یہ خبر تمام اخباروں میں سوشل میڈیا پر اور تمام ٹی وی چینل پر بڑی تنقیدوں کے ساتھ نشر ہوتی رہی کہ پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور رمضان شوکے میزبان عامر لیاقت حسین نے 18 سالہ سیدہ دانیہ شاہ سے تیسری شادی کرلی اور انھوں نے مختلیف چینلز پر اور اخبارات پر اپنے اوپر تنقید کا جواب بھی دیا ان کی تمام باتوں میں مجھے جو سب سے اچھی بات لگی وہ یہ کہ میں نے نکاح کیا ہے زنا نہیں کیا اور میں ان لوگوں سے بہتر ہوں جو زناکاری کرتے ہیں خدا اور اسکے رسول ﷺ نے بار بار مسلمانوں کو زناکاری سے بچنے کی تلقین کی ہے کیونکہ یہ ایک گناہ کبیرہ ہے لیکن ہمارے معاشرے میں زناکاری ایک عام سی چیز لگتی ہے۔
باپ کا بیٹی کے ساتھ زنا، کمسن بچے اور بچیوں کے ساتھ زنا، ڈکیتی کے دوران زنا، استاد کا طالبعلموں کے ساتھ زنا، لڑکے لڑکیوں کی آپس میں دوستی اور پھر زناکاری افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سیاستدان بڑے بڑے عالم دین پیرومشائخ اس زناکاری سے نہیں بچ پارہے آخر ہمارے اوپر شیطان نے اتنا غلبہ کیسے حاصل کرلیا اسلام نے تو زنا کا نعم البدل نکاح ہمیں عطا کردیا اور مرد کے طبعی و فطری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چار شادیوں تک کی اجازت دے رکھی ہے اور اس کے ماشرے میں بڑے مثبت اثرات و فوائد بھی ہیں شادی کی بدولت مسلم معاشرے کی بے شمار غیر شادی شدہ لڑکیاں اپنے والدین کے گھر میں اپنے بالوں میں سفید بال نہیں دیکھتیں نہ ہی والدین راتوں کو اپنی بچیوں کے مستقبل کے بارے میں فکرمند رہ کر جاگتے ہیں خدا کی دی گئی اس چھوٹ سے لڑکی اور ان کے والدین کے سامنے رشتوں کی کثرت کے باعث انہیں اپنی سماجی اور معاشرتی سطح کے مطابق اپنی مرضی کے انتخاب میں بھی آسانی رہتی ہے۔
بغیر شادی کئے عورت رکھنا اس عمل نے مرد کے لیے ناجائز راستوں پر چلنے کے مواقع آسان کر دیے ہیں کیونکہ اس صورت میں مرد کو نان نفقے جیسا بوجھ گلے میں نہیں ڈالنا پڑتا دوسری شادی کے معاملے میں ہمارا رویہ ہندووانہ معاشرے کی پیداوار ہے باقی رہی انصاف کی بات تو بے انصاف مرد ایک شادی کرکے بھی بے انصاف ہی رہے گا اور انصاف پسند مرد چار رکھ کر بھی بخوبی نبھا سکتا ہے اسلام بیک وقت پر دو تین یا چار بیویوں کی کفالت کا بوجھ مرد پہ ڈال کر گویا عورت کو وہ احساس تحفظ فراہم کرتا ہے جو وہ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے نوکری یا کاروبار کرتے ہوئے بھی حاصل نہیں کر سکتی رزق کی ذمہ داری خدا تعالی نے اپنے ذمے لے رکھی ہے لہٰذا اس معاملے میں پریشان ہوئے بنا جب ازواج فیملی پلاننگ کے عفریت سے بچتے ہوئے اپنے کنبے میں اضافہ کرتے ہیں تو مسلمانوں کو معاشی عسکری وجہادی لحاظ سے مزید افرادی قوت میسر آتی ہے دوسری شادی سے شوہر کی آمدنی تقسیم ہونے کا ڈر رکھنے والیاں پھر بچے بھی پیدا نہ کریں۔
صحابہ کرام تو عسرت اور تنگی کی حالت میں بھی دوسری تیسری اور چوتھی شادی کرکے مطلقہ اور بیواؤں کا سہارا بنتے تھے مسلمان مردوں کی ایک کثیر تعداد اپنے ممالک میں ملازمتوں کی کمی کے باعث بیرونِ ملک سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں جن میں سے کچھ مردوں کو بعض ترجیحات و وجوہات غیر مسلم لڑکیوں سے شادی پہ مجبور کر دیتی ہیں اس کا خمیازہ مسلمان لڑکیوں کو غیر شادی شدہ رہ جانے کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے مردوں میں سے کچھ فیصد مختلف وجوہات کی بنا پر ہیروئن شراب چرس جیسے نشوں کے عادی ہونے کے باعث عورت کی کفالت کرنے کے قابل نہیں رہتے بفرض محال اگر ان کی شادی ہو بھی جائے تب بھی اپنی لاپرواہی آوارگی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کی بدولت ایسی شادیوں کا انجام اکثروبیشتر طلاق ہی نکلتا ہے جس کا مطلب عورت کا پھر سے بے گھر و بے سہارا ہو جانا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق نومولود بچیوں میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کا تناسب لڑکوں سے زیادہ ہے اس لیے کچھ لڑکے کم عمری میں ہی بیماریوں کا شکار ہوکر یا تو معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھرجان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بہت سے برسر روزگار مرد اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی خاطر مناسب عمر میں نکاح پہ آمادہ نہیں ہوتے یا ایک طویل عرصہ شادی کرنے سے اجتناب کرتے ہیں جس کا نقصان ان کی ہم عمر بچیاں اٹھاتی ہیں مردوں میں مردانہ کمزوری کا مرض اس بے حیائی اور فحاشی کے دور میں تیزی سے بڑھ رہا ہے کیونکہ نشے یا بے راہ روی کا شکار اکثر مرد جنسی قوت سے عاری ہو جاتے ہیں یہ بات موجودہ دور میں طلاق کے واقعات میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے جس کی وجہ سے ایسی مسلمان لڑکیاں دوبارہ اپنے والدین کی دہلیز پہ آ بیٹھتی ہیں۔
یہ ایک بیوی رکھنے کا نقصان ہے کہ بسا اوقات اکتاہٹ کی بنا پر دونوں بڑھاپے میں ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہیں ہوتے اسی صورت میں غیر مسلموں کے فنڈز سے چلنے والی این جی اوز اور مشنری اداروں کو ہماری مسلمان بچیوں کی عزت سے کھیلنے کا موقع بھی نہیں مل سکے گا لہذا بہتری اسی میں ہے کہ صالح مردوں سے ان کے پہلے دوسرے تیسرے یا چوتھے نکاح کر دیے جائیں تاکہ وہ کسی فحاشی میں مبتلا نہ ہو کر معاشرے میں مردوں کو پاک رکھ سکیں بہت بڑی ذمہ داری ہے ماں باپ اساتذہ کرام علماءکرام مشائخ کرام کی کہ معاشرہ کو زناکاری سے محفوظ کرنے میں اور مردوں کو دوسری شادی کی بھرپور ترغیب دیں تاکہ مسلمان عورتیں اور بچیاں اپنی عفت و پاکدامنی کو بچاتے ہوئے ایک بھرپور مسلم معاشرے کی تشکیل و تکمیل میں اپنا بنیادی کردار ادا کر سکیں۔