پیرس(ویب ڈیسک)فرانس میں نئے تعلیمی سال کا آغاز آج سے ہوگیا لیکن یہ شروعات اسکولوں میں عبایا پہن کر آنے پر پابندی کے متنازع فیصلے کے باعث مسلم برادری میں تشویش کا باعث بن گئی۔
خبر رساں ادارے کے مطابق فرانسیسی حکومت نے ایک ہفتے قبل اعلان کیا تھا کہ وہ اسکولوں میں عبایا پر پابندی عائد کر رہی ہے۔ اس سے قبل مسلم طالبات اور اساتذہ کو عبایا پہننے کی اجازت تھی۔
عبایا پر پابندی کا اطلاق آج نئے تعلیمی سال کے آغاز سے ہوگیا۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے خصوصی افسران تعینات کیے گئے تھے۔ وزیر اعظم ایلزبتھ بورن نے اسکولوں کا دورہ بھی کیا۔
وزیر اعظم ایلزبتھ برون نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ آج سب کچھ ٹھیک رہا۔ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا۔ ہم سارا دن چوکنا رہے اور طلبا کو اس پابندی سے متعلق سمجھایا۔
فرانسیسی خاتون وزیراعظم نے مزید بتایا کہ کچھ اسکولوں میں لڑکیاں عبایا پہن کر پہنچی تھیں جن میں سے چند اتارنے پر راضی ہوگئیں اور باقی نے گھر واپس جانا بہتر جانا لیکن ہم ان سے بات کریں گے اور سمجھائیں گے۔
دوسری جانب وزیر تعلیم گیبریل اٹل نے بتایا کہ حکام نے 513 ایسے اسکولوں کی نشاندہی کی ہے جو تعلیمی سال کے آغاز پر عبایا پابندی سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ یہ وہ اسکول ہیں جہاں مسلم طلبا بھی پڑھتے ہیں۔
فرانس کی حکومت کے اس اقدام پر انتہاپسند دائیں بازو کے حامیوں کو خوشی ہوئی لیکن بائیں بازو کی جماعتوں کا کہنا تھا کہ یہ شہری آزادی کی توہین ہے اور اس سے فرانس کے سیکولر ملک ہونے کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
بائیں بازو کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ ایسے لباس پہننے پر پابندی عائد کرنے کے خلاف ہیں جن کی مذہبی اہمیت ہے تاہم دائیں بازو کے رہنماؤں نے اسکولوں میں یونیفارم پہنانے پر زور دیا۔
یاد رہے کہ فرانس میں مارچ 2004 میں ایک قانون متعارف کرایا گیا تھا جس کے تحت اسکولوں میں ایسے نشانات یا لباس پہننے پر پابندی عائد کی گئی تھی جس کے ذریعے طلبا مذہبی وابستگی ظاہر کرسکتے ہیں ان میں عیسائیوں کی بڑی صلیبیں، یہودی کیپہ (مخصوص قسم کی ٹوپی) اور اسلامی حجاب (ہیڈ اسکارف) شامل ہیں۔