وہ اپنے تیس سالہ بیٹے کی چارپائی کے پائے پہ سر رکھ کر بلک بلک کر رو رہا تھا۔اپنی انا اور ضد کی وجہ سے اس کا جوان سال بیٹا کفن میں لپٹا چارپائی پہ لیٹا ہے۔وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا حادثہ بھی پیش آ سکتا ہے۔ایک ایسا دور جس نے خاندان بھر کو کئی مہینے تک ایک دوسرے کے ساتھ نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑا تھا اور پھر اس نے باپ ہونے کے ناطے بھی اسے معاف نہ کیا اور اسے جائیداد سے عاق کر دیا۔رہی سہی کسر خاندان کے ان مردوں نے نکال دی جب سب نے مل کر اسے گھر سے دھکے دے کر باہر نکال دیا۔وہ صرف پندرہ سال کا تھا جب اسے گھر کی دہلیز سے دربدر ہونا پڑا۔یہاں اس پہ اعتبار کرنے والا کوئی بھی نہیں تھا نہ اس کی کسی نے بات سنی تھی۔وہ کئی سال تک شہر لاہور میں ایک ویٹر کے طور پر کام کرتا رہا۔اس کی زندگی کا اتار چڑھائو جاری رہا مگر اس نے ایک بار بھی مڑ کر خبر نہ لی کہ شاید گھر والوں کا دل موم ہو گیا ہو۔شاید اس کے باپ نے عاق نامہ واپس لے لیا ہو اور اسے پھر سے گھر میں جگہ مل جائے مگر اس صورت حال میں بھی وہ واپسی کا نہ سوچتا کیونکہ اس وقت اس کے ماں باپ اس کی ڈھال نہیں بنے تھے۔
اس کے بہن بھائیوں نے اسے رد کر دیا۔اس کے خاندان والوں نے اس کی تذلیل کی اور باپ کی طرف سے دیا گیا عاق نامہ اس کی تذلیل کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔اس کے زخموں پہ مرہم رکھنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔جس وقت وہ شہر لاہور پہنچا تھا تو اس کے پاس فقط ایک اخبار تھی جس پہ باپ کی طرف سے دیا گیا عاق نامہ درج تھا۔اس نے ہوٹل کے مالک سے کھانا مانگا۔وہ دو دن کا بھوکا کھانا ملتے ہی اس پہ جھپٹ پڑا۔ہوٹل کا مالک کافی دیر اس کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا اور اس کے ہاتھ میں پکڑا اخبار نہ جانے کیوں اسے کوئی دلچسپ قصہ نظر آنے لگا۔جب اس نے کھانا کھا لیا تو ادھر ادھر دیکھنے لگا۔وہاں موجود کوئی بھی ویٹر اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔اس نے جست لگائی اور بھاگنے کی کوشش کی مگر ہوٹل کے مالک نے عین موقع پر اسے پکڑ لیا۔
’’کدھر بھاگ رہے ہو بچے‘‘ہوٹل کا مالک گرج دار آواز میں بولا
’’مم۔۔۔ممم۔۔۔میں۔۔۔۔۔وہ‘‘خوف سے اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی
’’کدھر جا رہے ہو بتائو مجھے‘‘اب کی بار اس نے نرم لہجے میں پوچھا
’’ممم۔۔۔۔۔میرے پاس پیسے نہیں ہیں‘‘اس نے ڈرتے ڈرتے اسے بتایا تو ہوٹل کا مالک سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگا اور پھر دھیرے سے مسکرایا’’کہاں سے آئے ہو‘‘اس نے پوچھا
’’مم۔۔۔ممم میں جہلم سے‘‘اس نے سر جھکاتے ہوتے جواب دیا
’’اتنی دور چلے آئے ہو مگر کیوں کیا تمہارے ماں باپ نہیں ہیں‘‘ہوٹل مالک نے متجسس زدہ اسے دیکھا
’’ہیں تو سہی مگر‘‘اس سے پہلے کے وہ مزید کچھ بولتا اس آنکھوں سے اشکوں کی ایک دھار پھوٹ پڑی تو ہوٹل کا مالک بھونچکارہ گیا۔اس نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ کائونٹر پہ لے گیا جہاں اس کی مخصوص نشست تھی۔اس نے اپنے ساتھ اسے بیٹھایا اور اس سے پوچھنے لگا”کیا ہوا ہے بیٹے مجھے بتائو”
’’کچھ نہیں،کچھ نہیں ہوا‘‘اس نے آنسو بہاتے ہوئے بس اتنا کہا
’’یہ اخبار کیسا ہے بچے مجھے دیکھائو‘‘ہوٹل مالک نے اس کے ہاتھ سے اخبار لینا چاہا مگر اس نے انکار کرتے ہوئے کہا’’نہیں یہ میری اذیت کا سامان ہے۔اس میں میری تذلیل درج ہے شاید دنیا کا جہنم اب میرا مقدر ہے‘‘ہوٹل مالک نے اس کی زبان سے نکلے الفاظ سن کر حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا اور پھر اس کے ہاتھ سے اخبار پکڑتے ہوئے کہنے لگا’’مجھے دیکھائو تو سہی بیٹا ایک بار‘‘تو اس نے اخبار ہوٹل مالک کو اخبار تھما دی۔
’’میں اپنے سولہ سالہ بیٹے صارم کو بوجہ نافرمانی اپنی جائیداد سے عاق کرتا ہوں لہذا اب میں اس کے کسی قول و فعل کا ذمہ دار نہیں ہوں‘‘نیچے اس کے والد کا نام درج تھا اور ساتھ میں اس کی تصویر لگی تھی۔ہوٹل مالک پڑھ کر ششدر رہ گیا۔اس نے بے چینی سے اس بچے کی طرف دیکھا
’’کیا ہوا تھا بچے،آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ یہ سب تمہارے بابا کو کرنا پڑا‘‘ہوٹل مالک نے اس سے بے چینی پوچھا
’’میں بدکرار ہوں انکل،میرے والدین نے سچ مان لیا۔وہ پہلے اپنے خاندان کے غلام تھے اور اب اپنی اولاد کو بھی بنانا چاہتے تھے۔میں بچپن سے ہی منسوب ہو گیا تھا۔چچا زاد سے نسبت کے وقت مجھ سے پوچھا بھی نہیں گیا تھا مگر پھر اسی چچا زاد نے دوست سے مل کر ایک ایسے گڑھے میں پھینک دیا جہاں تہمت کے نشتر میرے جسم کو زخمی کر گئے اور لوگوں کا اچھالا گیا کیچڑ میرے کردار کو آلودہ کر گیا ہے۔اب میں گھر سے باہر یونہی دربدر ہوں‘‘ہوٹل مالک کو سب بتاتے ہوئے اس کی ہچکی بندھ گئی تو ہوٹل مالک نے اسے گلے سے لگا لیا۔پھر وہ اسی ہوٹل میں کام کرنے لگا۔اسے چار سے چھ گھنٹے ہوٹل پہ کام کرنا ہوتا اور باقی وقت ہو تعلیم کے لئے کالج جاتا۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے کئی سال بیت گئے اور اس نے ایم بی اے کر لیا۔شروع شروع نے اس نے بینک میں جاب کرنے کو ترجیح دی مگر پھر ہوٹل مالک کے اچانک معذور ہو جانے کے بعد ہوٹل کی دیکھ بھال اس کے سپرد ہو گئی۔پھر اس نے مزید ترقی کی اور دو سال کے اندر ہی ایک فائیو سٹار ہوٹل کا مالک بن گیا۔پھر یوں اس کی زندگی کے ایک بہترین دور کا آغاز ہو گیا اور گھر سے دربدر ہونے والا لڑکا اب چوبیس سال کی عمر میں فائیو سٹار ہوٹل کا مالک تھا۔
ہوٹل کے پہلے مالک نے اس کی دھوم دھام سے شادی کروائی اور شادی کے بعد اس کے ہاں دو جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی۔اس کے ہوٹل کے چرچے دور دور تک تھے۔وہاں عالمی دنیا سے آنے والے سیاح رکتے اور کئی وزیر مشیر بھی اس کے ہوٹل میں اپنا وقت بیتاتے۔کون جانتا تھا کہ ایک ہوٹل میں روٹی کھا کر بھاگنے کی کوشش کرنے والا اب ایک فائیو سٹار ہوٹل کا مالک تھا مگر زندگی جس انسان کو عروج پہ لے کر جاتی ہے اسے زوال بھی ملتا ہے۔اسے بزنس کے معاملے میں تو کوئی زوال نہیں ملا تھا مگر اس کی زندگی میں قریبی رشتے زوال پذیر ہو گئے تھے اور اب اس کی سانسوں کا بھی زوال تھا۔آج جمعہ کا دن تھا جب وہ بادشاہی مسجد میں نماز جمعہ ادا کر کے باہر نکلا تھا۔اس کے ساتھ اس کا تین سالہ بیٹا حارث بھی تھا۔جیسے ہی وہ روڈ پہ پہنچے تو ایک تیز رفتار کار جو ٹائر پنکچر ہو جانے کے بعد بے قابو ہو چکی تھی اس کی جانب بڑھی اس نے اپنے تین سالہ بیٹے کو بچانے کے لئے ایک طرف دھکا دے دیا مگر خود بچنے کی کوشش میں اس کار کی زد میں آ گیا اور اس کے سر پہ چوٹ آئی۔آس پاس موجود لوگ جو نماز جمعہ ادا کر کے نکلے تھے ایک دم آگے بڑھے اور اسے پکڑا مگر وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔اس کا تین سالہ بیٹا بابا بابا کہتے ہوئے رو رہا تھا اور اس سے لپٹ گیا مگر اس کی کمزور پڑتی دل کی دھڑکن اس کی زندگی ختم ہونے کا اعلان کر رہی تھی اور پھر موقع پہ آئی ریسکیو ٹیم نے اسے اٹھا کر وین میں رکھا۔اسے فسٹ ایڈ دی مگر وہ جانبر نہ ہو سکا۔زندگی کا بندھ ٹوٹ گیا تھا سانسیں اب ختم ہو چکی تھیں۔
وہ جو گھر سے عاق ہو چکا تھا اب زندگی نے بھی اسے عاق کر دیا تھا اور موت نے اپنے اپنی آغوش میں لے کر دنیاوی اذیتوں سے نجات دلا دی تھی۔کار حادثے میں کار کا ڈرائیور اس کا ماموں زاد تھا جو بچپن کے کئی سال اس کا دوست رہا مگر اس پہ لگنے والے الزام کی وجہ سے اس سے نفرت کرنے لگا تھا۔اس کی ڈیڈ باڈی گھر آئی تو وہ ہوٹل مالک جس نے اسے پناہ دی تھی وہ ویل چیئر پہ بیٹھا بلک بلک کر رو رہا تھا۔اس نے صارم کے ماموں زاد کی مدد سے اس کے باپ سے بات کی اور اسے صارم کی موت کی اطلاع دی۔یہ خبر خاندان بھر پہ کسی بم کی طرح گری تھی۔اس کی ڈیڈ باڈی کو اس کے آبائی گائوں پہنچا دیا گیا مگر اب دیر ہو چکی تھی۔اس کا باپ چارپائی کے پائے پہ سر رکھ کر رو رہا تھا اور ماں اپنی ایک بے نور آنکھ پہ ہاتھ رکھے آنسو بہا رہی تھی۔صارم کے تین سالہ بچے حارث اور بسمہ دادا کے پاس کھڑے آنسو بہا رہے مگر اب وہ کہاں لوٹنے والا تھا۔اس کا باپ بار بار اپنا سر اس کی چارپائی کے ساتھ پٹختا۔بہنوں کی چیخیں بتلا رہی تھیں کہ وہ اب کس خسارے میں ہیں اور بھائیوں کا کرب اب انہیں پرسکون بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔وہاں اب کوئی بھی پرسکون نہیں تھا۔اگر سکون میں تھا تو فقط صارم تھا جو اب کفن میں لپٹا گھر کے صحن میں پڑا تھا۔
اس کو رونے والے کئی تھے مگر وہ خاموش تھا پرسکون تھا اور کسی کو کوئی جواب نہیں دے رہا تھا۔پھر شام کو جنازے کے بعد اس کی تدفین کر دی گئی۔اسے رونے والا ایک معذور ہوٹل مالک اور اس کی بیوی تھے جنہوں نے اسے پناہ دی اور اسے اولاد کی طرح پالا تھا آج ان کی جھولی پھر سے خالی ہو گئی تھی۔کتنی عجیب رسم دنیا ہے۔ایک انسان کو گھر سے بے دخل کر دیا گیا۔اس کے اپنوں نے اس سے چھت چھین لی مگر ایک غیر اس کا سائبان بنا۔شاید ہم انسانوں کو خوشی کے لیے کوئی بہانہ چاہیئے ہوتا ہے۔اپنے بیٹے کے جنازے کے بعد وہ کافی دیر اس کی قبر پہ بیٹھا باتیں کرتا رہا جب صارم کے بیٹے حارث نے مٹی کا ایک ٹکڑا ہاتھ میں پکڑ کر دادا کے ہاتھ پکڑایا اور بولا”دادا،بابا نے کہا تھا کہ میری قبر سے مٹی کا ٹکڑا اٹھا کر بابا کو دینا اور کہنا کہ صارم نے آپ کو معاف کر دیا ہے”حارث کی بات کسی تیر کی طرح اس کے سینے میں پیوست ہوئی۔اس نے پیار سے اپنے پوتے کو سینے سے لگا لیا۔شاید غم کے بادل جو اب چھا گئے تھے ابر بن کر برسنے والے تھے۔شاید غموں کا بوجھ ہلکا ہونے والا تھا جب ہی اتنے آنسو تھے جو بہہ گئے تھے۔