مہنگائی اور انسانی بھیڑئے

0

سوچتی ہوں کہ آخرنہ جانے کیوں قلم آخرحالات و واقعات کوصفحہءقرطاس پر لانے سے انکاری ہو جاتا ہے قلم کی آواز تو لاخوف ہوتی ہے مگر کبھی کبھی اس آواز سے قلم بھی لرز جاتا ہے، آخر ایسی کونسی آواز ہوتی ہے انسان کو سمجھنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگتا لیکن انسان کے ساتھ ساتھ قلم بھی لرز جاتا ہے کہ آخر کہے تو کیا کہے لکھے تو کیا لکھے کس کس کے درد کا درماں بننے کےلئے الفاظ کا چناؤ کرے ۔

ملکی حالات عوام کا دکھ انسانی بھیڑیوں کی آمدورفت کس کس درد کو چھیڑے قلم اور دکھی دلوں کےلئے ہمدردی کے چند الفاظ یا پھرمستقل حل کے لوازمات پیدا کرنے کی بہتر تجاویز پیش کرے،پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حل پر آخر غوروخوض بھی ہوگایانہیں، بچے قتل ہورہے ہیں خودکش حملہ جات بے جا فائرنگ سے جانی نقصانات شروع،معیشت کی خطرناک صورتحال پر عوام جانیں دینے پر مجبور ۔

انسانی بھیڑیے جعلی پیروں کی شکل میں دندناتے پھر رہے ہیں کچھ میڈیا کی زد میں آتے ہیں اور زیادہ تعداد آزاد اپنی ناجائز حرکات و سکنات میں مصروف ہیں اندھے جاہل لوگ ان کے چنگل میں پھنسے ہوئے ان کے جنسی اور غیر اخلاقی جبر کا شکار ہیں ۔

کچھ پیر خانوں میں تومرید عورتوں بچیوں کو ان کی تعلیم و تربیت کےطور پر ان کو سمجھایا جاتا ہے کہ وہ پیر پر حلال ہوتی ہے اس سے پیدا ہونے والی اولاد بھی حلال ہوتی ہے بارہ تیرہ سال کی بچیوں کو بھی اپنی حوس کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔

فاطمہ کا کیس ہی دیکھ لیں جو میڈیا پر سرعام دکھایا جارہا ہے بیس سالہ ثنا جس کو پیر لے کر بھاگ گیا پیر خانے میں ٹھیک کرنے کےلئے رکھی گئی بے چاری ثنا ہائے۔جہاں جہاں ایسے ظلم ہو رہے ہیں ایسے تمام جعلی پیر خانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہئے جیسے امام خمینی نے فحاشی کے اڈوں کو تباہ کر دیا تھا ،ایسے جعلی پیر جو عامل بھی بنے پھرتے ہیں عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کی گھناؤنی جاہلانہ روایت کو عام کر کےعورت کے مقام کو جب اس قدر گرا کر اپنے مریدین مردوں میں پیش کرتے ہیں تو وہ مریدین اپنی بیویوں کو بھی مارنا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں ۔

مجھے ایسے بھیڑیوں کے مکروع چہروں کے لئے نفرت کا لفظ بھی چھوٹا محسوس ہوتا ہے، اللہ رحم کرے اور لوگوں کو ہدایت دے حق کی پہچان کی نظر عطا فرمائے، تاکہ وہ جو اپنی زندگیوں کے فیصلے کریں وہ درست بنیادوں پر کر سکیں ، جعلی پیر خانوں پر بات تو بہت لمبی ہو سکتی ہے،لوگوں کی آنکھیں کھولنے کی اشد ضرورت ہے ،اصل اور نقل میں فرق خود نظر آئے گا جب اندر کی آنکھ کھل جائے،

ایک طرف رضوانہ بچی پر تشدد کا کیس اور پھر آج صبح میڈیا پر ایک پرنسپل کی گھناؤنی قسم کی حرکات و سکنات کا ذکر بھی ہورہا تھا وہاں چھاپہ پڑا اور حوا کی بیٹیوں کی حرمت وہاں بھی محفوظ نہیں تھی . پہلے دور میں لوگ ٹیچنگ کے شعبے کو اور تعلیمی اداروں کو محفوظ خیال کرتے تھے کچھ عرصے سے یہ شعبہ جات بھی اکثر جگہوں پر بہت بدنام ہوتے جارہے ہیں ۔

شیطان کے یہ ساتھی کڑی سے کڑی سزا کے مستحق ہیں ، بہت سی ایسی کہانیاں ہیں جن سے پردے نہیں اٹھائے گئے ابھی وہ بھی اپنے انجام کو پہنچیں گی ،ان شااللہ۔

آتے ہیں مہنگائی کی روز بروز دلدل جو گہری سے گہری ہوتی جارہی ہے جس میں ہر خاص و عام دھنستا چلا جارہا ہے،خوردونوش کی اشیاءخریدنے سے عوام کی چیخ و پکار ،بجلی کے بلوں کو جلانے، پھاڑنے کے سڑکوں پر واقعات لوگوں کی درد سے لبریز صدائیں سن کر سماعتیں شرمندہ ہیں،یہ ہمارا پاک وطن ہے،لیکن اس نہج پر ملکی حالات کو لانے والے کون ہیں سب اپنے اپنے خیالات میڈیا پر گھروں میں تجزیہ کاروں کی زبان سے سنے جاتے ہیں ، لیکن پریشانیوں کا حل کب نکلے گا یہ کوئی پتہ نہیں،عوام کا خون پسینہ ایک ہو رہا ہے ۔

ہماری فوج دہشت گردوں کو نیست و نابود کر رہی ہے قابل تحسین ہے اسی طرح ہر برائی کا جڑ سے خاتمہ ہوگا تو ریاست مدینہ کا درست قیام عمل میں آئے گا، میرا خون کھولتا ہے، جہاں جہاں ظلم دیکھتی اور سنتی ہوں ، آواز اٹھائی جاتی ہے اور اکثر دبا بھی دی جاتی ہے جو کہ افسوس ناک صورتحال ہے ۔

میرا اپنی ریاست کے لوگوں کو یہ پیغام ہے کہ اپنی عزت نفس کو بحال رکھیں آسانیاں بانٹیں، اپنا اور دوسروں کی عزت و آبرو کا خیال رکھیں، جہاں ظلم و جبر دیکھیں یا سنیں فورا ًمیڈیا پر لائیں تاکہ اس کا سد باب کیا جاسکے ۔

اپنی عزتوں کی حفاظت کریں، آپ کی بیٹیاں، بیویاں ،بہنیں، مائیں سب رشتے قابل عزت ہیں، آپ کی عزتیں ہیں،ان کی عزتیں انسانی بھیڑیوں کے ہاتھوں پامال ہونے سے بچائیں ۔

ملکی حالات بہتر کرنے کے لئے عوام اور حکومت مل کر بھائی چارے سے حل نکالنے میں اہم کردار ادا کریں، اللہ سےرجوع کریں ،اللہ شہ رگ سے بھی قریب ہے، اس سے دوستی کریں، خود کو پہچانیں، اللہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے، اس کے پیار کی طلب میں لگیں ، اس کو یاد کریں، وہ تمہیں یاد کرے گا،جب اس کو پا لیا وہ لافانی ہے ۔

دعاگو !
انمول گوہر/ لاہور

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!