ہم سب نے وقت کو بڑی تیزی سے بدلتے دیکھا ہے۔ کل کی بات لگتی ہے جب اخبار میں کوئی خبر شائع ہوا کرتی تھی، لوگ اس پر یقین کرتے تھے اور یقین بھی ایسا کہ اس خبر کا حوالہ دیا کرتے تھے ۔ ریڈیو پر کسی خبر کا نشر ہونا۔خبر کی صداقت کو مزید چار چاند لگا دیتی تھی۔ اسی طرح ٹیلی ویژن کی خبر پر لوگوں کا اعتماد ہوا کرتا تھا۔ ہر خبر کی چھان بین کی جاتی تھی۔ عوام کے سامنے سچ اور حقائق پر مبنی خبر دی جاتی تھی۔
جنرل مشرف کا دور اقتدار بھی دیکھا جب بےشمار ٹی وی اور ریڈیو چینلز کے لائسنس کا اجراء کیا گیا۔ کاروباری شخصیات نے میڈیا میں سرمایہ کاری کی۔خبروں کا معیار گرتا چلا گیا سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ ہونے لگی۔ اسکے بعد یو ٹیوب والوں نے تو حد ہی کر دی جھوٹ کو اس صفائی کے ساتھ سے پیش کرنے لگے کہ سچ جھوٹ لگنے لگا۔
ان سب کے پیچھے کیا مقاصد ہیں عوام کو گمراہ کرنا ، سچ اور حقائق کو چھپانا۔ عوام میں بے چینی اور اضطراب پیدا کرنا۔
آج میڈیا چینلز مختلف سیاسی جماعتوں کا پرچار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حکومت نے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے ادارہ قائم کیا ہے جس کا نام پیمرا ھے۔شروع میں یہ ادارہ آزادی کے ساتھ کام کرتا تھا پھر حکومت نے اپنا اثر رسوخ استعمال کرنا شروع کردیا۔
آج امپورٹڈ حکومت نے مکمل طور پر اس ادارے کے ذریعے میڈیا کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا ہے۔
پاکستان میں ٹیلی ویژن چینلز کیبل کے ذریعے دکھائے جاتے ہیں۔ امپورٹڈ حکومت ہر اس ٹی وی چینل کے خلاف کارروائی کر رہی ہے جو انکی غلطیوں، کوتاہیوں، جھوٹ اور اسکینڈلز کو منظر عام پر لاتے ہیں۔ یہیں تک نہیں اپوزیشن رہنماؤں کی تقاریر، جلسے اور جلوس کو بھی دکھانے سے منع کرتی ہے۔ آزادی صحافت پر قدغن لگا رہی ہے جو کہ بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
سچ بولنے اور لکھنے پر صحافیوں پر جھوٹے مقدمات قائم کیے جاتے ہیں اور انکو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے۔امپورٹڈ حکومت کی ان حرکتوں کی وجہ سے بہت سے صحافیوں نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی ہے۔
خوشبو اور بدبو چھپائے نہیں چھپتی،اسی طرح سچ اور جھوٹ سامنے آ کر ہی رہتا ہے۔
امپورٹڈ حکومت اوچھے ہتھکنڈوں سے اپنی ساخت مزید خراب کر رہی ہے۔عوام کو حق حاصل ہے سچ سنیں اس پر اپنی رائے قائم کریں، درحقیقت امپورٹڈ حکومت عوام کو گمراہ کر رہی ہے اور حقائق کی پردہ پوشی کر رہی ہے۔ عدالتی حکم نامہ کے باوجود انتقامی کاروائیاں جاری ہیں۔