چلو اجتماعی خود کشی کرتے ہیں۔ زندگی میں اگر ایک روگ ہو اور اس کا بھی وقت متعین ہو تو جینے کا جواز بنتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان حالات میں زندگی مسلط کی جا رہی ہے۔بے تحاشہ ٹیکسز کا امتزاج بجلی کا بل لیکن پھربھی جیو۔پٹرول کی آئے دن بڑھتی ہوئی قیمتیں لیکن پھربھی جیو۔ روزانہ کے حساب سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ لیکن پھربھی جیو۔ آٹے کی قیمت غریب کی آمدن سے زیادہ پر جیو۔ سامان خورد و نوش خرید سے باہر لیکن پھر بھی جینا ہے۔ پھل تو دور کی بات سبزیوں کو ہاتھ نہیں لگتا ،پھر بھی خودکشی حرام۔ سکولز کتابیں یونیفارم نیا سال اور بچوں کا مستقبل،پر پھر بھی جینا ہے۔ اے میرے پروردگار زندگی کے کون سے وبال کا گلہ کریں اور کس کو درگزر کریں ہر روز اخبارات میں بڑھتی ہوئی خودکشی کی خبریں اور یہ جنازے کس کے سر ہیں۔ ان فاقوں میں لپٹی لاشوں کا کون والی وارث ہے ۔ کہاں ہے وہ اسلامی معیشت کے حکمران جو کہتے تھے کہ نہر فرات کے اس پار اگر کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو میں اس کا ذمہ دار ہوں۔
کہاں ہے اسلامی دور کے حکمران، جن کی قربانی اور سخاوت اسلامی دور کے بہترین حکمرانوں کا نمونہ تھا۔ ایک تاریخی سبق آموز واقعہ یاد آیا،ایک بار مدینہ منورہ میں قحط پڑ گیا لوگ بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر فاقے کرنے لگے ایک روز بڑے میدان میں عوام الناس کو بہترین کھانا دینے کا اہتمام کیا گیا ،ایک شخص نے کھانا تقسیم کرنے والے منتظم سے دو افراد کے کھانے کا مطالبہ کیا، منتظم نے پوچھا سب اپنا اپنا کھانا لے رہے ہیں تم دو افراد کیلئے کیوں مانگ رہے ہو۔’’ایک اپنے لئے اور ایک اس کیلئے جو باسی روٹی پانی میں بھگو کر کھا رہا ہے ‘‘اس شخص نے دور بیٹھے باریش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا،’’تم اسے جانتے ہو؟‘‘ منتظم نے دریافت کیا،نہیں۔اس شخص نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہامیں جانتا تو نہیں لیکن اسے باسی روٹی پانی میں بھگو کر کھا تے دیکھ کر بڑا ترس آیا کہ سب اچھا کھانا کھا رہے ہیں وہ کیوں نہیں۔ منتظم نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیاوہ ہمارے امیرالمومنین حضرت علی ؓ ہیں آپ سب لوگوں کیلئے طعام کا اہتمام ان کی طرف سے ہی کیا گیاہے وہ شخص یہ سن کر دنگ رہ گیا۔
آدھی رات کا وقت تھا لوگ گھروں میں آرام کررہے تھے ماحول پرایک ہو کا عالم طاری تھا اندھیرااتناتھا کہ ایک ہاتھ کودوسرا ہاتھ سجائی نہیں دے رہاتھا بیشتر گھروں میں تاریکی تھی غالباً زیادہ تر لوگ سو گئے تھے اکا دکا گھروں میں زردی مائل روشنی بکھری ہوئی تھی اس عالم میں ایک باوقار شخص ،نورانی صورت ،چہرے پر سختی نمایاں، شکل و صورت ایسی کہ انہیں دیکھ کر ایمان تازہ ہو جائے وہ مختلف گلیوں اور بازاروں سے ہوتے ہی ایک مکان کے آگے رک گئے روشندان سے باہر جھانکتی روشنی سے محسوس ہورہاتھا کہ دیا ٹمٹا رہاہے کھڑکی سے باتیں کرنے کی مدہم مدہم آوازیں آرہی تھی نورانی صورت والے نے کان کھڑکی کے ساتھ لگا دئیے کوئی لڑکی اپنی والدہ سے کہہ رہی تھی،’’ہم کب تک فاقے کرتے رہیں خلیفہ کو اپنا حال بتانے میں کیا امر مانع ہے ۔’’ میں عمرؓ کو کیوں بتاؤں، ضعیف عورت استقامت سے بولی وہ خلیفہ بنے ہیں تو وہ ہماری خبررکھیں۔لڑکی نے اپنی والدہ کو پھر سمجھاناشروع کردیا،ان کی باتیں سن کر کھڑکی سے کان لگائے نورانی صورت والی شخصیت کانپ گئی۔اس نے بے اختیار دروازے پر دستک دے دی۔ اس وقت، کون ہوسکتا ہے ۔ اندر سے ڈری اورسہمی سہمی آواز میں کسی نے پوچھا،گبھرائیں مت،نورانی صورت والے نے بڑی متانت سے جواب دیا میں عمرؓ کی طرف سے آیا ہوں دروازہ کھلاخاتون نے اسے اندر آنے کی اجازت دی اس نے خاتون کی خیریت اور حال احوال دریافت کیالڑکی کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اس نے فرفر انہیں اپنے فاقوں کااحوال سنادیا۔
حضرت عمرؓ کی طرف سے میں معذرت چاہتاہوں۔نورانی صورت والے نے بڑے رقت آمیز لہجے میں خاتون کو کہا لیکن اسلامی سلطنت بڑی ہے وہ کہاں کہاں توجہ دیں ؟جواب میں خاتون نے وہ بات کہہ ڈالی جس کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی ’’ عمرؓ اگر توجہ نہیں دے سکتا تو اتنی فتوحات کیوں کئے جارہا ہے۔اپنے ربّ کو کیا جواب دے گا۔’’ماں جی !۔نورانی صورت والا کہنے لگا ’’ عمرؓ کو معاف کردیں۔’’کیوں معاف کردوں۔خاتون نے جواب دیا وہ کون سامیری خبر گیری کو آیا ہے۔’’ماں جی !نورانی صورت والے نے مضطرب ہوکراپنا پہلو تبدیل کیا،اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اس نے اٹک اٹک کرکہا میں ہی عمرؓ ہوں، وہ شخصیت جس کے نام سے قیصرو کسریٰ جیسی عالمی طاقتیں تھر تھر کانپتی تھیں ایک عام خاتون کے سامنے جوابدہ اندازمیں کھڑے تھے خاتون کے چہرے پر قوس قزح کے کئی رنگ بکھر کئے بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی بولی اگر تم عمرؓ ہو تو مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں دیر سے آئے ہو لیکن کوئی بات نہیں مسلمانوں کا خلیفہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ نہ جانے آج کے حکمران ہمارا امتحان ہے یا ہمارے اعمال کا صلہ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ نگران حکومت نے کسی بات کی ذمہ داری قبول کرنے یا کسی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنے یا عوام کی دادرسی کی بجائے گزشتہ حکومتوں کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے فقط باتوں اور تقریروں سے عوام کے کان گرم کر دیے بلکہ حکمران عوام کو تسلی دینے کے بجائے انہیں دھمکانے پر اتر آئے ہیں۔
نگران وفاقی وزیر خزانہ نے بجلی کے بلوں پر عوام کو ریلیف دینے کی بجائے کہا کہ یہ بل تو ہمارے دور کے نہیں، یہ گزشتہ حکومت کے دور کے ہیں۔ مطلب یہ کہ ہم اس پر ریلیف نہیں دیں گے کیونکہ یہ گزشتہ حکومت کے دور کے بل ہیں، اگر ہمارے دور کے بل ہوتے تو تب ہم ریلیف دیتے۔ ان سے یہ کہنا چاہیے کہ آپ ایسا کریں اگر آپ گزشتہ حکومت کے بلوں پر ریلیف نہیں دے سکتے تو آپ ان بلوں کا مطالبہ بھی مت کیجیے۔ جنہوں نے بل نہیں جمع کرائے وہ جانیں اور گزشتہ حکومت جانے، کیونکہ ان کے دور کے بل ہیں آپ کے دور کے نہیں ہیں۔ آپ نہ ریلیف دیں اور نہ ہی ان کا مطالبہ کریں۔ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آگئے تو عوام انہیں بل جمع کروا دیں گے آپ اس طرف سے بالکل بے فکر رہیں۔