بھی موجود ہیں۔ شہزادہ ترکی الفیصل کا کہنا ہے کہ انہیں یہ کتاب لکھنے کی جانب مرحوم کنگ عبداللہ نے مائل کیا تھا۔

شہزادہ ترکی الفیصل اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں کہ ”جنوری 1980 ء کے ابتدائی دنوں میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اختر عبدالرحمن، صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کی ہدایت پر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچے۔ میں انہیں اپنے ہمراہ لے کر سیدھا اپنے چچا سعودی فرمانروا شاہ خالد اور ولی عہد شہزادہ فہد سے ملوانے لے گیا۔

شاہ خالد نے جنرل اختر عبدالرحمن سے ریاض شہر میں واقع اپنے آفیشل شاہی دیوان میں ملنے کی بجائے اپنے پرائیویٹ آفس میں ملاقات کرنے کو ترجیح دی، جو ان کے محل کے شروع میں واقع تھا۔ میرا خیال ہے کہ شاہی دیوان کے دفتر میں ملنے سے اس لیے اجتناب کیا گیا کیونکہ اس جگہ سے اب بھی ہماری بڑی تلخ یادیں وابستہ ہیں جہاں میرے والد (شاہ فیصل) کو ساڑھے چار سال پہلے قتل کر دیا گیا تھا۔ ”

کتاب میں مزید لکھا ہے کہ ”دن کے آخر میں، پھر میں نے اور جنرل اختر نے طویل بحث کی اور پھر، جو مجھے یاد ہے کہ ایک سرد شام میں، ہم نے اپنے سیکرٹری احمد بادیب کے ساتھ الخذمہ ہوٹل میں کھانا کھایا۔ میں جانتا تھا کہ اختر کی یقینی طور پر پاکستان میں شہرت اتنی اچھی نہ تھی، کیونکہ جزوی طور وہ بہت طاقتور تھے۔ لیکن مجھے وہ اچھے لگے، وہ ایک گورے چٹے، ملنسار اور خوش مزاج پٹھان اور اپنے باس ( جنرل ضیاء الحق) کے انتہائی وفادار تھے۔

جنرل ضیاء الحق کی طرف سے پیغام یہ تھا کہ پاکستان پہلے ہی متعدد افغان سیاسی جماعتوں اور گوریلا تنظیموں کی میزبانی کر رہا ہے۔ جن میں سے کچھ محمد داؤد کے زمانے میں قائم ہوئی تھیں۔ ان کا مقصد روسیوں کے خلاف جنگ میں ان گوریلا گروپوں کی مدد کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے انہیں مالی مدد کی ضرورت ہے۔

جنرل اختر عبدالرحمن نے ریاض میں صرف دو دن گزارے اور ہم نے فوری طور پر مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ جنرل اختر کے سعودی عرب سے جانے کے چند دن بعد ، ہم نے احمد بادیب (اپنے سیکرٹری) کے ہاتھ ایک سوٹ کیس میں 20 لاکھ امریکی ڈالر کیش کی صورت میں اسلام آباد بھیج دیے۔ یہ دو ملین ڈالر سو سو ڈالر کے بیس ہزار نوٹوں پر مشتمل تھے۔ اور احمد نے اپنی کسی قیمتی چیز کی طرح سارے راستے سوٹ کیس کو اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔

یہ رقم دستی اور کیش کی صورت میں بھیجنے وجہ یہ تھی کہ شروع سے ہی ہم اور پاکستانی (اور بعد میں امریکی) نہیں چاہتے تھے کہ افغانوں کو دی جانے والی ہماری امداد کا پتہ چلے۔ اگر یہ رقم بینکنگ نیٹ ورکس اور سرکاری محکموں کے ذریعے منتقلی کی جاتی، تو یقیناً اس کا علم سوویت انٹیلی جنس کو ہو جاتا تھا۔ ممکنہ طور پر پاکستان میں اس رقم کے پہنچنے کے مقام کا بھی۔ ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ 100 ڈالر کے نوٹ مجاہدین کے دھڑوں کو پسند آئیں گے۔ ”

شہزادہ ترکی الفیصل مزید لکھتے ہیں کہ ”میرے سیکرٹری احمد بادیب سیدھے صدر جنرل ضیاء الحق کی رہائش گاہ پر گئے، جہاں اس کی جنرل ضیاء اور جنرل اختر سے ملاقات ہوئی، دوران ملاقات جنرل ضیاء الحق نے دونوں (احمد اور جنرل اختر) کو یہ کہتے ہوئے جنرل اختر عبدالرحمن کے گھر بھیج دیا کہ وہاں جا کر لائی گئی رقم کو گنیں۔ اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔ احمد کو اس وقت تک وہاں سے نہیں جانے دیا گیا، جب تک لائی گئی رقم کی گنتی مکمل نہیں ہو گئی۔

2 ملین ڈالر گنتے ہوئے احمد بادیب نے محسوس کیا کہ سو سو کے بیس ہزار نوٹوں کی گنتی کرتے ہوئے جنرل اختر کے دو معاونین کافی وقت لگا رہے ہیں۔ احمد بادیب جس پرواز سے اسلام آباد پہنچے تھے، اسی فلائٹ سے وہ واپس سعودی عرب جانے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن بظاہر نوٹوں کی آہستہ روی سے کی جانے والی گنتی سے پرواز کی روانگی کا وقت نکلا جا رہا تھا۔ اس موقع پر احمد نے یہ بھی محسوس کیا کہ جنرل اختر ان کی پرواز کے وقت میں تاخیر کر رہے ہیں۔ احمد کو ائر پورٹ پر انتظار کرنے والے مسافروں پر افسوس ہوا۔ اپنے افسوس کیے جانے کا احمد نے اچھے انداز سے جنرل اختر عبدالرحمن سے ذکر کیا۔

جس پر جنرل اختر نے جواب میں کہا کہ ”آپ پریشان نہ ہوں، سبھی پاکستانی افغان جہاد کے حامی ہیں، اور اگر انہیں اس بات کا علم ہوا کہ آپ کی اور آپ کی حمایت کی وجہ سے ان کی پرواز میں تاخیر ہو رہی ہے، تو وہ خوش ہوں گے۔“ چنانچہ احمد اس رات دیر سے ریاض واپس پہنچے۔ اور پاکستانی حکومت کے پاس خرچ کرنے کے لیے 2 ملین ڈالر چھوڑ آئے۔ ”

شہزادہ ترکی لکھتے ہیں کہ ”انہیں معلوم ہے کہ رقم کا ایک حصہ ہاتھ سے چلائے جانے والے راکٹوں کے لیے ادا کیا گیا تھا، جو پاکستانی فوج کے ذخیرے سے لیے گئے تھے۔ پندرہ دن بعد میں ذاتی طور پر اپنے بھائی سعود الفیصل وزیر خارجہ کے ہمراہ پاکستان گیا۔ یہ موقع 27۔ 29 جنوری کو اسلام آباد میں تنظیم اسلامی کانفرنس کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کا تھا۔ لیکن ہم ایک دو دن پہلے جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن سے نجی ملاقات کے لیے گئے تھے۔ یہ ضیاءالحق سے میری پہلی ملاقات تھی۔ پہلی ہی ملاقات میں، میں فوری طور پر میں ان کی شکل و صورت سے متاثر ہوا، خاص طور پر ان کی چھیدنے والی سیاہ آنکھوں سے۔ انہوں نے مجھے ایک ایسے آدمی کی طرح متاثر کیا، کہ وہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے ایک پرجوش انداز میں اسے کرنے پر یقین رکھتا ہے۔“

کتاب کے مطابق جنرل اختر نے افغانستان کو سوویت یونین اور کسی حد تک بھارت کے خلاف پاکستان کی دفاعی لائن کے طور پر دیکھا۔ انہوں نے اپنے صدر سے زبردستی سفارش کی کہ پاکستان افغان مزاحمت کی پشت پناہی کرے، جو سوشلسٹ حکومت کے خلاف کچھ سالوں سے کام کر رہی تھی۔ ان کی سوچ نے اپنے باس کی سوچ کے ساتھ خوب جوڑ توڑ کیا، نہ صرف اس لیے کہ جنرل ضیاء نے اپنے فوجی تحفظات کا اظہار کیا، بلکہ اس لیے بھی کہ انہوں نے سال کے شروع میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا حکم دیا تھا۔ جنہیں اعانت قتل کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔

بھٹو کی پھانسی نے دنیا بھر میں ان کے خلاف مذمت کو بھڑکا دیا تھا، اور ضیاءالحق نے فوراً دیکھا کہ کمیونسٹ سپر پاور کے خلاف افغانوں کی مزاحمت کی حمایت کر کے وہ اپنے عمل (پھانسی) سے توجہ ہٹا لیں گے۔ اور مغرب سمیت مسلم دنیا، دونوں میں اپنے حق میں ہمدردی حاصل کر لیں گے۔ درحقیقت اخلاقی، سٹریٹجک اور سیاسی لحاظ سے یہ صریحاً ایک صاف اتفاق تھا۔

ان کے منصوبے میں پاکستان کو اسلحہ، رقم، انٹیلی جنس، تربیت، آپریشنل مشورے اور سب سے بڑھ کر شمال مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں کو ایک پناہ گاہ کے طور پر گوریلوں کی مدد کے لیے شامل کرنا تھا، کیونکہ کسی بھی گوریلا تحریک کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بہت اہم ہوتی ہے۔

شہزادہ ترکی الفیصل نے کتاب میں جنگی کوششوں میں سعودیوں کی مدد کے حوالے سے حقائق اور اعداد و شمار بھی فراہم کیے ہیں۔ جس کے مطابق ”1977 اور 1991 کے درمیان، سعودی جی آئی ڈی، آئی ایس آئی کے ذریعے کام کر رہی تھی، مجاہدین کی امداد کے لیے سعودی عرب کے 2.71 بلین ڈالر خرچ ہوئے۔ جبکہ ( سی آئی اے کے ذریعے امریکہ کا حصہ بھی سعودی عرب کے مساوی تھا)

سعودی نجی ذرائع، جس میں شاہی خاندان کے افراد، علماء اور عام شہری شامل ہیں، نے پاکستان میں مجاہدین یا لاکھوں افغان مہاجرین کو 4.5 بلین ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کی۔ جنگ کے لیے نجی شعبے کی رقم بہت اہم تھی، خاص طور پر ان سالوں میں جب رونالڈ ریگن نے 1985 میں سالانہ امداد کو 500 ملین ڈالر تک بڑھا دیا تھا۔ اور نجی فنڈ ریزنگ کے مرکز میں موجودہ سعودی شاہ سلمان تھے، جو ریاض کے گورنر تھے۔

شہزادہ ترکی کا کہنا ہے کہ ”جنگ کے دوران تقریباً 15000 سعودی اپنے طور پر خانہ جنگی اور امدادی سرگرمیوں میں مدد کے لیے پاکستان آئے۔ جنگ میں صرف مٹھی بھر ہی لڑنے گئے اور کوئی بھی جنگ میں مارا نہیں گیا۔ دلیل کے طور پر سب سے زیادہ مشہور اسامہ بن لادن تھا، جس نے ترکی کے مطابق (اور دوسرے اکاؤنٹس کے مطابق) اپنے اور عرب جنگجوؤں کے کردار کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔“

ترکی الفیصل نے مزید لکھا ہے کہ ”1988 کے آخر میں سوویت یونین کی درخواست پر انہوں نے سعودی عرب کے شہر طائف میں سوویت یونین، مجاہدین اور پاکستان کی خفیہ میٹنگ بلائی تھی۔ روس نے مجاہدین سے یہ وعدہ لیا تھا کہ افغانستان سے فوجوں کا انخلا خونی پسپائی نہیں بلکہ منظم اور پرامن انخلاء ہو گا۔ اور کسی بھی پریشانی سے پاک واپسی میں بالکل ویسے ہی ہوا۔ کتاب میں کئی اور دلچسپ واقعات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ سیاست، تاریخ اور صحافت سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

Comments (0)
Add Comment