دوحہ (رپوٹ:افتخارراغب)قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم ’بزمِ اردو قطر‘ قائم شدہ 1959ء کے زیرِ اہتمام کلاسیکی شاعر میر سوز دہلوی کی یاد میں عالمی آن لائن طرحی مشاعرے کا انعقاد 24 فروری 2023 بروز جمعہ کی شام کو ہوا جس میں مختلف ممالک کے شعرا نے شرکت کی۔ مشاعرے کی صدارت ہندوستان کے معروف تعمیری ادب کے ترجمان شاعر جناب سرفراز بزمی نے فرمائی جب کہ قطر میں آہنگی آہنگ و منفرد لہجے کے مشہور شاعر جناب منصور اعظمی نے مہمانِ خصوصی کی مسند کو رونق بخشی۔
مہمانِ اعزازی کے حیثیت سے امریکہ سے ڈاکٹر احمد ندیم رفیع اور انگلینڈ سے ڈاکٹر قیصر عباس زیدی شریکِ مشاعرہ ہوئے۔ نظامت کے فرائض بزمِ اردو قطر کے نائب سکریٹری سید فیاض بخاری کمال نے ادا کیے اور تلاوتِ کلامِ اللہ سے بابرکت آغاز بھی فرمایا۔ بزم کے چیئرمین ڈاکٹر فیصل حنیف نے مہمانان کا استقبال کیا اور میر سوز دہلوی کی شاعری و شخصیت پر مختصر گفتگو کی ساتھ ہی آپ نے گزشتہ دنوں اس دارِ فانی سے کوچ کرنے والے بزم کے دیرینہ ساتھی و معروف شاعر ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی جو گزشتہ 15 سال سے تقریباً ہر طرحی مشاعرے میں شریک رہے، بزم کے خیرخواہ و سرپرست عبد الحمید اور معروف شاعر و ادیب امجد اسلام امجد اور آواز کے جادو گر ضیا محی الدین کی رحلت پر بزمِ اردو قطر کی جانب سے تعزیت پیش کی اور اظہارِ افسوس کیا۔ اس کے بعد بزمِ اردو قطر کے صدر جناب محمد رفیق شاد اکولوی نے بھی مرحومین کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے بعد دعائے مغفرت کی جس میں تمام حاضرین نے شرکت فرمائی۔
یوں تو بزمِ اردو قطر برسوں سے طرحی مشاعروں کا انعقاد کر رہی ہے اور سیکڑوں طرحی مشاعرے منعقد کر چکی ہے جن میں سالانہ طرحی حمدیہ، طرحی نعتیہ،طرحی مزاحیہ اور طرحی نظمیہ مشاعرے وغیرہ شامل ہیں لیکن گزشتہ کچھ ماہ سے اہم کلاسیکی شعرا کی یاد میں یومِ پیدائش کے اعتبار سے بالترتیب طرحی مشاعرے کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں ولی دکنی، مرزا محمد رفیع سودا اور سراج اورنگ آبادی کے بعد اس بار میر سوز دہلوی (1721-1798) کی یاد میں ان کے دو مصرع ہائے طرح، "سر تو حاضر ہے تیغِ یار کہاں” اور "جھوٹے وعدوں سے ہمیں بہلا گیا” کو دے شعرائے کرام کو دعوتِ سخن دی گئی جس پر مختلف ممالک کے شعرا نے اپنی معیاری غزلوں کے ساتھ لبیک کہا اور شرکت کر کے پروگرام کو کامیاب بنایا۔ جن میں صدرِ محفل جناب سرفراز بزمی، مہمانِ خصوصی جناب منصور اعظمی اور مہمانانِ اعزازی ڈاکٹر احمد ندیم رفیع اور ڈاکٹر قیصر عباس زیدی اور ناظمِ مشاعرہ سید فیاض بخاری کمال کے علاوہ قطر سے جناب محمد رفیق شاد اکولوی، ناچیز افتخار راغبؔ، جناب مظفر نایاب، ڈاکٹر وصی بستوی، جناب انعام عازمی، جناب شہزیب شہاب اور جناب محمد طلال فاضل؛ ہندوستان سے شاعرِ خلیج جناب جلیل نظامی، جناب شاذ جہانی (آلوک کمار شریواستو)، جناب فاروق رضا، محترمہ نزہت نوشین، ڈاکٹر نائلہ افشاں، جناب اصغر شمیم اور ڈاکٹر ناصر الدین ناصر؛ متحدہ عرب امارات سے جناب شہباز شمسی؛ نیپال سے جناب جمشید انصاری اور امریکہ سے محترمہ رضیہ کاظمی کے نام شامل ہیں۔
سب سے پہلے قطر کے محمد رفیع کے طور پر مشہور جناب عبد الملک قاضی نے اپنی دلکش آواز میں میر سوز دہلوی کی غزل پیش کی جسے حاضرین نے خوب سراہا۔ اس کے بعد مشاعرے میں شعرائے کرام نے اپنی غزلیں اپنے اپنے مخصوص انداز میں پیش کر کے اپنے حصے کی داد و تحسین وصول کی۔ جو شعرا کسی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے ان کی غزلوں سے منتخب اشعار بھی مشاعرے میں پیش کیے گئے۔
مہمان اعزازی ڈاکٹر احمد ندیم رفیع صاحب نے فرمایا کہ وہ تقریباً 15 سال سے بزم کے طرحی مشاعروں میں گاہے بہ گاہے امریکہ سے ای میل کے ذریعے غائبانہ شرکت کرتے رہے ہیں اور کورونا کے دور میں منعقد ہونے والے آن لائن مشاعروں نے براہِ راست شرکت کا موقع بھی فراہم کیاجن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ آپ نے فرمایا کہ بزم کے طرحی مشاعروں کے سبب ہی برسوں بعد آپ نے مشقِ سخن کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ مہمان خصوصی جناب منصور اعظمی نے بھی فرمایا کہ ہم نے شاعری کا باضابطہ آغاز بزمِ اردو قطر ہی سے شروع کیا اور اہلِ بزم کی صحبت میں طرحی مشاعروں اور تنقیدی نشستوں سے بہت کچھ سیکھا اور آج جس مقام پر ہیں اسی کی بدولت ہیں۔ آپ نے بھی بزم کے ذمہ داران کا شکریہ ادا کیا۔
صدرِ محفل جناب سرفراز بزمی نے تمام شعرا کی کاوشوں کو سراہا اور فرمایا کہ یوں تو بے شمار طرحی محفلوں میں شرکت کا موقع ملتا ہے لیکن جس طرح کی معیاری غزلیں بزمِ اردو قطر کی محفل میں سننے کو ملتی ہیں ویسا معیار کہیں اور نظر نہیں آتا۔ آپ نے تمام شعرا اور منتظمین کو مبارکباد پیش کی اور شکریہ ادا کیا۔ آخر میں بزم اردو قطر کے صدر جناب محمد رفیق شاد اکولوی نے مہمانان اور تمام شعرا و حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔
میر سوز دہلوی کی غزلوں اور طرحی غزلوں سے چند منتخب اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں:
حسن کو خوئےاحتیاط غضب
عشق کو ضبط انتظار کہاں
دوگھڑی ٹھہر جا روپہلی شام
روز ملتے ہیں جاں نثار کہاں
پھر نہ کہنا کہ حوصلہ کم تھا
"سر تو حاضر ہے تیغ یار کہاں "
اف جگر چیرتی ہوئی آواز
کوئی روتا ہے زار زار کہاں
سرفراز بزمیؔ،ہندوستان
آسماں! کیا تجھے نہیں معلوم
اس زمیں پر ہے انتشار کہاں
ہر طرف سے میں ہوگیا مایوس
اب کروں تیرا انتظار کہاں
سب اندھیروں کے کار و باری ہیں
روشنی کا ہے کار و بار کہاں
بوجھ تھا مایوسیوں کا دوش پر
حوصلوں سے میں مگر اڑتا گیا
فضل حق سےخوش نصیبی تھی مری
میں بھی اے منصور دوحہ آ گیا
منصورؔ اعظمی،دوحہ قطر
موجِ آوازِ پائے یار کہاں
میں سرِ بامِ انتظار کہاں
حُسنِ خیرہ کو بے نقاب کرے
چشمِ حیراں کو اختیار کہاں
تیرے حُسنِ نگاہِ کم کی خیر
دھڑکنوں کا مری شمار کہاں
پھول بن کر ِ کِھلا ہوں تُربت پر
بعد از مرگ بھی قرار کہاں
ڈاکٹر احمد ندیم رفیعؔ،امریکا
اس کے در پر بھی جا کے دیکھ لیا
بے قراری کو ہے قرار کہاں
جو بھی ہے اختیار اس کا ہے
مجھ پہ خود اپنا اختیار کہاں
ہر گھڑی دل کا خون ہوتا ہے
موت آتی ہے ایک بار کہاں
جس پہ تکیہ میں کر سکوں قیصر
مجھ پہ وہ التفات یار کہاں
ڈاکٹر قیصرؔ عباس زیدی،انگلینڈ
یہ اسی کی ہے صدائے بازگشت
دے کے ہنگامے جو سناٹا گیا
سستی شہرت کی کہانی مختصر
روشنی مدھم ہوئی سایہ گیا
جامِ جم کا تھا جو عادی بادہ کش
اوک سے اس کو بھی پینا آگیا
روشنی کی جگہ اندھیرے ہیں
جڑ گئے چاندنی کے تار کہاں
تیرے ہو جائیں تجھ میں کھو جائیں
ہم کو اتنا بھی اختیار کہاں
مستقل سانس لے رہا ہے جلیلؔ
مطمئن دل کو بھی قرار کہاں
شاعرِ خلیج جلیلؔ نظامی،ہندوستان
جس کو ہے کامل یقیں الله پر
وہ سمجھ لو اپنی منزل پا گیا
شامِ وعدہ ہے ، نہ ہم سے پوچھئے
آج کا دِن آپ کا کیسا گیا
ظرف اپنا آزمانے کے لِئے
شاذؔ کو جتنی ملی، پیتا گیا
ہِجر میں خود پہ اِختِیار کہاں
وصل میں تابِ اِنتظار کہاں
ہُوں سُخن فہم ، یہ بہت ہے مُجھے
شاعروں میں مِرا شُمار کہاں
نَوجوانی میں تھا جہاں دِل کش
رہ گیا اب یہ خوشگوار کہاں
شاذؔجہانی،نوئڈا،انڈیا
اس کا مجھکو ہے انتظار کہاں
وہ نہیں ہے تو پھر قرار کہاں
تیرے بن ،اغ و بن ہوئے صحرا
اب گلوں میں بھی وہ نکھارکہاں
جبر تیرا ہے عدل گاہوں میں
تیری باتوں کا اعتبار کہاں
زلزے رب کے حکم سے ہیں شاد
ان پے انساں کا اختیار کہاں
محمد رفیق شادؔ اکولوی،قطر
جس طرف پستی گئی دریا گیا
اشک چشمِ ابر میں کیوں آگیا
آب پاشی کیا ہوئی اس شوخ کی
کیا ہوا کیوں نخلِ دل مرجھا گیا
ٹوٹ جائے گت یقیناً بندِ ضبط
اور اگر سیلاب کو روکا گیا
جتنے کھوٹے تھے سب اترانے لگے
کس کسوٹی پر انھیں پرکھا گیا
افتخار راغبؔ،قطر
وہ تکبر کا خلفشار کہاں
خاکساروں کا انکسار کہاں
منتشر کر کے روحِ امن و امان
پوچھتے ہیں، ہے انتشار کہاں
جانچ لیجے نقوش واضح ہیں
آئنے پر مرے غبار کہاں
آج گلشن خزاں رسیدہ ہے
آج رعنائی بہار کہاں
مظفر نایابؔ،قطر
ایک جھٹکا نزع کا بتلا گیا
کیا کسی کے ہاتھ آیا کیا گیا
پھر کہاں جائیں گے ہم اہل جنوں
دشت سے بھی دل اگر اکتا گیا
ابتدائے ہجر کا وہ ایک پل
سوچ کر سارا بدن تھرا گیا
کیا مری آنکھیں ہی اب پتھرا گئیں
یا نہالِ دل وصی مرجھا گیا
ڈاکٹر وصی الحق وصیؔ،قطر
جاں بلب منتظر ہے چشمِ امید
موت کو تھوڑا انتظار کہاں
مجھ سا کوئی ستم زدہ کیا ہو
تم سا کوئی ستم شِعار کہاں
دستِ محنت میں کاسئہ تدبیر
آئی حسرت بروئے کار کہاں
ہیں وہ در پردہ ہماری سوچ میں
وہ جو آئے عقل کا پردہ گیا
جب سنا ہے قبر میں آئیں گے وہ
شاد ہو کر پھر مرا لاشہ گیا
ان کے در پر حاضری دے کر کمال
شادماں لَوٹا جو افسردہ گیا
فیاض بخاری کمالؔ،قطر
مجھ کو ایسے لوح پر لکھا گیا
وقت کے محور سے میں کٹتا گیا
ہائے جس موسم کو میری فکر تھی
لوٹ کر آیا نہیں ایسا گیا
ہو گیا کس کو میسر وہ بدن
کون آخر رزق میرا کھا گیا
کوئی تو پوچھے کے سوئے کیوں نہیں
کوئی تو پوچھے کہ دن کیسا گیا
وہ کہاں اور کہاں پسند اس کی
میں کہاں اور مرا شمار کہاں
اب تو اے بخت بخش دے مجھ کو
مجھ پہ کچھ بھی ترا اُدھار کہاں
انعام ؔعازمی،قطر
بارِ مکر و دغا سے جھک جائے
ایسی اب شاخِ اعتبار کہاں
جن کے لفظوں سے جی اٹھیں کردار
وہ قلم، وہ کہانی کار کہاں
گردشِ شوق کا جو رکھے خیال
آشنائی کا وہ مدار کہاں
آئے پھر درد کی بہار شہابؔ
قحطِ غم میں مجھے قرار کہاں
شاہزیب شہابؔ،قطر
گر کے اس کی آنکھ سے رخسار پر
میں زمانے کی نظر میں آ گیا
اس سے ملنے کی امیدیں بہہ گئیں
بارشوں میں اس کا نقش پا گیا
ہے توازن کس قدر پرواز میں
کس ترازو میں ہے پر تولا گیا
پھر کہیں بھی میں نظر آیا نہیں
جب سے تیری آنکھ میں دیکھا گیا
شہبازؔ شمسی، متحدہ عرب امارارت
پیاس کی شدت سے جلتی ریت پر
خود کو تشنہ لکھ کے اک دریا گیا
برہمئ زلف جاناں بڑھ گئی
ضبطِ غم سے دل جہاں اکتا گیا
تیر نظروں سے چلا کر تم گئے
ہم ہوئے گھایل، تمہارا کیا گیا
ایک کانٹا پھر خزاں میں اے رضا
گلشن احساس کو مہکا گیا
فاروق رضاؔ شیگاؤں،ہندوستان
جو گزرتا رہے، گزرنے دوں
یہ مرا دل ہے رہگزار کہاں
جانتا ہوں حقیقتِ اشیاء
اب مرا ان پہ اعتبار کہاں
کیا ہوا تیرا لشکرِ جرار
رہ گئے تیرے شہسوار کہاں
خوب برسی گرمئ ہجر و فراق
یہ دسمبر تو ہمیں جھلسا گیا
ازرہِ ہمدردی اک ناخن کے ساتھ
ایک بھرتے زخم کو کھولا گیا
اس نے چاہا تھا کہ میں دریا بنوں
اور میں بہتا گیا بہتا گیا
محمد طلال فاضلؔ، قطر
وہ چمن میں اک جھلک دکھلا گیا
پھول کیا کانٹوں کو بھی مہکا گیا
ہائے میری تشنگی کو دیکھ کر
میرے قدموں میں سمندر آ گیا
ہے سفر اتنا ہی بس انسان کا
تنہا آیا تھا یہاں تنہا گیا
میں نے اک مقتول کی دی تھی خبر
قتل کا الزام مجھ پر آ گیا
نزہت نوشینؔ،ہندوستان
ہجر کی عادت نے رسوا کردیا
وصل کی شدت سے دل گھبرا گیا
رنگ آنکھوں میں اترنے کیوں لگے
کون دستک دے کے دل دھڑکا گیا
میں محبت کی نگہبانی کروں
سن کے تیری بات دل گھبرا گیا
ضبط کی قید میں پڑا یہ دل
دھڑکنوں کا مری شمار کہاں
جانتے ہیں یہ زخم سینے کے
تیرے تیروں کا اب شمار کہاں
تم مجھے زندگی سے پیارے ہو
پر تمھیں مجھ پہ اعتبار کہاں
شعاعؔ نور، پاکستان
جھوٹےوعدوں پہ اعتبارکہاں
بسکہ قسمت میں وصل یارکہاں
باہمی اعتماد کی ہے کمی
پھر تو رشتے میں استوارکہاں
مر مٹیں جو زبان کی خاطر
ان دنوں ایسے وضع دارکہاں
نفس پرور ہوئے رضیہ ہم
کوئی اوروں کاغم گسارکہاں
رضیہؔ کاظمی،امریکہ
ڈھونڈتا ہے تو میرے یار کہاں
اس گلستاں میں اب بہار کہاں
کیسے روکوں میں خار کی کھیتی
باغ پر میرا اختیار کہاں
اب نگاہوں میں وہ خلوص نہیں
اب وہ پہلے کے جیسا پیار کہاں
ہو کا عالم ہے چار سو افشاں
چہچہاتا ہوا دیار کہاں
ڈاکٹر نائلہؔ افشاں، ہندوستان
سن کے سب مجھ سے خفا رہنے لگے
کیا پتہ کیا دل مرا فرما گیا
ایک مدت سے کہیں کھوئی تھی وہ
زندگی سے آج میں ٹکڑا گیا
اس لئے بھٹکا نہیں اصغر شمیم
راستہ اس کو کوئی دکھلا گیا
اصغرؔ شمیم ،ہندوستان
ہم ہی ہم ہیں اگر زمانے میں
ہم سے ہوتے ہو تم فرار کہاں
تم تو عادی ہو اس تواضع کے
تم کو گزری ہے ناگوار کہاں
آپ سے دور ہو کے تمثیلہ
ہم کو ملتا بھلا قرار کہاں
کس نے ہنس کر پی لیا جامِ قضا
زیست سے یہ کون ہے اکتا گیا
یوں سمایا تھا مرے اندر کوئی
دل تو دل ہے روح تک تڑپا گیا
ڈوبتے کا جو سہارا تھا کبھی
چھوڑ کر تنہا وہی تنکا گیا
کہہ کے ملنے کا نہ آیا رات بھر
ہجر کی آتش میں وہ جھلسا گیا
تمثیلہؔ لطیف پاکستان
سر تو حاضر ہے تیغِ یار کہاں
حسنِ جاناں کا انتظار کہاں۔
ہر بدن چور ہے وہ زخموں سے
کوئی شکوہ نہیں، پکار کہاں
ناصرالدین ناصر، ہندوستان
غمزۂ چشم شرمسار کہاں
سر تو حاضر ہے تیغِ یار کہاں
گُل بھی کرتا ہے چاک اپنا جیب
پر گریباں سا تار تار کہاں
ہو غزالوں کو اُس سے ہم چشمی
تیکھی چتون کہاں خمار کہاں
گاہ گاہے سلام کرتا ہے
پر وہ باتیں کہاں وہ پیار کہاں
زندگی تک ستم تو سہہ لے سوز
پھر تو یہ ظلم بار بار کہاں
میر سوزؔ دہلوی
عشق تو میرا کلیجہ کھا گیا
بس مرے اللہ، جی گھبرا گیا
گو نہیں کہتا کہ میں نے دل لیا
چور نظریں مَیں تو اُس کا پا گیا
غیر کا جا کر ہوا تو ہم کنار
جھوٹے وعدوں سے ہمیں بہلا گیا
اب نہیں ڈرنے کا تیری تیغ سے
ناز کا تیرے تو مَیں ڈھب پا گیا
کیوں تو گھبرایا ہوا پھرتا ہے آج
سوز سچ کہہ آج تیرا کیا گیا
میر سوزؔ دہلوی