وہ ایک گیارہوں کلاس کا سٹوڈنٹ تھا۔ایک بھائی اور تین بہنوں کے بعد پیدا ہوا تھا۔بڑا بھائی تعلیم مکمل کر کے اس وقت ٹیچنگ کرتا تھا۔اس وقت وہ بہت چھوٹا تھا جب اس کے بابا اس دنیا سے چلے گئے۔وہ اکثر ماں سے اور اپنی بہنوں سے پوچھتا تو اسے صرف یہ بتایا جاتا کہ ایک حادثہ ہوا تھا جس میں تمہارے بابا جان انتقال کر گئے تھے۔اس کا بھائی ہر روز اسے بڑی اختیاط سے اسے کالج چھوڑنے جاتا۔وہ اکثر اپنے جن راہوں سے گزرتا وہاں سیکنڑوں فوجیوں کا گشت کرتے دیکھا۔وہاں کڑے پہرے کی وجہ سے لوگ خوف و ہراس کا شکار تھے۔وہ اکثر سوچتا کہ نہ جانے کیوں یہاں پہ لوگوں کی جان کو اتنے خطرات لاحق ہیں کہ ایک انچ جگہ بھی فوج سے خالی نہیں ہے۔ان حالات کو دیکھ کر اس کے ذہن میں ہزاروں سوالات ابھرے۔بالآخر ایک دن اس نے اپنی ماں کو اپنے دل کی بات بتاتے ہوئے کہا”ماں،مجھے بھی آرمی میں جانا ہےاپنے ملک کے لوگوں کی حفاظت کرنی ہے اور یہاں سے پر دہشت گرد کو ختم کرنا ہے”اس کی ماں اس کی بات سن کر سکتے میں آ گئی اور اسے اسے ڈانٹتے ہوئے خبردار کیا کہ آئندہ آرمی میں جانے کا سوچنا بھی مت۔یہ کہہ کر ماں اس کے پاس سے اٹھ کر چلی گئی۔اس نے ماں سے مزید کوئی بھی سوال نہ کیا اور ماں کے جواب پہ خفیف سا ہو گیا۔وہ کچھ دیر یونہی اپنے کمرے میں چپ سادھے بیٹھا رہا اور پھر کچھ سوچ کر دوبارہ سے ماں کمرے کی جانب بڑھ گیا۔وہ ماں کے پاس ہی زمین پہ بیٹھ گیا اور ماں سے مخاطب ہوا”ماں وہ تو ہماری حفاظت کے لئے کھڑے ہیں فوج تو ہمیشہ اپنے ملک کے لوگوں کی اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کھڑے رہتے ہیں”اس نے سوالیہ نظروں سے ماں کی طرف دیکھا مگر وہ اس کی بات پہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گئی اور پھر ذرا توقف کے بعد بولی”بیٹے یہ جو فوج باہر کھڑی ہے نا یہ بہت ظالم ہے اس نے تمہارے باپ کو بے گناہ شہید کر دیا تھا۔کوئی قصور نہیں تھا تمہارے بابا کا”ماں کی آنکھیں بھیگ گئیں۔یہ اس پہ کیسا انکشاف ہوا تھا وہ ماں کے الفاظ سن کر ہکابکا سا ہو گیا میرے بابا شہید ہوئے اور میں گیارہوں کلاس میں پڑھتا ہوں مجھے نہیں پتا۔
"ماں میرے بابا نے ایسا بھی کیا کر دیا تھا ان کو اپنے ملک کی آرمی نے ہی شہید کر دیا”اس نے ماں کا ہاتھ تھاماماں نے آنسو صاف کرتے ہوئے جواب دیا "وہ گھر آ رہے تھے اور انہیں گولی مار کر شہید کر دیا دیا” "ماں غلطی سے بھی تو لگ سکتی ہے”اس نے ماں کا چہرہ دیکھا تو اس بات سن کر ماں نے اسے زور دار تھپڑ رسید کیا۔اس کے لئے یہ ری ایکشن بالکل غیر متوقع تھا۔”تم اس کمرے سے دفع ہو جائو”اس کی ماں نے سختی سے کہا تو وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل آیا۔پھر دن ڈھلتے ہی شام کو اس نے باری باری بہنوں سے پوچھا کہ ایسا کیا ہوا تھا کہ امی نے مجھے اس بات پہ تھپڑ مار دیا میں نے صرف یہ کہا کہ آرمی کی گولی غلطی سے لگ گئی۔مگر اس کی بہنوں نے بھی اس کی بات کے جواب میں خاموشی اختیار کر لی۔اسی سوچ بچار میں اس کا اگلا سارا دن گزر گیا۔پھر اس سے اگلے روز اس کا بھائی صبح سے ایک فنکشن پہ گیا مگر شام کے بعد بھی وہ واپس نہ آیا۔بڑے بیٹے کے یوں دیر ہو جانے پہ اس کی ماں پریشانی کے عالم میں گھر کے صحن میں ادھر ادھر ٹہلنے لگیں اور بار بار دروازے کی طرف جاتیں۔اسی وقت باہر فائرنگ کی آواز سنائی دی اور ساتھ میں نعرے بازی بھی شروع ہو گئی۔اچانک فائرنگ اور نعرے بازی کی آواز سن کر اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی اور اس کا پورا گھرانہ سہم سا گیا۔تھوڑی دیر بعد جب نعرے بازی اور فائرنگ بند ہوئی تو وہ دوڑتا ہوا باہر نکلا تو دیکھا باہر بہت سے نوجوانوں اور بچوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔وہ سب کے سب کالج کے سٹوڈنٹس تھے کچھ اس کے سینئر تھے۔ان سب میں اس نے ایک جگہ اپنے بڑے بھائی کی لاش دیکھی جو اوندھے منہ پڑا ہوا تھا۔اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔وہ جلدی سے پلٹا اور ماں اور بہنوں کو بتایا۔ماں اور بہنوں کے پائوں سے تو جیسے زمین ہی نکل گئی۔ماں اور بیٹا دوڑتے ہوئے لاش کے پاس پہنچےمگر بھائی کی روح اس وقت تک پرواز کر چکی تھی۔ماں اپنے جواں سال بیٹے کی لاش دیکھ کے تڑپ گئی۔لیکن آہ بکا کی بجائے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور زبان سے صرف یہ نکلا”یااللہ آزادی کا یہ چاند بھی ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا لیکن اس کی چاندنی تمام آزادی کے حصول کے لئے لڑنے والوں کے مشعل راہ بن گئی ہے۔یااللہ میرے بیٹے کی شہادت کو قبول فرما لے”اس نے اپنی ماں کو چیخ پکار کرتے نہیں سنا وہ بس رو رہی تھی تو اندر سے آنکھوں میں بس آنسو تھے۔اگلے دن جب اس کے بھائی کا جنازہ اٹھایا گیا تو وہ حیران رہ گیا ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس کے بھائی کے جنازے میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ایسے بہت سے لوگ جن کو کبھی اس نے دیکھا ہی نہیں تھا۔آج اسے سمجھ آ گیا کہ اس کے بابا کو کیوں شہید کیا گیا تھا۔آج وہ جان گیا کہ اتنے نوجوانوں کا لہو کیوں بہایا گیا۔وہ اس وقت جنازہ اٹھائے چل رہے تھے کہ ایک بار پھر اس نے دیکھا کہ آرمی کی دس بارہ گاڑیاں آئیں اور ان پہ شیلنگ شروع کر دی۔وہ آرمی جس میں وہ بھرتی ہونا چاہتا تھا آج اسے اس سے نفرت ہو گئی۔کیا قصور تھا میرے بھائی کا اور کیا قصور ہے ان لوگوں کا جن پہ شیلنگ کی جار ہی ہے۔بچپن میں جب اس نے فوج کا سخت پہرہ دیکھا تو اس نے اپنی ماں سے پوچھا کہ فوج کیوں ہے وادی میں لیکن وہ خاموش رہی پھر اس نے اپنے ایک ہندو استاد سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ وادی میں موجود دہشتگردوں کا خاتمہ کرنے کے لئے کھڑی ہے۔لیکن کیا وہ لوگ دہشتگرد ہیں جو اس جنازے میں شریک ہیں اور کیا میں نے بھی کبھی شرپسندی والا کام نہیں کیا لیکن یہ سب کیوں؟۔پیلٹ گن اور شیلنگ کی وجہ سے دس سے زیادہ لوگوں کی جان چلی گئی۔ایک جنازے سے ہی کئی جنازے اٹھ گئے۔وہ اپنے دوست کو ادھر ادھر ڈھونڈنے لگا لیکن وہ نہ جانے کہاں چلا گیا۔اپنے بھائی کو دفنانے کے بعد وہ گھر آ گیا۔آج وہ ساری حقیقت جان چکا تھا۔آج وہ سمجھ گیا تھا یہ جو شہید ہوئے ہیں ان کا خون بہت خاص ہے اور رائیگاں نہیں جائے گا۔آج اس کی سمجھ میں آیا کہ اس کی ماں نے یہ کیوں کہا یااللہ تیرا شکر ہے۔وہ آتے ہی ماں کے گلے لگ گیا۔
"ماں میرے بابا اور بھائی کی قربانی کبھی بھی رائیگاں نہیں جائے گی ان کا بہتا لہو ایک دن ضرور رنگ لائے گا اور ہماری نسلیں آزاد ہو جائیں گی انشاءاللہ۔میں اپنے بھائی اور بابا کے خون کا بدلہ ضرور لوں گا”
صبح اٹھتے ہی جب وہ دوست کے گھر گیا تو دوست کے گھر بھی صف ماتم بچھا تھا۔اس نے اپنے دوست اور اس کے سات سالہ بھائی کی کاش کفن میں لپیٹی دیکھی۔فوج انہیں اٹھا کر لے گئی تھی اور بعد میں انہیں بھی شہید کر دیا تھا۔اس کے سامنے وہ ہی منظر گھومنے لگا جو کل اس نے دیکھا۔ان بچوں کا کیا قصور ہے کیا کیا اس سات سالہ بچے نے جو آرمی نے ربڑ کی گولیاں اور پیلٹ گن کا استعمال کر کےانہیں آنکھوں سے محروم کر دیا بہت سے بے گناہوں کی جان لے لی۔ایک سوال جو اس کے دماغ میں تھا اب اس سے بھی پردہ اٹھ گیا جب اس نے اردگرد لوگوں کو آزادی کے نعرے دیکھا۔وہ بھی اس حتجاج میں شریک ہو گیا۔اس نے سینکڑوں بچوں اور نوجوانوں کو شہید اور زخمی ہوتے دیکھ لیا تھا۔لیکن کسی کی زبان سے آزادی کا نعرہ لگاتے لڑکھڑائی نہیں تھی۔کسی کا سر جھکا نہیں تھا۔وہ زندگی کے ایک اور تجربے سے وہ گزرا تھا۔اس نے اب جانا تھا کہ وادی کے لوگ تین نسلوں سے جنگ لڑ رہے ہیں۔آزادی کے لئے قربانیاں بھی دے چکے ہیں۔اس کا باپ اور بھائی مجاہد تھے۔اب ان کے کام کو وہ آگے بڑھانا چاہتا تھا۔اس نے رات اپنی ماں سے اجازت چاہی۔وہ مجاہد بن کر آئندہ نسلوں کے لئے قربانی دینا چاہتا تھا۔ماں نے اسے اجازت دے دی۔اس نے زندگی میں کچھ دن پہلے کچھ بھی نہیں دیکھا تھا۔مگر اس نے صرف چند دن میں وہ کتنا کچھ جان گیا اور اسے کس طرح بابا کی شہادت سے بے خبر رکھا گیا۔وہ جوچند دن پہلے ایک چھوٹا بچہ خود کو سمجھتا تھا آج اپنے گھر کا اور نواجوان نسل کا بڑا بن گیا تھا۔ایک ساتھ اتنے درد اتنی چوٹیں سہی تھیں۔وہ ان چند دن میں ہی نا جانے کتنے سال بڑا ہو گیا۔وہ یوتھ لیڈر کے طور پر آزادی کی جنگ لڑنے کے لئے تیار ہو چکا تھا۔اس نے میدان جنگ میں پہلا قدم رکھا تو وہ بالکل بھی لڑکھڑایا نہیں تھا۔اس کے سامنے کبھی بھائی کی تڑپتی لاش آتی تو کبھی اپنے دوست کا جسد خاکی اس کی آنکھیں نم کر دیتا۔اس کاجوش بس آزادی تھا۔جب احتجاج ختم ہوا تو وہ گھر واپس پہنچا۔اس نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اس کے گھر کے دروازے پہ کھڑے ہیں۔ جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوا تو اس نے اپنی تینوں بہنوں کی لاشیں دیکھیں۔ماں بھی گولی سے زخمی تھی اور اس کی سانس لڑکھڑا رہی تھی۔”بیٹا دیکھو تم۔تم جس آرمی کی تعریفیں کر رہے تھے اس نے آج کیا کیا۔تمہاری تینوں بہن کو ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن ہم لڑ پڑیں اور انہوں نے ہم پہ گولیاں چلا دیں۔میری وادی کے لئے میرا اور دوسرے لوگوں کا بہتا لہو ایک دن ضرور رنگ لائے گا”اس کی ماں لڑکھڑائی ہوئی زبان میں بولی اور پھر اس کی ماں کی آواز ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی۔وہ جسے کل اس بات کا بھی نہ بتایا گیا کہ اس کا باپ شہید ہوا ہے آج اپنے پورے خاندان کی لاشیں اٹھتا دیکھ رہا تھا۔وہ جنازہ اٹھائے جا رہے تھے لیکن ان میں بلا کا حوصلہ تھا وہ گولیاں کھاتے لیکن ان کی زبان آزادی کا نعرہ لگانے سے نہ رکتی۔وہ کئی جناز اٹھاتا رہا کہ ایک دن کسی بزرگ شہری کا جنازہ اٹھائے وادی کے لوگ قبرستان کی جانب گامزن تھے۔جب فوج نے ان پہ فائرنگ شروع کر دی۔فوج کسی بھوکے شیر کی طرح ان پہ جھپٹ پڑی تھی۔
اسی اثنا میں وہ بھی فائرنگ کی زد میں آ کر زمین پہ گر گیا۔اسے کمر پہ گولی لگی وہ زخمی ہو کے گر پڑا تھا مگر اس نے حوصلہ نہیں ہارا اور پھر سے اپنے پائوں پہ کھڑا ہوا۔مگر اب کی بار سامنے سے وار ہوا اور دو تین گولیاں سینے سے پار ہو گئیں۔وہ زمین پہ گر پڑا اور اسے اپنی سانسیں دم توڑتی محسوس ہونے لگی۔آخر میں اس نے یہ منظر دیکھا کہ چند لوگ اس کی جانب بڑھ رہے ہیں مگر اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا اور پھر اندھیرا چھٹا نہیں تھا۔وہ اپنے خاندان سے بچھڑا آخری چراغ تھا جو اب گل ہو گیا اور اپنے خاندان سے مل گیا۔اس کا کشمیر ایک دن خوشحال ہونے والا ہے اس کے خاندان اور وادی کے نوجوانوں کا لہو ضائع نہیں جائے گا۔وہ اپنا آپ قربان کر کے آئندہ آنے والی نسلوں کو آزادی کا پیغام دے گیا۔اس نے اپنی لڑکھڑاتی سانس کے ساتھ فقط یہ نعرہ لگایا تھا۔”کشمیر بنے گا پاکستان”
ایک خاموش مجاہد کی داستان
ازقلم/اویس
کشمیر کے نام۔
برہان وانی کے نام۔
5 فروری کشمیر ڈے